یکم جولائی 1993ء کو منڈی بہاء الدین کو ضلع کا درجہ حاصل ہوا اور یوں عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوا تھا۔ پورے ضلع کی تین تحصیلوں پھالیہ، منڈی بہاء الدین اور ملکوال کے قیام کا اعلان ہوا۔ اب تین عشروں کے بعد ضلع کی ایک اور بڑی آرزو پوری ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت نے یونیورسٹی آف منڈی بہاء الدین کے قیام کی منظوری دی ہے۔ اس درسگاہ کے قیام میں بہت سارے لوگوں سماجی رہنمائوں اور سیاسی شخصیات کی جدوجہد کا ہاتھ ہے۔ یونیورسٹی کے مطالبے اور اس کے قیام کے خوش کن اعلان کے درمیان بہت سارے سخت مقام آئے۔ بہت سارے حوصلہ ہار بیٹھے‘ بہت سوں کی امیدیں ٹوٹیں لیکن بالآخر وہ خواب تکمیل کو پہنچا جس کی آرزو بھی ناممکن نظر آتی تھی۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے بجٹ سیشن میں نئے سال کے کلیدی خطاب میں جہاں پورے پنجاب کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا‘ وہیں پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی (رسول) منڈی بہاء الدین، میر چاکر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان اور پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی راولپنڈی کے بارے میں بتایا کہ ان کے لیے قانون سازی آخری مراحل میں ہے۔ یہ طویل المدتی منصوبوں کی ایک طویل کڑی ہے۔ 1122 کا سروس سٹرکچر بنانا، ٹھوکر نیاز بیگ پر عالمی معیار کا بس ٹرمینل، بارہ نئے اکنامک زونز اور کئی چھوٹے اور پسماندہ شہروں میں یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان‘ جن میں حافظ آباد، لیہ، ٹوبہ، قصور اور مظفر گڑھ جیسے شہر بھی شامل ہیں۔
یونیورسٹی آف منڈی بہاء الدین ایک خواب ہے، خواب کی تعبیر ہے۔ کئی سالوں کی جدوجہد کا ثمر ہے اور عوام کے پرانے مطالبے کی پذیرائی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے یونیورسٹی کے لیے چار ارب کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے مجوزہ تین مقامات میں سے کسی ایک جگہ کے بارے میں فیصلے کے لیے کل اجلاس ہو رہا ہے۔ اس بارے میں اتنا کہنا ضروری ہے کہ سرگودھا منڈی بہاء الدین روڈ اور گجرات منڈی بہاء الدین روڈ کے درمیان عدالت آباد تا ڈسٹرکٹ کمپلکس میری نظر میں اس کے لیے مناسب ترین جگہ ہے۔ لینڈ ایکوائرمنٹ کے لیے دو سو ملین کی رقم جاری کی جا چکی ہے۔ پہلے شنید تھی کہ اس کے لیے دو سو ایکڑ زمین خریدی جائے گی مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی کے لیے سو ایکڑ زمین خریدی جائے گی۔ بنیادی طور پر منڈی بہاء الدین ایک پسماندہ علاقہ ہے‘ نوجوان نسل کی کثیر تعداد غیر ممالک میں مقیم ہے اور کثیر زر ِ مبادلہ بھیجنے کا ذریعہ ہے۔ منڈی بہاء الدین یونیورسٹی کا قیام پنجاب حکومت کا تعلیمی میدان میں ایک انقلابی قدم ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے‘ کم ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے مہیا کردہ اطلاعات کے مطابق کمیشن اس وقت پورے ملک میں ایک سو تینتیس یونیورسٹیز کو تسلیم کرتا ہے جو ڈگری جاری کرنے کی مجاز ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں اور ان کے کیمپسز دور دراز مقامات پر موجود ہیں۔ ہماری مادر ِ علمی وہی گورنمنٹ کالج منڈی بہاء الدین ہے جو اب پوسٹ گریجویٹ کالج ہے۔ ہم نے وہاں چار سال گزارے۔ اسی کالج کے ساتھ اس کالج کا ہاسٹل تھا جس میں ہمارا قیام رہا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہاسٹل میں ہم چار لوگ ہی ہوتے تھے۔ ایک میں، ایک سید نجم الحسن اور دو اور دوست۔ ایک حنیف باورچی تھا‘ جو کھانا خوب مزے کا پکاتا تھا۔ کبھی وہاں ہمارے استاد بھی مقیم ہوتے تھے جن میں الطاف حسن قریشی‘ جو انگریزی ادب کے استاد اور لٹریچر پر اتھارٹی تھے‘ سرفہرست ہیں۔ سارا سال ہاسٹل خالی خالی لگتا تھا۔ کالج سے ہی ایک چھوٹا سا گیٹ ہاسٹل کی جانب نکلتا تھا۔ ہاسٹل کا سارا چارچُفیرا غیر آباد تھا۔ سامنے ریلوے ٹریک تھا جو ہمہ وقت ریل کی سیٹیوں سے گونجتا رہتا تھا اور ہمارا دل منیر نیازی کی طرح درد سے بھرا رہتا تھا۔
