کچھ عرصہ قبل ہمارے کچھ دوست برادر ہمسایہ ملک چین گئے تھے۔ واپسی پر اپنے دورے کے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔ ہمارے ایک دوست‘ جو پبلشر ہیں‘ کا کہنا تھا کہ ان کا ایک دفتر میں جانا ہوا‘ وہاں ایک لڑکی اردو میں کمپوزنگ کر رہی تھی؛ چونکہ ہماری قومی زبان لکھی جا رہی تھی تو وہ اشتیاق سے اس کی کمپوزنگ دیکھنے لگ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارے حیرت اور اشتیاق کے‘ وہ وہیں جیسے جم گئے۔ پانچ منٹ‘ دس منٹ تک وہ گڑیا نما لڑکی کو دیکھتے رہے اور جو لکھا تھا وہ پڑھتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حیرانی کی حد ہی نہیں تھی کہ لڑکی نے چار صفحات کا مضمون کمپوز کیا، دیکھا اور نوٹ کیا کہ اس میں کہیں کوئی غلطی نہیں تھی۔ ایک بھی نہیں! وہ تو پبلشر تھے‘ انہوں نے یہاں کے کمپوزر کا حال دیکھا ہوا تھا کہ کمپوزر سے زیادہ ریٹ تو پروف ریڈر کا ہے۔ کمپوزر پندرہ بیس روپے ایک صفحے کا چارج کرتا ہے تو پروف ریڈر اس سے دو گنا معاوضہ طلب کرتا ہے۔ لڑکی نے جب ایک بھی غلطی نہیں کی تو ہمارے دوست نے اس بارے میں پوچھا۔ لڑکی نے لحظہ بھر آنکھیں اوپر اٹھائیں، ان کو مٹکایا اور گویا ہوئی: اگر غلطی کروں گی تو اس کی تصحیح بھی مجھے ہی کرنا پڑے گی۔ بہتر ہے کہ کسی غلطی کا احتمال ہی نہ ہو۔ یہی سوچ اور کمٹنٹ پوری چینی قوم کی ہے۔ وہ کام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے اور کسی غلطی کی روادار تک نہیں۔ اب پوری قوم کے سامنے 2050ء کا چین ہے۔ چین جس کا دنیا میں کوئی مد ِ مقابل نہیں۔ صرف ایک ہے! وہ بھی اس لیے کہ کم از کم مغرب سارا اس کے ساتھ ہے، اس کا دریوزہ گر ہے اور اس کی سیادت کو مان رہا ہے۔ پچھلے پچھتر سال سے بھیڑ بکریوں کی طرح اس کے پیچھے چل رہا ہے۔ اس پبلشر دوست نے ہمیں ایک کتابچہ بھی عنایت کیا‘ جس کی غایت یہی ہے کہ تین عشروں کے بعد چین کس کو اپنا مد ِ مقابل سمجھتا ہے ؟ خود اس کی کیا سوچ ہے ؟ بین الاقوامی طور پر اس کا آئندہ کیا رول ہے ؟ اور چین اپنے آپ کو کس قسم کے رول کے لیے تیار کر رہا ہے ؟ یہ ایک خالص علمی تحقیق ہے؛ چونکہ اس کا تعلق براہ ِ راست ہمارے ملک سے بھی ہے، ہمارا ملک خطے میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے سو ہم نے مناسب جانا اس سٹڈی کے وہ نکات ضرور بنظرِ غائر دیکھے جائیں جو ملک ِ چین کے سامنے ہیں کہ ان کو سامنے رکھ کر وہ خود کو کہاں دیکھتا ہے؟
جولائی 1921ء سے‘ جب کمیونسٹ پارٹی وجود میں آئی تھی، اس وقت سے لے کر اب تک ان کا بنیادی تھیسز اسی پارٹی کی کامیابی ہے کہ اس کی ناکامی چین کے ممکنہ رول کی ناکامی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے بنیاد گزار اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ چین کو لامحالہ بہت سی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے یہی چین کی بنیادی اور کلیدی مشکل ہے اور یہی اس کی طاقت بھی۔ مائوزے تنگ کو ستر کے عشرے میں اندازہ تھا کہ اس کو روس سے نہیں‘ امریکا سے ہی سب سے بڑا خطرہ ہے اور وہی اس کا اوّل مدمقابل ہے۔ ستر کے عشرے کے آخری سال تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات درست سمت میں بڑھ رہے تھے مگر یہ ہنی مون جلد ہی ختم ہو گیا اور چین کو اسی وقت وہ حقیقت معلوم ہو گئی تھی جو عالم لوہار کو اس سے بھی پہلے پتا چل گئی تھی یعنی ع
لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گی تڑک کر کے
چین کا یہ خیال ہے کہ امریکا سی سی پی کو نہ صرف کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ وہ پارٹی میں ایک قسم کے Quo کے تصورات کو پروان چڑھانا چاہتا ہے اور ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ امریکا ایک چائنہ کی پالیسی کو بھی اندر خانے تسلیم نہیں کرتا اور اب تک ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چین اپنی پوری ہمسائیگی میں سکون چاہتا ہے جو امریکا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور چین کے بارڈر پر دو عشروں سے مقیم ہے۔چین کو امریکا سے دو قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ امریکا کی بڑھتی ہوی فوجی طاقت اور امریکی جمہوریت کا سافٹ امیج اس کے لیے زہرِقاتل ہے بلکہ چینیوں کی زبان میں یہ ایسی ریسیپی ہے جو چین والوں کو سوٹ نہیں کرتی۔ چین اپنے تسلسل کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک عہد ہے جو 1949ء سے 1977ء تک ہے، دوسرا 1978ء سے 1989ء تک، تیسرا 1990ء سے 2003ء اور چوتھا 2004ء سے جاری عہدِ شباب تک۔ ان چاروں ادوار میں ملک کا بنیادی مقصد ایک ہی رہا کہ ملکی استحکام، کسی غیر ملکی تسلط اور اثر کی ممانعت، ایشیا پیسفک ریجن میں کسی بھی طاقت کو دخل اندازی نہ کرنے کی اجازت اور چین کا عالمی امور ایک جاندار اور مؤثر رول۔ ان چاروں میں کسی قسم کی کمپرومائز کی کسی عرصے میں کوئی صورت نہیں۔ یہ چیزیں اٹل ہیں اور ملک کے بنیادی محور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دنیا دو پولر ہو یا ایک پولر‘ چین کا اس بارے میں کسی طاقت کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں۔ چین ایک ببر شیر ہے۔ جنگل میں ایک ہی شیر کی حکمرانی رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ سورج مغرب سے نہ کبھی طلوع ہوا ہے اور نہ چین سورج کو مغرب سے ابھرنے اور نکلنے کی اجازت دے گا۔ مغرب سے سورج کے نکلنے کا مطلب ہے کہ وہ غروب مشرق میں ہو گا لہٰذا یہ کبھی نہیں ہو گا۔ وہ جو اقبال کہہ گئے تھے؎
گیا دورِ سرمایہ داری گیا ؍ تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں بار چینی سنبھلنے لگے ؍ ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
اکیسویں صدی تک آتے آتے چین نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ کوئی سپر پاور ہے یا کوئی چھوٹی پاور ہے۔ 2050ء تک ملک کا خواب اور مطمح نظر یہ ہے کہ چین خوشحال، مضبوط، جمہوری، ثقافتی لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوبصورت ہو گا۔ اسی لیے چین اپنے مغربی حصے کو سرحد نہیں‘ اپنی Hinter Land تصور کرنے پر زور دیتا ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے اور پاکستان سے جوڑے گا۔ اس سلسلے میں وہ کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں‘ نہ سیاسی طور اور نہ مذہبی طور پر کسی کو کھل کھیلنے کی اجازت ہے۔
اس وقت چین میں رہنمائوں کی پانچویں نسل اپنے مقاصد کے حصول میں مگن ہے اور آنے والے عشروں میں اس نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ ان مقاصد کے لیے چین دور‘ نزدیک کہیں بھی جنگ کے لیے تیار ہو گا۔ اپنی سرحدوں سے کہیں دور‘ چین سے کہیں آگے۔ امریکا کا آنے والے وقت میں یعنی 2050ء تک انفرادی دولت کے حصول ایک خواب ہے جبکہ چین کا خواب قوم کی مجموعی خوشحالی اور قومی شکوہ ہے۔ صدر شی جن ایک الوالعزم لیڈر ہیں اور 2023ء سے آگے بھی اپنے اقتدار اور اختیار کی آرزو رکھتے ہیں۔ وہ ایک طاقتور حکمران ہیں۔ اپنے دو پیشروئوں‘ جو دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کے حامی تھے‘ کے برعکس وہ سسٹم کو ہلا کر رکھ دینے کے حامی ہیں۔ انہوں نے سوویں سالگرہ پر کہا کہ چین کے رستے میں جو بھی آئے گا‘ پاش پاش کر دیا جائے گا۔ یقینا وہ مائو نہیں ہیں مگر وہ اس جیسا ہونا ضرور چاہتے ہیں‘ سب کچھ وار دینے کا حوصلہ رکھنے والا‘ سب کچھ کرنے کی دھن والا۔ انہوں نے مائو اور Deng کو ملا کر اپنی الگ شخصیت بنائی ہے۔
2050ء میں چین اپنے آپ کو ''فاتح چین‘‘ اور ''ابھرتا ہوا چین‘‘ کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ چار سال قبل صدر ٹرمپ کے دورۂ چین میں صدر شی اپنے مہمان کو بیجنگ کے اس حصے میں لے کر گئے جو اب ممنوعہ علاقہ ہے۔ وہاں کسی انسان تو کیا چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں۔ وہاں ضیافت کا اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا۔ یہ پرانا بیجنگ ہے عظیم شہنشاہوں کے دور کا بیجنگ۔ وہاں ضیافت کا انتظام صرف امریکا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کیا گیا تھا۔
(اس کالم کی تیاری کیلئے رینڈ کارپوریشن کی ریسرچ سے استفادہ کیا گیا)