ہالینڈ اور بلجیم دو ہمسایہ ملک ہیں۔ ان دو ممالک میں ایک ایسا شہر ہے جسے ''دو ملکوں کا گھر‘‘ کہا جاتا ہے۔ شہر ایک ہے اورملک دوہیں۔ اس میں دونوں ممالک کی گاڑیاں آتی جاتی ہیں۔ اس شہر کا نام بارلے ہے۔ ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے اور واپس آنے کے لیے کسی پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہیں۔ ایک منٹ میں کوئی کتنی بار ان ملکوں کا بارڈر کراس کرتا ہے‘ گن نہیں سکتے۔ ایک قدم ایک ملک میں ہے اور دوسرا دوسرے ملک میں۔ یہ کوئی فرضی شہر نہیں۔ آپ ہالینڈ سے ٹرین کے ذریعے وہاں تک جا سکتے ہیں اور بلجیم سے بھی۔ ایک لکیر ہے جو دو ملکوں کے دمیان کھنچی ہوئی ہے۔ اسے کھنچی ہوئی کہنا بھی زیادتی ہے اور لکیر کہنا بھی۔ بس ایک نشان ہے سڑک پر‘ اور گھروں پر۔ اس سڑک کا ایک کنارہ بلجیم میں ہے دوسرا ہالینڈ میں۔ آپ ایک ہوٹل میں ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں‘ اس کی ایک کرسی بلجیم میں ہے اور دوسری ہالینڈ میں۔
اس شہر کا نام تو بارلے ہے‘ اپنی آسانی کے لیے ہالینڈ والے اسے بارلے نیدر لینڈ اور بلجیم کے رہائشی اسے بارلے ہرٹوگ کہتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور زمانہ لائبریری ہے جس میں ہالینڈ اور بلجیم‘ دونوں ملکوں کے سٹاف ممبر کام کرتے ہیں۔ایک شاپ ہے‘ اس کا ایک حصہ ایک ملک میں ہے اور دوسرا دوسرے ملک میں۔ کسی جوس کائونٹر پر دو گلاس ہیں‘ ان کے درمیان بھی یہ لکیر ہے۔ ایک گلاس بلجیم میں ہے اور دوسرا ہالینڈ میں۔ ایسا بھی ہے کہ گھر اس لکیر پر بنے ہیں‘ ایک کمرہ ہے‘ ایک کچن ہے‘ ایک واش روم ہے‘ دونوں ملکوں کی سرحد ان کے درمیان سے گزر رہی ہے۔ ایک اصول ہے کہ گھر کا مین دروازہ جس ملک میں واقع ہے‘ وہی اس کا اصل ملک ہے۔ ایک پینٹر کا ایک آرٹ کا نمونہ ہے۔ اس نمونے‘ اس تصویر کے بیچوں بیچ سے سرحد گزر رہی ہے۔ ایک آرٹسٹ کی گیلری ہے‘ جس کی ایک پینٹنگ ایک ملک میں پڑی ہے اور دوسری دوسرے ملک میں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لکیر گھر کے دروازے کے ایک حصے سے برابر گزر رہی ہے‘ تب اس گھر والے کو اختیار ہے کہ وہ کس ملک میں رہنا چاہتا ہے‘ کس ملک کے قوانین کوفالو کرنا چاہتا ہے اور کس ملک کا حصہ بن کر وہاں کے الیکشن میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ اس کی مرضی پر منحصر ہے وہ جس کو منتخب کرے‘ وہی اس کا ملک ‘ وہی اس کا قانون اور وہیں کا وزیراعظم اس کا وزیر اعظم۔
ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ کسی آدمی کو ایک ملک کے قوانین پسند نہیں ہیں تو وہ اصول اور ضابطے کے مطابق اپنے گھر کا مین گیٹ اپنے پسندیدہ قوانین والے ملک میں بنا لیتا ہے۔ تاجروں کو بڑی سہولت ہے۔ جس ملک میں زیادہ ٹیکس لگتا تھا‘ اس کو چھوڑ کر وہ دوسرے ملک میں دروازہ کھول کر بیٹھ گئے اور اس ملک کے شہری ہو گئے۔ ایسا بھی ہوا کہ فرض کریں ایک ملک کا قانون ہے کہ مارکیٹ ، دکان ، سٹور یا ریستوران کا ایک مخصوص وقت ہے جب وہ مارکیٹ‘ شاپ‘ سٹور یا ریستوران بند ہونا ہے اور اونر ابھی دکان یا ریستوران بند نہیں کرنا چاہتا تو وہ اپنے ٹیبل کرسیاں اٹھا کر دوسرے ملک میں لے جاتا ہے۔ ہالینڈ میں صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک مارکیٹیں کھلی رکھی جا سکتی ہیں۔ بینک کے ملازمین کو جب ضرورت ہوتی ہے یاان کو زیادہ دیر تک جب کام کرنا ہوتا ہے تو وہ محض میز سے فائل اٹھاتے ہیں اور اسی میز کے دوسرے کونے پر رکھ کر دوبارہ کام شروع کر دیتے ہیں۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ یہ شہر قرونِ وسطیٰ سے اب تک ایسے ہی چلا آ رہا ہے۔ 1198ء سے اب تک بارلے ایسا ہی ہے۔ یہ علاقہ دو نوابوں کا تھا جنہوں نے اس کو ایسے ہی رہنے دیا۔ جب یورپی ممالک نے 1648 ء میں موجودہ سرحدیں کھینچیں‘ تب سے یہی انتظام ہے۔
