تحفے

الیاس بابر اعوان وفور سے بھرا ہوا تخلیق کار ہے۔ وہ پچھلے دہے میں ابھرنے والے ادیبوں اور شاعروں سے بالکل الگ تھلگ اپنی طرز کا شاعر ہے۔اس کی معاصر ادب پر پوری نظر ہے اور وہ عالمی ادب کی صورتِ احوال سے بھی پوری طرح باخبر ادیب ہے۔ الیاس بابر نے کس میدان میں ایکسل کرنا ہے اور ادب کا کون سا میدان اس کا انتظار کر رہا ہے‘ یہ اسے خود معلوم نہیں۔وہ بہت باصلاحیت نسل سے تعلق رکھتا ہے۔وہ شاعر ہے، نظم نگار ہے، غزلیں کہتا ہے اور تنقید لکھتا ہے۔ جدید تنقیدی تھیوریز اس کو جیسے ازبر ہیں۔جدیدیت، ما بعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات،لسانی مباحث اور اس سے متعلق مغربی مفکرین کی فکری اور لسانی موشگافیاں‘ سب پر اس کی نظر ہے۔بہت سے ادبی دوست احباب کہتے ہیں کہ ان لسانی مباحث سے ہمیں کیا لینا دینا ہے‘ ان کا ہمارے معاشرے سے کیا تعلق اور کیا واسطہ ہے ؟ اگر آپ سائنس کے میدان میں مغرب کی ترقی دیکھتے ہیں یا مادی ترقی کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو بلاشبہ مغرب ہم سے بہت آگے ہے‘ ان کے علم سے متمتع ہونے میں کیا برائی ہے؟ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے‘ ان نظریات کی جانکاری میں بھی معاشرے کی خیر‘ ترقی اور فلاح کا ہی پہلو ہے۔ جب تک مغرب کو آپ نہیں جانیں گے‘ ان کی خوبیاں اور خامیاں‘ دونوں ہمارے علم میں کیسے آئیں گی؟ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام معاصر علوم کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا ہو لیکن تنقید سے وابستہ لوگوں کے لیے ان علوم کا جاننا بہت ضروری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق علم کا گہوارہ ہے مگر علم وہ دولت ہے جو کسی ایک کے پاس نہیں ٹکتی۔ویسے بھی اسے فکری ایکسچینج کا نام دیا گیا ہے۔ ہمارے ادب کی روایت بہت مضبوط سہی مگر معاصر ادبی منظرنامے اور جدید نظریات سے جانکاری از حد ضروری ہے۔الیاس بابر کا اختصاص جدید تھیوریز بھی ہیں۔ اس کی چھ کتب شائع ہو چکی ہیں مگر اب اس کی نعتوں کی کتاب ''مدحت کدہ‘‘ شائع ہوئی ہے۔ یہ نعتوں کا مجموعہ ہے جو کراچی سے ہمارے دوست نے شائع کیا ہے۔ مدحت کدہ کے لیے عقیدت لازم تھی سو اس کو ہی مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس نعت میں وارفتگی ہے اور والہانہ پن بھی۔جیسے کوئی پتنگا شمع کے گرد طواف کرتا ہے۔جب پتنگا روشنی پر قربان ہوتا ہے تو وہ کچھ کہتا ہو گا‘بس جو پتنگا نہیں کہہ سکا بابر نے مدحت کدہ میں کہہ دیا ہے۔یہ سعادت نصیب والوں کو ملتی ہے۔ یوں تو بابر نے غزلیں بھی کہی ہیں اور وہ کئی معروف اشعار کا خالق ہے
جس طرح چور کو رستے کا پتا ہوتا ہے
ہر بُرے شخص کو اچھے کا پتا ہوتا ہے
مدحت کدہ کئی معروف ثناخوانوں کی حرفِ تحسین سے مزین ہے، یہ نعت نامہ اسی سال ایک دو ماہ قبل شائع ہوا ہے۔
میں پہلے ان کو درود و سلام پیش کیا
پھر اس کے بعد غلامی کو نام پیش کیا
اسی میں غزل کے مضمون نکالے ہیں:
خنجر ہے مری پیٹھ پہ سینے پہ مرے پھول
دشمن مرے کوفے سے مدینے سے مرے دوست
ارشد علی ایک دانشور تخلیق کار ہیں۔ ان کے فن پاروں میں حسیات کا فکری پہلو بہت نمایاں ہے۔وہ اشیا کو جس نظر سے دیکھتے ہیں‘ وہ عام نہیں۔ اور اس سے جو وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں‘ وہ قاری کو تخلیقی خوشی اور انبساط کے ساتھ اس کی بھی فکر کو مہمیز کرتی ہے۔میرے جہلم کے پانچ سالہ قیام کو خوبصورت بنانے والوں میں ارشد علی بھی شامل ہیں۔ وہاں میرا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا مگر میری روایتی ادبی کم آمیزی کی وجہ سے بہت کم دوست تھے جن کے ساتھ دل کی باتیں ہوتی تھیں۔ارشد علی انہی چند لوگوں میں شامل تھے۔ ''زمین زاد‘‘ ان کی سوانح ہے جس میں چھوٹے چھوٹے واقعات نے انہیں بڑا بنا دیا ہے۔زمین زاد میں ہماری ایک ایسے ہی شخص سے ملاقات ہوتی ہے۔
