تسطیر‘ ادبیات‘ سپوتنک

سہ ماہی ''تسطیر‘‘ کا موجودہ دور‘ دورِ ثلاثی کہلاتا ہے۔ پرچے کی عمر کم و بیش دو عشروں سے زائد ہو چلی ہے جو بذاتِ خود ایک اعزاز ہے۔ اس کی ادارت نصیر احمد ناصر کے پاس ہے۔ وہ خود نظم کے نباض ہیں اور نظم کو پروموٹ بھی کرتے ہیں۔ ادبی پرچوں کے مدیران بہت ساری علمی فضیلتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ کوئی افسانہ نویس تو کوئی شاعر کوئی مذہبی طبع کا تو کوئی پروگریسو۔ ادب میں فقط ادب ہی نہیں‘ ایک عہد کی پوری تاریخ ہوتی ہے۔ مدیر کا اصل کام ادبی رجحانات کا تعین ہوتا ہے۔ اس کی ذاتی لیاقت عہد کو ساتھ لے کر چلتی ہے‘ وہ عہد کے ساتھ نہیں چلتا۔ بہت سارے ایسے مدیر تھے جن کا کہا حرفِ آخر ہوتا تھا۔ ان کے پاس علمی استعداد سے متصف ہونے کی وجہ سے اتھارٹی ہوتی تھی۔
نیاز فتح پوری‘ جن کا نام نیاز خان اور تاریخی نام لیاقت علی خان تھا، ''نگار‘‘ نکالتے تھے۔ ''نگار‘‘ میں چھپنا اعزاز نہیں‘ سند تھی۔ پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب ادبی جرائد میں چھپنے کے لیے کڑا معیار تھا۔ نیاز فتح پوری پولیس میں بھی بھرتی ہوئے اور ہنڈیا بھارت میں تعیناتی ہوئی۔ اسی ہنڈیا قصبے میں ملا دو پیازہ کا انتقال ہوا تھا۔ مرض الموت میں ملا نے پوچھا: یہ کون سا گائوں ہے؟ بتایا گیا ہنڈیا۔ فرمایا: دو پیازہ نے ہنڈیا میں ہی آخری سانس لینا تھی۔ نگار نے ہی خدا نمبر اور قرآن نمبر نکالے۔ نیاز نے 1937ء میں مصری لکھاری توفیق الحکم کے ڈرامے اہل الکہف کا ترجمہ اصحابِ کہف کے نام سے کیا تھا۔ باقی مدیران بھی اپنی مثال آپ تھے‘ کس کس کا نام لیا جائے۔ ایک دور آیا کہ ادھر پرچے نکلے اور ادھر بند ہوتے چلے گئے۔ ادبی جریدہ نکالنا ایسی محبت ہے جس میں محبوب روٹھا ہی رہتا ہے؛ تاہم نصیر احمد ناصر کا کمال ہے کہ وہ کسی ایک ادیب پر تکیہ نہیں کرتے، ان کی طبیعت نئے تجربات پر آمادہ رہتی ہے۔ یہ ذخائر کی دریافت کا سلسلہ ہوتا ہے جو ایک باخبر آدمی ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ وہ نظم، غزل، افسانہ، ہائیکو اور تنقید لکھتے ہیں مگر نظم ان کا بنیادی جوہر ہے۔ آزاد نظم کے کارواں کے وہ ہراول دستے میں شامل تھے ہی‘ اب ان کی زیادہ توجہ نثری نظم ہے۔ وہ ایک اسلوب ساز مدیر ہیں۔ زیر نظر شمارہ میں معاون مدیرہ صوفیہ ذاکر ہیں۔ یہ ایک کتابی سلسلہ ہے اور گگن شاہد اور امر شاہد کے انصرام سے شائع ہوتا ہے۔ شمارے کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں نظم کا حصہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ تسطیر کو شروع سے لے کر اب تک اردو دنیا کے معروف لکھاریوں کا ساتھ دستیاب رہا ہے۔ موجودہ عہد کے تمام پرچوں میں یہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ بہرحال اس نے اپنی اشاعت جاری رکھی ہے۔ مدیر کی ادب سے محبت کی عزت افزائی ہونی چاہیے۔ ویسے ادارت کی ذمہ داریوں نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھارا ہے۔ کس کس ستارے کا نام لیا جائے۔ گلزار، محمد اظہار الحق، احسان اکبر، اقبال آفاقی، قاضی افضال حسین، اورنگ زیب نیازی، ناصر عباس نیئر، ناصر بغدادی، جلیل عالی، افتخار بخاری، رشید امجد، سلیم کوثر، فہیم شناس کاظمی، ایوب خاور، جمیل الرحمن، ابرار احمد، عابد سیال، نوجوان نقاد الیاس بابر اعوان، جواز جعفری، تنویر قاضی، کومل راجہ اور ان کے علاوہ بہت سے اہم ادبا شامل ہیں۔ تسطیر کی ایک اور پہچان مدیر کا لکھا ہوا اداریہ ہوتا ہے جس سے نئے مباحث کے در وا ہوتے ہیں۔ اس دفعہ ان کا لکھا ہوا اداریہ ''ناموجود‘‘ ہے۔