ڈگری کالج میں جس قدر بھی تعلیمی سرگرمیاں تھیں‘ ولی محمد چودھری (جو ڈبلیو ایم چودھری کے نام سے مشہور اور کالج کے پرنسپل تھے) کے دم قدم سے تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ماہرِ تعلیم تھے، انتظامی امور پر بھی بہت گرفت تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کالج میں تعینات رہے۔ ہمہ وقت کالج کی راہداریوں اور لائبریری کے چکر لگاتے، کلاس روم میں جاتے اور اساتذہ پر بھی کڑی نظر رکھتے ۔ طلبہ کی شخصیت سازی کوئی ان سے سیکھے۔ انگریزی کے استاد غلام سرور ڈوگر اور ریاض احمد، سیاسیات کے دبنگ استاد ظفر اقبال چیمہ، اردو کے ایم نواز اور اظہر حسین حسنی تھے۔ ایم نواز شاعر تھے۔ ان کے علاوہ میاں حسام الدین ایک عالم آدمی تھے اور اسلامیات کے صدرِ شعبہ تھے۔ ان کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہمارے انٹر کے نصاب میں بھی شامل تھی۔ دھیمے لہجے میں گفتگو ایسے کرتے تھے کہ موتی پروتے تھے۔
لائبریرین محمد رزاق تھے۔ شکایت اور چغل خوری ان کی عادت ِ ثانیہ تھی اور اپنے اسسٹنٹ سردار محمد بزرگ کو بیجا تنگ کرتے تھے۔ ایک انگریزی کے استاد محمد اسلم گجر خان تھے۔ بہت کم عرصہ ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی پڑھانے کا انداز کیا اعلیٰ تھا۔ کلاسیک شعرا کے سٹانزا (Stanza) تو جیسے سارے ان کو ازبر تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے عرفان راجہ سیاسیات کے لیکچرر لگے پھر مقابلے کا امتحان دے کر فارن سروس جان کی اور بطور سفیر ریٹائر ہوئے۔
اب وہاں کئی یونیورسٹیوں کے کیمپسز ہیں۔ سرگودھا یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، گجرات یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا بھی کیمپس ہے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (رسول) میں اب وائس چانسلر کی بھی تقرری ہو چکی ہے۔ عوام کی کوششیں رنگ لے ہی آئیں۔ موجودہ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی تاریخ 1912 ء سے شروع ہوتی ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں اس کا نام گورنمنٹ سکول آف انجینئرینگ اینڈ پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ (رسول) ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی (رسول) ہوا۔ 2014ء میں اس کو یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ رسول کالج سے ہی اردو کے ممتاز نقاد ڈاکٹر انور سدید نے ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ اردو کے ممتاز افسانہ نگار منشا یاد نے بھی یہیں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ اپنی تعلیم کے دوران کے قصے مزے لے لے کر سناتے تھے۔
جس جس نے اس یونیورسٹی کے لیے کوشش کی اس کی کاوش اپنی جگہ مگر ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ شہر کے ایم این اے نے اس کے لیے بہت سارے دروازوں پر دستک دی۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اور گزارشات رنگ لائیں۔ وفاقی حکومت کی وزارتِ تعلیم کو بھی کریڈٹ جاتا ہے جس کی دلچسپی سے اس یونیورسٹی کو منڈی بہاء الدین میں بنایا گیا ورنہ یہ یونیورسٹی کسی اور شہر کی قسمت میں لکھی جا چکی تھی کہ مگر اس کی مداخلت سے ہی یہ کام بخیر و خوبی انجام پایا۔ پنجاب یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے لیے ہمارے کچھ کرم فرمائوں کی مساعی بھی ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے بہت تگ و دو کی اور سات سال قبل اس کو یونیورسٹی کا درجہ دلایا، وہ سنڈیکیٹ کے ممبر بھی ہیں۔
منڈی بہاء الدین یونیورسٹی چند سال پہلے تک ایک ناممکن بات لگتی تھی۔ کم لوگ ہی یقین کرتے تھے کہ یہ خواب کبھی پورا ہو گا۔ موجودہ پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی کے مقامی ایم این اے کی شبانہ روز کوششوں سے یہ کام بخیر وخوبی اپنے انجام کو پہنچا۔ اب ضلعی انتظامیہ کا کام ہے کہ روایتی بیوروکریسی والے رویوں سے اوپر اٹھ کر اس کے لیے کام کرے۔ لوگ اب بھی محمد افسر ساجد سابق ڈپٹی کمشنر منڈی بہاء الدین کو ان کی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کا قیام بھی ایک سومبر تھا‘ قسمت جس پر مہربان تھی وہ یہ انعام لے اُڑا۔
ہاسٹل میں مقیم جن دو طالب علموں کا ذکر ہوا تھا وہ آصف اور سکندر تھے‘ آصف عین جوانی میں انتقال کر گئے۔ سکندر آج کل ایک سیاسی جماعت میں ہیں۔ یہ دونوں بار موسٰی سے تعلق رکھتے تھے‘ دونوں طبعاً راٹھ تھے۔ ویسے بھی راٹھ لوگ منڈی بہاء الدین میں صرف بار موسیٰ میں جنم لیتے ہیں۔