کرنل شاہد ہم پانچوں میں سے زیادہ کام کے آدمی تھے۔ جہاں ہم سے کچھ نہ بن پاتا‘ چاروں کے مشورے سے پہلے ہی میں کہہ دیتا کہ کرنل شاہد کو بتائو‘ کرنل سے مشورہ کرتے ہیں‘ کرنل زیادہ سمجھدار ہے‘ اسے بات کرنے اور معاملہ کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ یہی ہمارے ساتھ منیٰ میں قربانی کے موقع پر ہوا۔ سب حجاج نے احرام اتار لیے تھے‘ بال کٹوا لیے تھے‘ غسل کر لیا تھا اور ایک ہم تھے کہ پورے منیٰ میں ایک نمونہ بنے ہوئے تھے۔ پانچ لوگوں کا گروہ اور بے بس۔ قربانی نہیں ہو رہی تھی‘ قربانی کیسے ہوتی‘ جانور ہی مل نہیں رہے تھے۔ عجیب بات ہے! ہم تو جیسے پھٹ پڑے۔ کرنل! یہ کیا مذاق ہے؟ مگر چونکہ ان ایام میں غصہ بھی نہیں کرنا تھا‘ سو کرنل کے ذمے لگایا کہ چلیں!اپنے منتظم سے بات کرتے ہیں۔ یہ کیا منطق ہے کہ قربانی ہی نہیں ہو رہی اور قربانی کے لیے جانور ہی نہیں مل رہا۔
صبح کا وقت تھا‘ پہلے منیٰ کے چھوٹے سے بازار میں چلے گئے۔ وہاں ہمیں کیرالہ کے خالد بھائی مل گئے۔ کیرالہ اب بھی اور پچھلی صدی میں بھی‘ خوشحال ریاست چلی آ رہی ہے۔ یہی حال اب ریاست کرناٹک کا ہے۔ تعلیم اور خوشحالی میں سب سے آگے۔ مگر خالد بھائی چہرے مہرے سے اتنے خوشحال نہیں لگتے تھے یا شاید خالد بھائی اور ان کے دوستوں کے اجسام ہی بہت دبلے پتلے تھے۔ گوشت نام کی کوئی چیز ان کے جسموں پر نہ تھی اور قد بھی نارمل سے بھی کچھ کم تھا۔ لباس ان کا کرتا اور دھوتی تھا۔ منیٰ کے بازار میں ایک چھوٹی سی دیوار پر بیٹھے ان کے ساتھ اپنا فلسفہ بگھار رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور خالد بھائی کو جوس کا ایک گلاس اور ہمیں چائے کا کپ دے کر آگے بڑھ گیا۔ خالد بھائی کیرالہ کے بندگاہ کالی کٹ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اب اسے Kozkode کہتے ہیں۔ یہیں سے ولندیزی سب سے پہلے ہندوستان میں آئے تھے۔ ہماری پچھلی جانب اونچے پہاڑوں کے درمیان ریلوے ٹرین خراماں خراماں چل رہی تھی۔ یہ ٹرین منیٰ سے وہاں تک جاتی ہے جہاں شیطان کو کنکر مارے جاتے ہیں۔ ہم نے تو اس پر سفر نہیں کیا کہ وہ جگہ جہاں کنکر مارے جاتے ہیں‘ ہماری رہائش کے قریب تھی۔ کنکریاں ہم نے مزدلفہ سے اٹھا لی تھیں اور چوم بھی لی تھیں۔ مزدلفہ کی رات دوبارہ کہاں ملنی تھی‘ قسمت نے یاوری کی تو دوبارہ وہاں رات گزارنے کا موقع ملے گا(اس رات کا ذکر علیحدہ کالم میں کیا جائے گا )۔ اکیس کے بجائے ایک‘ دو کنکریاں ہم نے زیادہ اٹھا لی تھیں۔ جب الخالدیہ اپنی رہائش گاہ پر واپس آئے تو معلوم ہوا یہ کنکریاں ہم اپنے ساتھ پاکستان نہیں لے جا سکتے‘ ان کی حدود حرم تک ہی ہیں۔ اپنے معلم سے کہا کہ آپ حرم کی حدود میں ہی قیام پذیر ہیں‘ یہ یہیں رکھ دیں۔
مزدلفہ میں ایک رات‘ ایک بابرکت رات گزارنا کوئی انوکھی لذت تھی۔ کھلے آسمان تلے‘ فرشِ زمین پر سونا کوئی نعمت تھا۔ ساری رات جگمگا رہی تھی۔ ایسے تھا جیسے حجاج اسی رات کا انتظار کر رہے تھے۔ یہاں سونا بھی عبادت‘ یہاں جاگنا بھی عبادت۔ کوہِ مشعر الحرام کے دامن میں پناہ ملی‘ اب اس کے چوگرد رِنگ روڈ بنی ہوئی ہے۔ وہاں خوبصورت بسوں کا ایک ہجوم تھا۔ چونکہ ہم رات کو پہنچے تھے لہٰذا ان بسوں سے اترتے حجاج کے قافلے نہ دیکھ سکے۔ عرفات سے چلتے وقت ہمیں کہا گیا تھا کہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی کچھ اشیا؛ جیسے بسکٹ‘ نمکو‘ پانی کی بوتلیں‘ رکھ لیں۔ مزدلفہ میں ایسی اشیا نہیں ملتیں۔ مگر ہم جب اس وادی میں اترے تو سامنے بار بی کیو ہو رہا تھا، تازہ تازہ کبابوں کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ یہاں سے منیٰ کو چلیں تو بائیں ہاتھ وادیٔ محسر پڑتی ہے۔ یہاں رکنا نہیں چاہیے‘ اس جگہ سے تیزی کے ساتھ گزر جانا چاہیے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں اصحابِ فیل آ کر رکے تھے۔ ابرہہ کے ہاتھی اور ابرہہ یہیں ایسے کر دیے گئے تھے‘ جیسے کھایا ہوا بھوسہ۔