مجلہ ''ادبیات‘‘ اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد ڈاکٹر یوسف خشک کی نگرانی اور اختر رضا سلیمی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ زیر نظر شمارہ نمبر 126، 127 اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں خصوصی گوشہ معروف شاعر افتخار عارف کے لیے مخصوص ہے۔ ان کے سوانحی خاکے، انٹرویو، نظموں اور غزلوں کے علاوہ ان کا غیر مطبوعہ کلام بھی شامل ہے۔ ایک سرکاری پرچہ ہونے کے باوجود‘ ہر ادیب اسے اپنا پرچہ ہی سمجھتا ہے۔ اختر سلیمی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک خوبصورت شاعر اور ناول نگار ہیں۔ ان کی استھیٹک سینس ظاہر و باہر ہے۔ پرچہ خوش سلیقگی سے شائع کیا جاتا ہے کہ اس نے تخلیق کے معیار پر سمجھوتا سیکھا ہی نہیں۔ زیر نظر مجلہ میں ملک کے معروف ادیبوں کی نگارشات کو زینت بنایا گیا ہے۔ یوسف خشک کے آنے سے بھی اکادمی میں ایک تخلیقی تحرک پیدا ہوا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اکادمی کو ایک کامیاب ادارہ بنائیں اور ادب اور ادیب کے درمیان ایک پُل بنیں۔ یہ سب کچھ کرنے کی ان میں صلاحیت ہے۔ ویسے ادبیات کا مجلہ واحد اشاریہ ہے جس سے ادیبوں کو پتا چلتا ہے کہ ان کے لیے بنائی گئی اکادمی ادبیات پاکستان کہیں موجود ہے۔ اختر رضا سلیمی نے بہرحال اس پرچے کا معیار قائم رکھا ہوا ہے۔ ان کے انتخاب کے ذریعے اہم سینئرز اور باصلاحیت جونیئرز کا ایک خوبصورت امتزاج پڑھنے کو ملتا ہے۔
آغا امیر حسین ایک کامیاب سیلف میڈ شخصیت تھے۔ ریگل چوک میں واقع ایک ادارے کے مالک، صحافی، ناشر، سفر نامہ نگار، مؤرخ اور سیاسی کارکن۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوست تھے اور پارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوں سے ان کا ذاتی تعلق تھا۔ ایک کامیاب پبلشنگ ہائوس کھڑا کرنے کے پیچھے ان کی دیانتدارانہ بزنس زندگی تھی۔ ہم نے ذاتی طور پر ان کو کتابوں پر مصنفین کو رائلٹی کی رقم بھیجتے دیکھا۔ ہر ماہ ایک کتاب ایک مجلہ کے عنوان کے تحت کتب شائع کرتے رہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ دلّی کے رہنے والے اور نجابت و شرافت کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ ان کو دیکھ کر کہا جا سکتا تھا ؎
بڑا جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوشؔ سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں
وہ لاہور کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ نیک اولاد بموجب صدقہ جاریہ‘ راشد آغا اور ندیم آغا نے ان کے ستائیس سالوں سے جاری ''سپوتنک‘‘ کا آغا امیر حسین نمبر شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ آغا صاحب کی ادبی روایت کے تتبع میں ان کا سفر نامہ انگلستان بھی اس خصوصی نمبر کا حصہ بنایا۔ ان کے اس سفر نامے کا نام ''اے جے کے لندن‘‘ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ آغا صاحب نے ہمیں بتایا کہ انگلینڈ میں ان دنوں ایوب صابر بھی مقیم تھے۔ انہیں پتا چلا تو انہوں نے آغا صاحب کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ وہاں بہت سارے ادیب اور دوست جمع تھے۔ بات چیت کے اختتام پر سارے لوگ ایک ایک کر کے آگے بڑھے اور پانچ‘ دس پائونڈ پیش کرنے لگے۔ آغا صاحب کے مزاج کو یہ اچھا نہ لگا اور اس کو اپنی سبکی سمجھا۔ پوچھا کہ یہ نذرانہ کس لیے دیا جا رہا ہے۔ بتایا گیا کہ جناب برا نہ منائیں! یہ ادبی روایت ہے، یہاں پاک و ہند سے جو ادیب بھی آتا ہے وہ یہ ''نذرانہ‘‘ ہنسی خوشی وصول کرتا ہے۔ بعض تو مہمان ادیب یہ کہتے بھی سنے گئے کہ میرے پاس وقت کم ہے‘ ایک اور تقریب میں بھی جانا ہے، آپ رقم دے دیں اور ساتھ ہی جانے کی اجازت بھی۔ آغا صاحب نے تھوڑے رنج اور تھوڑے پیار سے اس طرح کی رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس خصوصی نمبر میں ان تمام کالموں کو بھی یکجا کر دیا گیا ہے جو ان کی وفاتِ حسرت آیات پر لکھے گئے تھے۔ ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں ان کی بیگم محترمہ شمیم آغا، آئی اے رحمن، شاہد حامد، سید افضل حیدر، حسن نثار، آغا گل، عامر متین، نیلما ناہید درانی اور کئی اہم ادبا شامل ہیں۔ ان کی بیگم اپنے تاثرات میں لکھتی ہیں کہ ان کی اکسٹھ سالہ ازدواجی زندگی میں وہ جب بھی کسی دلہن کے سر پر ہاتھ رکھتیں‘ ہمیشہ یہ دعا دیتیں کہ خدا اس بچی کو بھی ایسا ہی شوہر ملے جیسا انہیں ملا۔ ان کے پوتے‘ پوتیوں نے بھی ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ سید افضل حیدر نے اپنی تحریر میں آغا صاحب کے لیے ایک فارسی مصرع لکھا ہے۔ ہم پورا شعر ان کی نذر کر رہے ہیں ؎
سر در قدمِ یار فدا شد چہ بجا شد ؍ ایں بارِ گراں بود ادا شد چہ بجا شد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں