جہانِ حیرت… (حصہ دوم)

سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چودھری کی سن 71ء میں ایوانِ صدر میں تعیناتی تھی۔وہ اپنی کتاب ''جہانِ حیرت‘‘ میں جنرل یحییٰ خان اور ایوانِ صدر کے بارے میں رقم طراز ہیں: اقلیم اختر کہتی ہیں کہ ''ایک رات وہ یحییٰ خان کے کمرے میں تھیں کہ شیخ مجیب اچانک کمرے میں آ گئے‘‘۔ وہ گھبرا کر اور کسی قدر خوف زدہ ہو کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ مجیب‘ جو گول میز کانفرنس کے سلسلے میں اسلام آباد آئے ہوئے تھے‘ ایک گھنٹہ یحییٰ خان کے ساتھ رہے۔ان کے چلے جانے کے بعد انہوں نے یحییٰ خان سے کہا: آغا جی آپ کو اس آدمی سے نہیں ملنا چاہیے تھا‘ اس سے ملاقات خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ صدر ایوب خان کو پتا چل گیا تو وہ ناراض ہوں گے۔ یحییٰ خان نے کہا :تم فکر نہ کرو‘ ایوب خان کا وقت ختم ہو گیا ہے‘ اب تم حکومت کرو گی۔ مصنف کی یہ ساری رپورٹ حمود الرحمن کمیشن میں بھی پیش کی گئی اور یحییٰ خان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ بولے: رانی میری بہن ہے۔ مصنف ایسے کئی واقعات کا چشم دید گواہ ہے اور بتاتا ہے کہ بڑی طاقتیں کس طرح پاکستان کے درپے تھیں۔
اکہتر کے سانحہ کے بارے میں بتایا گیا کہ سولہ دسمبر کے پلٹن میدان میں ہزیمت کے باوجود یحییٰ خان ابھی جنگ بندی کے قائل نہ تھے۔امریکا کے سفیر نے انہیں بتا دیا تھا کہ اس صورت میں امریکا مغربی پاکستان کے تحفظ کی بھی ضمانت نہیں دے سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے لوگ ایک بڑی گیم کے تیار کردہ کردار تھے لیکن ظلم یہ ہے کہ ان بڑوں کو کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔''یحییٰ خان اب زیرِحراست تھا اور کہہ رہا تھا: اس سانحے کے ذمہ دار سیاستدان ہیں‘ میں نہیں۔ سہالہ سنٹر میں سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے اس نے کہا کہ میں پنڈی جانا چاہتا ہوں۔ سردار محمد نے کہا: سر! میں آپ کو لوگوں کے غیظ و غضب سے بچانا چاہتا ہوں تو اس نے پنجابی میں واہی تباہی بکنا شروع کر دیا اور کہا:کیا میں نے کسی کی کھوتی کو ہاتھ لگایا ہے‘‘۔ (پنجابی محاورے کا ترجمہ کریں تو یہ مفہوم ہے کہ میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ مطلب ملک توڑنا موصوف کے نزدیک کوئی جرم ہی نہ تھا)۔ اس معیار کے لوگوں کو اگر مملکت کی زمامِ کار دی جانا تھی تو وہی کچھ ہونا تھا‘ جو ہوا۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
الطاف گوہر کے بارے میں کہا کہ اس کو بے جا سہولتیں دی گئیں‘ اس نے اپنے اختیارات سے ہمیشہ تجاوز کیا۔حاجی اکرم اور مصنف 1972ء میں ہی قیامِ راولپنڈی کے دوران اک مک ہو گئے تھے۔ گورنر کھر کو جلسے کے مقام پر جلسہ درہم برہم ہونے کی رپورٹیں دیتے تھے اور ایک دوسرے کی تائید کرتے تھے۔ لاہور میں اپنی اسی قسم کی سرگرمیوں کی وجہ سے رامے ان کے خلاف ہو گئے۔ وزیر اعظم بھٹو کے دور میں مصنف کو وہ اہمیت نہ ملی جس کے وہ عادی ہو چکے تھے۔ان کے دل میں ایسی گرہ پڑی کہ کسی سہارے کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔ وقت آیا تو وہ نواز شریف کے ساتھ مل کر بیوروکریٹس کا ایسا ٹرائیکا بنانے میں کامیاب ہو گئے جو بالآخر وزیر اعلیٰ کے کان اور ان کی زبان بن گیا۔ نواز شریف کے ارد گرد ایسا تارِ عنکبوت بن دیا گیا جس سے وہ آج تک نہیں نکل سکے۔ یہ ٹرائیکا حاجی اکرم، انور زاہد اور مصنف سردار محمد چودھری پر مشتمل تھا۔