مزدلفہ سے واپس منیٰ پیدل چلنا پڑا‘ اس دوران گرمی بھی تھی۔ یہ دس کلومیٹر کا سفر پیدل ہمارے لیے مشکل تھا۔ رستے میں خواتین کی بہت بری حالت تھی۔ کئی خواتین گرمی اور پیدل چلنے کی وجہ سے قے کرنے لگیں اور ایک دو گرتے گرتے اوربیہوش ہوتے بچیں۔ منیٰ سے مکہ کافاصلہ چھ کلومیٹر ہے۔ اگر ٹنل کے ذریعے جائیں تو چار کلومیٹر کے لگ بھگ بنتا ہے مگر ہم نے نہ سرنگ والا روٹ اختیار کیا نہ وہ سرنگ دیکھی۔ البتہ مزدلفہ کا سفر بہت بابرکت تھا کہ سنت بھی یہی ہے۔ منیٰ پہنچے تو اپنے اسی خیمے میں آ گئے جس میں ہم عرفات جانے سے پہلے ٹھہرے ہوئے تھے۔
یہ خیمہ ہمارے علاوہ سوئی گیس کے ملازمین کے لیے مخصوص تھا۔ اس میں ایک دبلے پتلے آدمی بھی تھے جو کھانا بہت کھاتا تھے‘ ہاتھ کھینچتے ہی نہیں تھے۔ چونکہ کھانا بھی وافر تھا اور ان کا پیچھے کھنچا ہوا پیٹ بھی لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم تھا، سو ان کے کھانے کے انداز پر بہت رشک آیا۔ جب ہم ان سے نام پوچھا تو پتا چلا کہ وہ ڈیرہ جمالی کے رہنے والے اور خود بھی جمالی ہیں۔ ان سے بلوچستان کے حوالے سے بات کی تو احرام کی حالت میں اور کھانے پر لگاتار ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہ خاصے جذباتی ہو گئے۔
وہاں خیمہ بستی ایسے لگائی گئی تھی کہ اگر اپنا خیمہ نمبر یاد نہ ہو تو مشکل پڑ جاتی ہے۔ خیموں کے درمیان گلیاں ایک جیسی‘ خیمے ایک جیسے‘ کوئی بھی‘ کبھی بھی راستہ بھول سکتا تھا۔ بہت سی ضعیف عورتیں غلطی سے ہمارے خیموں کی گلیوں میں بھی راستہ بھول کر آ گئی تھیں؛ البتہ وہاں دیکھ بھال کا انتظام بہت اچھا تھا۔ نوجوان لڑکے راستہ بھولنے والوں کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتے تھے۔ دو دوستوں کے ساتھ جمرات کے لیے نکلے اور سات کنکریاں لے کر نکلے۔ اب وہاں شیطان تو نظر نہیں آتا‘ دیوار ہی تھی جس کو لوگ نشانہ باندھ رہے تھے۔ اتنے لوگوں کا ہجوم تھا‘ کئی لوگ بازو اٹھا رہے تھے‘ کچھ نیچے لا رہے تھے‘ دور سے ہمیں بازوئوں کا مکمل پہیہ بنا نظر آیا جو مسلسل گھومے جا رہے تھا‘ ایک ثانیے کے بغیر‘ کسی وقفے کے بغیر۔ جمرات کے بعد حکم تو وہیں سے لوٹ جانے کا ہے مگر منیٰ میں اسی مقام پر ہر سال بھگدڑ مچ جانے اور کئی سو حجاج کے انتقال کے بعد ایک اور راستہ بنایا گیا ہے‘ سو اس راستے سے یو ٹرن لے کر واپس آنا پڑتا ہے اس سے جمرات کا عمل بہت سہل ہو گیا ہے۔
اب وہ بات جس سے کالم شروع ہوا تھا کہ جمرات کے بعد قربانی ہونی تھی تو ہی احرام اتارنا تھا۔ ہمارے ٹور آپریٹر کی وجہ سے ہمیں بہت پریشانی ہوئی۔ ایک دن تو ہم نے صبر کیا‘ دوسرے دن پھر وہی بات کہ قربانی کے جانور نہیں مل رہے۔ پورا گروپ پریشان تھا کہ یہ کیسا منتظم اور اس کا کیسا انتظام ہے۔ جھنجھلاہٹ تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ ہم پانچوں کوشش کر رہے تھے کہ اس احرام کی حالت میں صبر سے کام لینا ہے‘ پورا منیٰ پاک قربانی کے فریضے سے فارغ ہو چکا تھا اور بال کٹوا کر حجاج غسل کر رہے تھے۔ ہر کوئی ہم سے پوچھتا کہ قربانی ہوئی کہ نہیں؟ رات کو ہم پانچوں دوست اپنے منتظم کے پاس گئے اور کہا کہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں‘ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ تنگ آ کراگلے دن صبح سویرے کرنل شاہد اور ظہور ٹور آپریٹر کے ایک آدمی کو ساتھ لے کر قربانی کے واسطے خودگئے اور تین گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد دوستوں نے فون پر اطلاع دی کہ قربانی ہو گئی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ دل ٹور آپریٹر کو صلواتیں سنانے کو بے چین ہو رہا تھا مگر صبر کام آ گیا۔ اب سوچتا ہوں کہ کرنل شاہد اور ظہور ساتھ نہ ہوتے تو یہ کام احسن طریقے سے کیسے ممکن ہو پاتا۔