اب تک دنیا کے سات ہی عجوبوں کا سنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سات عجوبے حیرت انگیز ہیں مگر ان کی بنیاد میں کتنے مزدوروں اور بیگار میں کام کرنے والوں کا خون شامل ہے۔ خونِ خاک نشیناں تھا سو رزقِ خاک ہو گیا۔ قدیم عجوبے ہوں‘ قرون ِ اولیٰ سے پہلے والے یا قرون وسطیٰ والے‘ سب ہی انسان کی حرمت کو نظر انداز کر کے بنائے گئے۔ کیا تاج محل اور کیا اہرامِ مصر۔ سبھی انسان اور مجبور انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر تعمیر کیے گئے۔ ان عجوبوں کے پیچھے انسان کی عظمت بھی پوشیدہ ہے مگر یہ اُن کی عظمت ہے جن کی محنت سے یہ عجوبے اٹھائے گئے ہیں۔ اصل میں فقط بادشاہوں کو اپنی عظمت کا خبط تھا‘ ان عجوبوں کے پیچھے کوئی ایسا مقصد نہیں تھا جس پر انسان فخر کر سکتا یا اس کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مفید ہوتا۔ ان عجوبوں سے اس وقت کی تہذیب اور کلچر کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کا مطالعہ سودمند بھی ہے۔ لوگ کیا کھاتے تھے‘ کیا پیتے تھے‘ ان کی رہائش کیسی تھی‘ ان کے رسوم و رواج کیا تھے، مگر یہ کہنا کہ انسان کی فلاح کے لیے ان کو کھڑا کیا گیا‘ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ انسان کی اٹھارہ لاکھ سال (جب ہمارے اجداد نے سوچنا شروع کیا تھا ) سے لے کر اب تک کا سب سے بڑا جھوٹ اور دھوکا ہے۔ تاج محل انسانی ورثہ ضرور ہے مگر اس میں صرف دو انسانوں کی قبریں ہیں۔ اس کی تعمیر میں بیس‘ بائیس سال لگے اور کتنے مزدور یا آرٹسٹ اس کی تعمیر میں مرے‘ ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ ایران سے لے کر بنگال تک کے لوگ اسی کام میں دو عشرے جتے رہے۔ انسان کی فلاح کا اس میں کون سا راز پوشیدہ ہے؟ ہمارے مہربان مسعود منور کا کہنا ہے
کبھی پالک بناتے ہیں‘ کبھی کدو بناتے ہیں
یہ دانش ور ہیں حرف و صوت سے آڑو بناتے ہیں
بارلے شہر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا عجوبہ ہے۔ سات عجوبوں سے کہیں بڑا۔ بارلے شہر چونکہ دو ملکوں میں واقع ہے‘ اس لیے لوگوں کی سہولت کے لیے ہر سرکاری دفتر ، ڈاک خانے اور چرچ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ ڈاک خانہ بلجیم کا ہے یا ہالینڈ کا۔
چلیں! ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بہتر نہیں ہیں یا ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ ہم ایک دوسرے کی سرحدوں پر کب تک خاردار تار لگاتے رہیں گے۔ جنگوں سے دونوں ملکوں کو کیا ملا؟ ایک دوسرے سے نفرت‘ ایک دوسرے پر عدم اعتماد؟ پچھلے چوہتر سال سے بھارت اور آدھی صدی سے افغانستان سے اسی طرح کے حالات سے عوام گزر رہے ہیں۔ سارے ممالک کو اس بارے میں نیک نیتی سے سوچنا چاہیے اور خطے کے امن کے لیے اٹھنا چاہیے۔ اپنی آزادی اور خود مختاری پر البتہ کسی قسم کا سمجھوتا نہ کریں۔
کسی زمانے میں یونائیٹڈ کنگڈم (برطانیہ)کی طرح United Kingdom of Netherlandsبھی ہوا کرتی تھی۔ انیسویں صدی کے اواخر میں بلجیم آزاد ہوا‘ تب سے دونوں ملکوں کے مابین انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں۔ ایک سو نوے سالہ تاریخ‘ جب سے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے ہیں‘ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ کسی ایک ملک نے دوسرے ملک کے خلاف سازشیں نہیں کیں۔ کسی نے ایک دوسرے کے خلاف خفیہ کارروائیاں نہیں کیں۔ نہ وہ اقوامِ متحدہ میں ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں‘ نہ وہ اپنے چار سو پچاس کلو میٹر لمبے بارڈر پر خاردار تار لگاتے ہیں۔ انگریزوں نے جاتے ہوئے جان بوجھ کر اور بڑی سازشوں کا تانا بانا بُن کر ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنایا۔ پچھلے چوہتر سال سے انگریزوں کے اس کاشتہ پودے کو ہم اپنا خون پانی دے کر پال رہے ہیں۔ ہماری سیاست ایک دوسرے سے دشمنی پر مقبول ہوتی ہے۔ یہاں جس قدر دوسرے کے خلاف بات کی جائے‘ اسی قدر حب الوطنی سمجھی جاتی ہے۔ اس دشمنی کا کوئی انت نہیں‘ جتنے مرضی اسلحہ کے ڈھیر لگا لیں۔
انگریز نے پوری غیر مغربی دنیا میں یہی کیا۔ سب کو الگ الگ کیا‘ شام کو لبنان سے‘ حجاز کو ترکی سے۔ ایک بھائی کو عراق کی بادشاہت دی ایک کو اردن کی، مگر اکٹھا نہیں بیٹھنے نہیں دیا۔ بھارت کو مغرب چین سے ڈرا رہا ہے‘ ہمیں بھارت سے خوفزدہ کیا گیا ہے اور مغرب خود ایک ہو رہا ہے۔