بھٹو صاحب کے دور میں اگرچہ مصنف کو دو بار موقع دیا گیا اور راولپنڈی اور لاہور میں تعینات کیا گیا مگر بھٹو صاحب اور کھر کے سامنے دال نہ گلی تو گلی گلی ٹریفک چالان کرنے لگے اور خود ان کی زبان میں‘ ٹریفک میں ''بچ موڑ توں‘‘ جیسے نعرے اور سلوگن کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ اور تانگہ ایسوسی ایشن سے مذاکرات کر کے وقت کاٹتے رہے۔کھر انہیں Terrible افسر کہتے تھے جس کی مصنف بار بار تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وزیر اعلیٰ حنیف رامے سے بھی ملاقات کی اور '' تیز رفتار بھیانک انجام‘‘ جیسے سلوگن پر اکتفا کرنا پڑا۔ ''تیز چلو گے‘ جلد مرو گے ‘‘جیسا سلوگن خود بھٹو صاحب کو بہت ناگوار گزرا۔مصنف اپنے ہی ساتھیوں کی شکایات بھٹو صاحب سے کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ان کے سارے ٹھاٹھ باٹھ ختم ہوئے‘ ان کی حقیقت کا پتا چل چکا تھا اور آخر میں ان کو ایک ویگن دی گئی جس پر وہ دفتر پر آتے تھے حالانکہ یہ پی پی پی کے آدمی کے طور پر مشہور تھے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بارے میں مصنف ''مجھے نہیں پتا کہ وہ قتل میں ملوث تھے یا نہیں، اس موضوع پر زیادہ بات نہیں کروں گا‘‘ کہہ کر ایک طرف ہو گئے۔ کہاں صدرِ پاکستان سے متعلق کھلم کھلا اپنی رائے کا اظہار اور کہاں یہ دوغلا پن۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک اپنے ممدوحین کی جمع خاطر اور دوم اپنے پی پی پی کے آدمی کے لیبل سے نجات۔یہ کیسی دانشوری اور تاریخ نویسی ہے کہ وقت آنے پر سچ بھرا ایک جملہ لکھتے وقت قلم کی سیاہی خشک ہو جائے۔ بہر حال اتنا ضرور لکھا ہے جنرل ضیا بھٹو سے بہت خوفزدہ تھے۔
نواز شریف سے مصنف کا گہری انسیت کا تعلق ہے۔ مصنف انہیں ''مردے از غیب‘‘ سمجھتے ہیں۔پچاسی کے الیکشن سے لے کر او ایس ڈی بننے تک‘ ماڈل ٹان میں نواز شریف سے ملاقات کر کے کثیر ووٹ دلوانے کی پیشکش کے بعد وہ یک جان دو قالب ہو گئے۔ نواز شریف کے بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔ پیر پگاڑا، جونیجو اور نواز شریف کی آپس میں چپقلش کے بارے میں لکھتے ہیں ''نواز شریف جو فطرتاً نہایت فراخ دل ہیں‘ نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر دل کھول کر نوازشیں کیں جن میں رہائشی اور تجارتی پلاٹوں کی الاٹمنٹ ان کے رشتہ داروں کے ان کی پسند کے مطابق تبادلے اور ان کے قریبی اعزّہ کی باوقار عہدوں پر تقرریاں شامل تھیں جس کے لیے انہیں قواعد و ضوابط میں بھی نرمی کرنا پڑی‘‘۔ آئی جے آئی کے قائدین اور نواز شریف نے نوے کے الیکشن کے بعد انہیں ''شعبدہ باز اور جادوگر‘‘قرار دیاجبکہ پی پی پی نے انہیں شر پسند کے لقب سے پکارا۔سات کلب پر وہ‘ قاضی حسین احمد‘ پروفیسر خورشید اور ایک افسر بیٹھ کر مستقبل گری کیا کرتے تھے۔
سردار محمد نے ایک کامیاب زندگی گزاری۔ایک غریب گھر میں پیدا ہونے والا اپنی ذاتی لیاقت کی بنا پر صوبے کی پولیس کا سربراہ بنا۔جہاں گئے کامیابی کی ایک داستان رقم کی۔ان کے اصل جوہر اسی اور نوے کی دہائی میں کھلے۔جو نواز شریف کہا کرتے تھے کہ 'میں لڑائی میں زیادہ خوش ہوتا ہوں‘ وہ مصنف جیسے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں ہی آ کر کہتے تھے۔خود مصنف انہیں ''فرشتہ‘‘ کہتے تھے۔ ایک دفعہ او ایس ڈی بننے پر ہمت ہار بیٹھے تو ڈپریشن نے گھیر لیا۔ یہ یادداشتیں اسی ڈپریشن کو دور کرنے کے لیے لکھی گئیں۔ اس لحاظ سے ان کا او ایس ڈی بننا ان کے لیے نیک فال ثابت ہوا اور وہ اپنے زندگی کے اہم واقعات احاطۂ تحریر میں لائے۔
عرض یہ ہے جو کچھ مصنف اور اس کے ممدوحین نے پچھلے تین چار عشروں تک اس ملک کے ساتھ کیا‘ جس طرح اس کی چولیں ہلائیں‘ جس طرح اس ملک کو لوٹا گیا اور جس طرح باہم مل کر اس کے ادارے تباہ کیے‘ وہ جرم بھی ملک کو توڑنے کے گناہ سے کسی طرح کم نہیں۔ جس طرح تاریخ نے سانحۂ مشرقی پاکستان کے کرداروں کو معاف نہیں کیا‘ اسی طرح تاریخ کی آنکھ میں مصنف اور اس ٹرائیکا اور اس کے ممدوحین حکمرانوں کو بھی معافی نہیں مل سکتی‘ کبھی ملنی بھی نہیں چاہیے۔''جادوگر‘‘ اپنی تمام جادوگری کے باوجود حکمرانوں کا ایک ٹول ہی ثابت ہوا۔اس بارے میں کوئی دوسری راے ہی نہیں۔
آپ جس بات پہ اِترائے ہوئے پھرتے ہیں
ہم فقیروں میں اِسے عیب گِنا جاتا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں