آپ کی اور میری عمر کتنی ہو گی؟ میں پچاس کا یا ساٹھ‘ ستر سال کا آپ بیس‘ پچیس‘ پچاس برس کے ۔ کچھ اس سے کم یا اس سے زیادہ۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ نہیں! آپ کی اور میری عمر دو لاکھ سال ہو چکی ہے ۔ آپ اور میں دو لاکھ سال سے اس کرۂ ارض پر رہ رہے ہیں۔ ہماری کائنات بارہ ارب سال کی ہو چکی ہے ۔ اس دنیا کو آباد ہوئے پانچ ارب برس ہو چکے ہیں۔ میں نے اور آپ نے چند ہزار سال پہلے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس عرصے کو گزرے ستاون صدیاں ہو چکی ہیں۔ آدمی نے کب بولنا سیکھا اور لفظ کیسے بنا؟ زبان کیسی بنی؟ انسان نے سب سے پہلے سوچنا کب شروع کیا؟ ایسے اور اس قسم کے ہزارہا سوالات ہیں جن کی کھوج میں لوگ ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ جہاں ہم لوگ رہ رہے ہیں‘ اس کے بارے میں جاننا ایک خیالِ خوش کن ہے ۔ جب ہمیں علم ہو کہ دنیا کی سب سے پہلی تہذیب نے کہاں جنم لیا اور معلوم ہو کہ یہ پانچ دریائوں کی سرزمین بھی انہی قدیم ترین مصر، گریک اور میسو پوٹیمیا تہذیبوں میں شامل ہے تو اس کے بارے میں جاننے کی خواہش جنم لینا ایک فطری امر ہے ۔
یہی چار قدیم ترین تہذیبیں ہیں۔ یہ ایک ایسی کھوج ہے جس کا بھید کسی نے نہیں پایا۔ سب لوگ اسی کھوج میں لگے ہیں کیا شاعر، کیا سائنسدان، کیا محققین، پرانے مخطوطے اور پرانی زبانیں پڑھنے والے‘ علم الانسان والے سب کی ایک ہی کھوج ہے ۔ اس کرۂ ارض کا ایک ایک خطہ‘ ایک الگ داستان سناتا ہے ۔ سات بر اعظموں کی کہانی ایک عجوبہ ہے، ایسا بغداد جس میں کئی غار ہیں‘ کئی الہ دین ہیں اور کئی طلسماتی چراغ۔
حال ہی میں عروس البلاد کراچی سے ایک ایسی کتاب شائع ہوئی ہے جو مذکورہ موضوعات کو بہ اندازِ دگر دیکھتی ہے ۔ کتاب کیا ہے‘ ایک سنگترے کا قاش قاش پھیلا ہوا رس ہے ۔مصنف نے ''دوراہے‘‘میں جنوبی ایشیا کو ایک کُل کے طور پر دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اور برصغیر پاک و ہند‘ جس میں بنگال بھی شامل ہے‘ کے تہذیبی مظاہر کی شناخت کی ہے ۔ اس نے اس بڑے اور کرۂ ارض کے ایک اہم خطے کو اپنی سٹڈی بنایا ہے ۔ کُل کو دیکھنے کے لیے اس نے اپنے ذاتی بحران کو پس پشت ڈالتے ہوے پورے خطے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے ۔
کُل کو دیکھنا پورے سماجی عمل کو دیکھنا ہے ۔ اس میں مذاہب، زبانوں اور عقیدوں کا اپنا اپنا رول ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارا پنجاب بدھ مت کے رنگ میں پورا رنگ گیا تھا۔ ٹیکسلا کی درسگاہ یونان کی دانش گاہوں کے برابر اہمیت کی حامل تھی۔ ایران تک بدھ مت پھیلا ہوا تھا۔ پنجاب میں زیادہ وقت گزارنے کے باعث خود بدھا پنجابی ہو گئے تھے۔ پنجابی زبان نے ان کو اسیر کر لیا تھا۔ کہا جاتا ہے بدھا کی جسم سے دائمی مکتی کے وقت آنند نے کچھ نصیحت کا کہا تو بدھا نے آخری الفاظ اور آخری بات اسی زبان میں کی تھی اور کہا تھا ''اپّو دیپو بھئو‘‘یعنی آپ دیپ ہو جا۔
موسیقی کا بھی یہی حال ہے‘ سکھوں کے گروئوں نے اس کی ترویج اور ترقی میں حصہ لیا۔ اسلام نے ہندوستان میں آ کر ایک نئے کلچر کی بنیاد رکھی۔ صوفیا کرام نے یہاں کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں کی زبان کو اپنی شاعری اور کردار سازی کے لیے اپنایا۔ وہ کسی بدیسی زبان کے قائل نہیں تھے ۔ ویدوں میں ہمارے پنجاب کے پانچ سو شاعروں کا کلام موجود ہے ۔ اسلام نے ہی اپنی روشنی کے ذریعے یہاں شب بیداری کا انتظام کر کے رات کو جگمگا دیا۔ صدیوں میں لپٹی ہوئی سیاہ رات آباد ہو گئی‘ ذکر و فکر کی محافل آباد ہو گئیں۔ آریا‘ بدھا‘ گرو نانک کو جنوبی ایشیا کی مذہبی تفہیم کے وقت کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ بدھ مت کی صلحِ کُل کی پالیسی اور نرمی ہی اب بھی ہم سب کا بنیادی وصف ہے ۔ اس کو اقبالؔ نے اپنے لفظوں کہا تھا: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ تب اقبالؔ کے سامنے وہی صلحِ کُل والی حقیقت تھی۔
ویتنام کے شہر ہیو میں جنم لینے والے تھچ ناہت کا آج کل اسی بنا پر شہرہ ہے کہ وہ آرٹ آف لِونگ سکھاتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان کا بطور ایک کل مطالعہ از بس ضروری ہے ۔ اس کی عمر پچانوے برس ہے ۔ اس عمر میں بھی وہ ایک متحرک زندگی گزار رہا ہے ۔ اس نے ایک مزے کی بات کی ہے کہ خالی پن اور بے اہمیتی یا لاوجودیت (Nothingness) دو مختلف امر ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کپ خالی ہے تو اس مطلب ہے کہ وہاں ''ہے‘‘ کی گنجاش ہے ۔ یہ کہنا کہ ہم خالی ہیں‘ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم موجود نہیں ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم خالی ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک الگ وجود موجود ہے اور اس الگ وجود کو یکجا انسان کی گزشتہ تاریخ کا علم ہی بھر سکتا ہے ۔
یہ کتاب کیا ہے‘ ایک داستانِ الف لیلہ ہے ۔ قصے ہیں کہ ختم نہیں ہوتے، کہانیاں ہیں کہ مسلسل ہیں۔ یہ ہمارے خطے کے اعتقادات، تاریخ، مقامات اور زبان کو الگ الگ زیر بحث لاتی ہے ۔ اعتقادات میں تنوع، تاریخ کی عصبیت، مقام کی مقامیت، زبان کی پیدائش اور اس کی بنتی بگڑتی شکل، کئی زبانوں کا بننا اور ان کی ہمیشہ کے لیے معدومیت، ان کے مستعمل الفاظ کی نئی اشکال میں صورت گری ایسے موضوعات ہیں کہ قاری ان میں ڈوبتا چلا جاتا ہے ۔
دنیا کے تمام محققین کی دلچسپیوں میں انڈس ویلی کی تہذیب ہمیشہ مرکزی حیثیت کی حامل رہی ہے ۔ پنجاب کی زبان سے، معاشرت سے، لڑائی سے اور اس کے ہیروز سے انس ایک قدرتی عمل ہے ۔ پنجابی زبان ہند‘ ایرانی زبان کے گروہ میں شامل ہے ۔ سنسکرت انہی پراکرتوں سے ہی بنی۔ اس کے کئی الفاظ کی وجہ تسمیہ اور ان کی بناوٹ اور تبدیلیوں کو مصنف نے آسان کر کے بیان کیا ہے، مثال کے طور پر ہم پھٹیچر کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر یہ لفظ کیسے بنا؟ مصنف بتاتا ہے یہ پھٹ اور چیر‘ دونوں کا مرکب ہے ۔ ٹھیپر یہاں بیکار چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے ۔ ٹھپہ کھانے سے ٹھیپر ہے ۔ یہی ٹھپہ مہر اور چھاپہ کے معنوں میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ دھنتر جو ایک سرکش یا شجاع کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ دھن دولت سے ماخوذ ہے ۔ چپاتی اور چپت ایک ہی شے ہیں۔ پنجاب کے ہیروورشپ کے بارے میں بھی بہت سارے مغالطے ہیں؛جیسے بندہ سنگھ بہادر ہیرو ہے یا ولن؟ بندہ سنگھ بہادر نے پنجاب میں مغل بادشاہ فرخ سیر کے زمانے بغاوت کی تھی‘ جس کا انجام مغلوں کے ہاتھوں دلّی میں اس کی پھانسی پر ہوا۔ بندہ سنگھ بہادر کی بغاوت سکھوں کی سیاسی سوجھ بوجھ کا سبب بنی۔ اس کی بغاوت کو بھی بعض مزاحمتی جدوجہد ہی سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب پر دلّی نے ہمیشہ غیر مقبول حکمران مقرر کیے ۔ مسلمان غیر ملکی اشرافیہ پر لگان اور محصول کم تھا۔ لوکل کسانوں اور زمینداروں پر شرح زیادہ تھی۔ بندہ سنگھ کی بغاوت میں لوکل مسلمان اور کسان‘ مزدور ہی بندہ سنگھ کے حامی تھے ۔ اس بارے میں مصنف نے ہر قسم کی عصبیت سے اوپر اٹھ کر اپنے الگ نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے ۔
یہ سنجیدہ قارئین کے لیے ایک تحفہ ہے مگر حیرت ہے کہ مصنف نے اس میں اپنی علمیت کو کہیں ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ان موضوعات پر اس کی مکمل گرفت ہے اور وہ آسانی سے اپنا موقف پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ تاریخ اور اعتقاد ایسے نازک مسائل ہیں کہ کہیں نہ کہیں تعصب در آتا ہے مگر فرخ یار مشکل مقامات سے بھی اپنا دامن بچا کر نکلا ہے ۔ فرخ یار کی نظم بھی جس طرح گہری ساخت سے اپنے آپ کو آگے بڑھاتی ہے‘ اس کے عقب میں تاریخ کا تعصب، مقامات کی مقامیت، اپنی زبان کی ابتدا، معجز نمائی اسطور کے نادریافت حصے اور بنتے بگڑتے عقائد کی کہانی ہوتی ہے ۔ مقامات ہوں‘ بھاشا ہو‘ اساطیر ہوں یا عقائد‘ اپنی لغت آپ مرتب کرتے ہیں۔ چاروں انسان کا اصل میں ٹھکانہ بناتے ہیں اور تاریخ اور جغرافیے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