بازنطین رومن سلطنت کا مشرقی حصہ تھا۔ ناسس نامی شہزادہ ایتھنز کے حاکم کا بیٹا تھا۔ ناسس کے بیٹے Byzas نے یورپ کے جنوبی ساحل پر ایک گائوں آباد کیا‘ اسی کے نام پر اس کا نام بازنطین ہوا۔ بازنطین‘ جو بعد میں ارطغرل والا قسطنطنیہ اور ارطغرل کا کردار نبھانے والے اداکار انگین آلتان کا استنبول بنا۔ قسطنطنیہ 1930ء میں استنبول ہو گیا۔ ترکی دنیا کا سولہواں بڑا مینوفیکچرنگ ملک ہے۔ 147 بلین ڈالر! اندازہ ہے کہ ایک عشرے کے دوران ترکی روس، کینیڈا اور سپین کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔
ترک ڈرامہ ارطغرل کی کامیابی کے بعد وطن عزیز اور ترکی کی دو پروڈکشن کمپنیوں نے مل کر عظیم مجاہد صلاح الدین ایوبی کی جدوجہد اور زندگی پر ایک ڈرامہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک مقبول ترین ڈرامہ ارطغرل غازی عثمانی خلافت کے بانی عثمان کی اصل زندگی پر بنایا گیا ہے۔ اب اس سیکوئل کے تیسرے حصے 'کورلش عثمان‘ کو ریلیز کیا جا رہا ہے۔ اسی سیکوئل کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی خواہش تھی اور انہوں نے اس کا کئی بار اظہار بھی کیا کہ اپنے ہیروز اور اپنی تاریخ کو نئی نسل تک پہنچانے کے لیے ایسے ڈراموں کی اشد ضرورت ہے۔ ارطغرل کا مرکزی کردار انگین آلتان یہاں بہت مقبول ہوا۔ یوں تو وہ 2005ء سے اداکاری کے میدان میں ہے اور وہاں کئی سیریلز میں کامیاب اداکاری کے جوہر دکھا چکا ہے مگر اس کے جوہر ارطغرل میں ہی کھلے۔ یہاں اس کے ساتھ جو سلوک اور فراڈ ہوا‘ وہ بھی ایک انوکھی کہانی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ ابھی تک فراڈیے کی ضمانت نہیں ہوئی۔ یہ ہمارے عمومی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایک مقبول ترک اداکار کو یہاں بلا کر اور اسے جھوٹ موٹ کی کہانیاں سنا کر لوٹنے کی کوشش کی گئی۔ معاملہ قانون نافذ کرنے والوں اداروں تک پہنچا‘ سوشل میڈیا پر شور مچا اور ہم نے نیک نامی کے بجائے اپنے لیے جگ ہنسائی کا سامان بہم کیا۔
چونکہ مذکورہ ڈرامہ ہماری تاریخ کے بہت اہم جنگجو کے بارے میں ہے لہٰذا ان امور پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اب بھی صلاح الدین ایوبی کے بارے میں صحیح معلومات کی عدم فراہمی ایک بڑا سوال ہے۔ حیرت کی بات ہے اتنی اہم شخصیت کے بارے میں بنیادی باتوں پر بھی پردہ پڑا ہے۔ کچھ ایسی باتیں ہیں جن کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔صلاح الدین کی حیات بلاشبہ ایک ہیرو کی زندگی ہے اور زندگی نشیب و فراز کا نام ہے کبھی مواقع ملتے ہیں‘ کبھی ضائع ہوتے ہیں۔ جو مواقع سے فائدہ اٹھا گیا وہی سکندر ٹھہرتا ہے‘ اسے ہی مقدر کا سکندر کہتے ہیں۔
عماد الدین زنگی موصل شہر کا حاکم تھا‘ ان دنوں تکریت کے قلعے‘ جو دریاے دجلہ کے کنارے پر واقع تھا‘ کی قلعہ داری صلاح الدین کے والد ایوب کے پاس تھی۔ ایوب کا ایک بھائی اسدالدین شیر کوہ تھا۔ صحیح معنوں میں شیر بلکہ وہ دو شیروں کا مجموعہ تھا؛ ایک اسد اور دوسرا شیر کوہ۔ دونوں بھائی دو شیر ہی تھے۔ زنگی کو دشمن سے شکست ہوئی تو واپس موصل پہنچنا چاہتا تھا مگر دشمن سر پر پہنچ گیا تھا، پیچھے دشمن‘ آگے دریا۔ تب ایوب اس کی مدد کو آیا‘ اسے کشتیاں فراہم کیں اور دریا پار کروایا۔ ادھر عمادالدین زنگی موصل پہنچا تو چند ماہ بعد ہی ادھر ایوب کو دربارِ بغداد سے تکریت کی قلعہ داری سے ہمیشہ کے لیے فارغ کر دیا گیا۔ ایوب کو زنگی نے بعبلک کی قلعہ داری دے دی گئی۔ جب دونوں بھائی تکریت سے نکل رہے تھے‘ تب صلاح الدین کی ولادت ہوئی۔ تکریت عراق میں واقع ہے۔
ہم ایوبی کو ہیرو مانتے ہیں مگر مغرب والوں کو بھی دکھانا مقصود ہے کہ وہ کیا تھے ؟یہی وجہ ہے کہ پاکستانی پروڈکشن کے انچارج کا کہنا ہے کہ اس ڈرامے کے اصل ہدف چھ ارب غیر مسلم ہوں گے اور یہ ڈرامہ بنایا ہی ان کے لیے جا رہا ہے۔ ہماری تاریخ مغرب کی نظر میں کہاں جچتی ہے؟ جہاں صلاح الدین کے بارے میں قرین قیاس ہے کہ جہاں وہ پیدا ہوئے تھے‘ وہی صدام حسین کا شہرِ ولادت ہے۔ تکریت وہی علاقہ ہے جہاں صدام حسین بھی پیدا ہوا تھا۔ وہاں امریکا کے خلاف کافی مزاحمت ہوئی مگر انہوں نے اس شہر کو کھنڈر بنا کر چھوڑا‘ کوئی گھر‘ کوئی گلی‘ کوئی بازار سلامت نہیں رہا تھا۔ لوگ وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ مغرب نے بالخصوص پچھلی اور موجودہ صدی میں گن گن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مسلم دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں ان کا خونِ ناحق نہ بہایا گیا ہو۔ ان حالات میں صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے واقعات سے نوجوان نسل کو متعارف کرانا بہت ضروری ہے۔ اُس نے تمام مسلم گروہوں کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ مختلف رجواڑوں کے ذاتی مفادات سے اوپر اس زمانے میں یا اس کا مربی نورالدین زنگی اُٹھ سکا یا وہ خود۔ جس طرح صدام حسین کو پھانسی دی گئی‘ وہ بھی بربریت کی ایک نادر مثال ہے۔ امریکا مسلم ممالک کے لیے ہلاکو خان ہی ہے جس نے خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں کے سموں تلے روندا تھا۔
اس وقت مستعصم باللہ خلیفہ تھا‘ ہلاکو نے کئی دن اسے بھوکا پیاسا رکھا، جب وہ بھوک سے مرنے کے قریب پہنچ گیا تو اس کے سامنے ایک ڈھکی ہوئی طشتری لائی گئی اور حکم دیا کہ انہیں کھائو، خلیفہ نے طشتری کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو وہ ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی تھی۔ ہلاکو نے کہا: ان ہیروں کی تمہیں بہت بھوک تھی۔ خلیفہ قسمت کا مارا بولا: میں کیسے انہیں کھا سکتا ہوں؟ تب ہلاکو کے دماغ پر خون سوار ہوا اور خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کر روند ڈالا گیا۔ اب مغرب وہی کچھ کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں اصول ہے کہ پھانسی دیتے وقت ملزم یا مجرم کے چہرے پر کپڑا چڑھا دیا جاتا ہے کہ کھلی آنکھوں سے پھانسی دینا ایک قبیح جرم ہے‘ جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی مگر صدام حسین کو اس کے چہرے پر کپڑا چڑھاے بغیر پھانسی دی گی اور اسی پر بس نہیں کیا گیا‘ اس کی پھانسی کو پوری دنیا کو دکھایا گیا جو ایک ارب لوگوں نے دیکھا‘ خود ہمارے یہاں بھی اس کی پھانسی کا منظر دکھایا گیا۔ جیسے مغلوں کے دور میں رجواڑے تھے‘ اسی طرح بغداد کے آخری حکمرانوں کے ماتحت چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں‘ کچھ آزاد تھیں مگر بغداد کے ہی ماتحت۔ انہی میں ایک موصل تھا‘ جہاں زنگی حکومت تھی۔ یہ آج تک علم نہیں ہو سکا کہ صلاح الدین عرب النسل تھا یا ترک النسل۔ اس بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ صلاح الدین آخری عمر میں میدانِ حرب میں آیا‘ زندگی کے پہلے پچاس‘ پچپن سال اس نے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا بلکہ پہلی دو صلیبی جنگوں میں بھی موجود نہیں تھا۔ دربارِ دمشق‘ جہاں اس نے زندگی گزاری تھی‘ جہاں اس کے والد اور چچا شیر کوہ تھے‘ وہاں بھی وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ شیر کوہ کے ساتھ مصر کو فتح کرنے کے بعد آخر صلاح الدین کو سر اور نائٹ ہڈ کا خطاب دیا گیا۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ عجب اتفاق ہے کہ مصر پر کئی ابتلاوں کے دور گزار کر اور کئی آزماشوں سے ہو کر دو یوسف مصر کے حکمران بنے‘ دونوں نے اپنے والدین‘ بھائی بہنوں اور اہلِ خانہ کو اپنے پاس بلایا، ان کو اعلیٰ حکومتی عہدے دیے۔ ایک یوسف حضرت یوسف اور دوسرے صلاح الدین ایوبی جس کا اصل نام یوسف ہی تھا۔ مصر کے حکمران فاطمی شیعہ تھے‘ صلاح الدین اہلِ سنت سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے اپنا بچپن‘ جوانی اور پہلے پچاس سال علما کی مجلسوں میں گزارے تھے‘ وہی دینی تعلیم اب کام آئی۔ اس نے خطبۂ جمعہ میں سنی خلیفہ نورالدین زنگی اور مصری فاطمی شیعہ خلیفہ‘ دونوں کا نام لینے کا آغاز کیا اور یوں دونوں گروہوں میں محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہم کوئی مؤرخ نہیں؛ البتہ یہ چند اہم پہلو ہماری نظر میں تھے‘ ڈرامہ بنانے والوں کو صلاح الدین کا ایک کامیاب امیج پیش کرنے کے لیے ان مبہم واقعات سے پردہ اٹھانا چاہیے۔ اب اس سیکوئل کے لیے آڈیشن ہو رہے ہیں۔ جس میں چھ ہزار سے زائد پاکستانی اداکاروں نے حصہ لیا اور لاہور کے 18 اور کراچی کے 42 فنکاروں کو گولڈن ٹکٹ ملا۔