ان کا بنیادی شعبہ تو تعلیم ہے اور اسی سے وابستہ رہ کر گورنمنٹ کالج دینہ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوے تھے مگر ان کی کتاب پورے معاشرے کی داستان ہے۔یہ صرف ان کی اپنی کہانی نہیں‘ اس میں ہمارے بہت سارے دوستوں کے ذکر نے اسے ہمارے لیے بہت دلچسپ بنا دیا ہے۔ مرزا عبدالقیوم جو دینہ سیکنڈری سکول کے مدارالمہام تھے‘ بہت پڑھے لکھے آدمی تھے، انگریزی اور اردو ادبیات پر بہت گرفت تھی۔ انگریزی شعراکے لمبے لمبے سٹانزے ان کو یاد تھے جن کو وہ موقع محل کے اعتبار سے استعمال کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ اقبال کوثر مرحوم ایک اعلیٰ شاعر تھے، ان کے کئی اشعار بہت مشہور ہوئے۔
یہاں ہم سب گلی میں گمشدہ بچے کی صورت ہیں
جنہیں ہر ایک دروازے پہ ماں آواز دیتی ہے
شہزاد قمر، ادریز اختر، خان افتخار، شفقت چوہدری آف مدوکالس، راجہ اشتیاق احمد، چوہدری شہباز ایم این اے، ناصر محمود چوہدری، اختر عباس نقوی، غالب کے حافظ محترم رفیق، نصیر کوی (تم کتنے بھٹو مارو گے کے خالق) میاں نذیر احمد آف دینہ، گورنر الطاف حسین کے بھائی چوہدری جاوید، کرامت ساقی، میاں سدید احمد اور بہت سارے دوست جن کے ساتھ زندگی اور خوبصورت نظر آنے لگتی تھی۔یہ سارے دوست زمین زاد کے مطالعے کے دوران یاد آئے، یہ لوگ میرے لیے ایک اثاثہ ہیں‘ یہ لوگ سلامت رہیں۔
''نداے گل‘‘ ایک ایسا جریدہ ہے جس میں مشرف عالم ذوقی کا آخری افسانہ چھپا تھا۔یہ رسالہ ماہانہ ہے اور اسے دو نوجوان ادیب قاری ساجد نعیم اور شہزاد شاکر لاہور سے نکال رہے ہیں۔یہ دونوں نوجوان جذبوں سے بھرے ہوئے ہیں ورنہ ہر کوئی ادبی پرچے کو گھاٹے کا سودا سمجھ کر اپنے عشق سے باز آ چکا ہے اور اس میدان میں پبلشرز بذات خود آ چکے ہیں۔سالنامہ اور وہ بھی چھ سو آٹھ صفحات پر مشتمل‘ نکالنا کارے دارد ہے۔یہ پرچہ 2013ء میں لاہور سے شائع ہوناشروع ہوا تھا۔اس کے مدیرانِ اعزازی سید تحسین گیلانی، محمد جاوید انور اور معاون مدیروں میں شہزاد شاکر اور ڈاکٹر افتخار الحق شامل ہیں۔ یہ پرچہ افسانے کے تین حصوں، غزل کے دو، مضامین کے دو، نظم، ماکرو فکشن، انٹرویوز، انشائیہ اور گوشوں کے ایک حصے پر مشتمل ہے۔اس میں مشرف عالم ذوقی اور جمیل احمد عدیل کے علاوہ دو اور صاحبان کے بھی گوشے ہیں۔افسانہ سیکشن میں شمویل احمد، دیپک بدکی، سیدہ آیت گیلانی شامل ہیں۔غزلوں میں جلیل عالی اور یسریٰ وصال قابلِ ذکر ہیں۔توقیر تقی کا سلام سے شعر؎
کمائی اہلِ گریہ کی ہے اک رومال میں محفوظ
یہ نعمت وہ نہیں جو بیش و کم کا استعارہ ہے
نجمہ منصور نے کلیات بھی ارسال کیا اور کچھ عرصے بعد ان کی طویل نظموں کا مجموعہ ''سانس کی گرہ کھلتے ہی‘‘ نظر نواز ہوا۔نثری نظم میں نجمہ منصور کی تپسیا تین عشروں پر مشتمل ہے۔ہمارا ان سے ادبی تعلق بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ہم لوگ ایک ساتھ ہی اوراق میں چھپنا شروع ہوئے تھے۔
سانس کی گرہ کھلتے ہی نجمہ کا اپنی ماں سے مکالمہ ہے جس میں وہ دنیا کے سارے فلسفوں، گتھیوں اور معموں کا حل کرنے کا جتن کرتی ہے۔اسے معلوم ہے جس دریا کو پاٹنے کے لیے وہ اتنا عظیم مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہے‘ موت اسے کسی وقت بھی منقطع کر سکتی ہے۔اب بیٹی کا مکالمہ اپنے اختتام کو پہنچا اور درویش کا مکالمہ آغاز ہو گیا۔اس مکالمے کا نہ انت ہے نہ اختتام۔ یہ مکالمہ نجمہ کے سانس کی گرہ کھلنے تک جاری رہنا ہے۔یہی موت درویش کو زندگی کے معنی سجھاتی ہے اس کے رموز سے آگاہی کوئی اور روپ دھار سکتی ہے۔کوئی نیا موڑ آ سکتا ہے جو اسے کسی خوشگوار حیرت سے جوڑ سکتا ہے کہ اتنے بڑے تجربے کے بعد تخلیق اپنی دھارا بدل سکتی ہے۔ یہ میرے عہد کے لکھاریوں کے بھیجے وہ تحفے ہیں جو انمول ہیں کہ ان میں ہمارا عہد امر ہو گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں