تاریخ اپنی اصل میں متعصب ہوتی ہے‘ ادب نہیں۔
ہم ساری عمر یہی سمجھتے رہے تھے کہ شاعر ہی وقت کے نباض اور حقیقت کے ترجمان ہوتے ہیں مگر بھی یہ ٹرکوں اور رکشوں والے تو ہمارے بھی استاد نکلے۔ دل کرتا ہے کہ ان کے سامنے زانوے تلمذ تہ کریں۔ ان کی طبع تو ہم سے بھی کہیں رواں ہے۔ ایسے ایسے اشعار اور جملے نظر نواز ہوتے ہیں کہ بڑوں بڑوں کے بھی پر جلتے ہوں گے۔شہر میں چلنے والوں رکشوں کے پیچھے جو سب سے بامعنی جملہ پڑھنے کو ملا اور جس سے ہمارے اجتماعی مزاج کی ترجمانی ہوتی ہے وہ یہی ہے ''ہارن آہستہ بجائیں قوم سو رہی ہے‘‘۔ اب سچ بتائیے کہ ایسی ترجمانی پر دل اَش اَش کر نہ اٹھے تو کیا کرے۔ہم نے سنا تھا کہ شاعر وقت کی آواز ہوتا ہے مگر حقیقت میں تو یہ رکشے والے بھائی اصل ترجمان ہیں۔ یہ اپنا لکھا ہوا‘ اپنا پسندیدہ یا منتخب کردہ جملہ یا شعر اپنے رکشے کی زینت بناتے ہیں۔اچھا شعر کہنا ہی نہیں‘ اچھے شعر کا ذوق بھی قسمت سے ہی نصیب ہوتا ہے، بعینہٖ وہ جملے اوراشعار جو ان ہوا میں اڑتے رکشوں پر لکھے ہوتے ہیں‘ وہ ان کے اعلیٰ ذوق کے آئینہ دار تو ہوتے ہیں‘ہمیں بھی آئینہ دکھاتے ہیں۔ اگر آپ کسی عہد‘ کسی ملک کے ایک خاص زمانے سے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو تاریخ کو مت کھنگالیے کہ یہ اپنے آپ میں متعصب ہوتی ہے‘ یہ کسی نہ کسی تعصب کا شکار ہوتی ہے یا اسیر ہو جاتی ہے۔کس زمانے کے شعرأ کا مطالعہ کر لیجیے‘ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ اس زمانے کے معاشرتی حالات کیا تھے اور سماجی رویہ جات کیا تھے۔ اب جس شاعری کی ہم بات کرنے جا رہے ہیں‘ زیادہ تر لوگ اسے شاعری نہیں مانیں گے‘ اگر شاعری مان بھی لیں تو اس شاعری کے خالق کو وہ شاعر نہیں مانیں گے مگر اس بات کی لازماً تصدیق کریں گے کہ یہ اشعار اور یہ جملے نہ صرف معاشرتی حالات پر مکمل تبصرہ ہیں بلکہ ان اشعار کے ذریعے ملکی صورتحال بھی بیان کر دی گئی ہے۔ یہ شاعری آپ کو کسی کتاب میں اور کسی شاعر کے مجموعۂ کلام میں نہیں ملے گی۔یہ جملے سیاست اور سیاست دانوں پر منطبق کیے جائیں تو اس کے معنی دو چند ہو جاتے ہیں‘ مثلاً جب شیخ رشید سے ان کی صحت اور شگفتگی کی وجہ دریافت کی جاتی ہے تو ایک خاص مسکرہٹ چہرے پر سجا لیتے ہیں یا یہ مسکراہٹ از خود ان کے چہرے پر عود کر آتی ہے‘ جیسے کہہ رہے ہوں:
نہ شادی نہ بربادی
کسی سلطنت کی بادشاہت، بیگم کی چاہت اور وقت بدلتے کتنی دیر لگتی ہے؟ کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اور نیچے سے قالین کھینچ لیا جاتا ہے۔ وہ بیگم سے بات چیت تو در کنار ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ تب اس عام آدمی کو اگر چپ نہ لگے تو اور کیا ہو؟ ان حالات میں اس جملے پر ہی قناعت کرنا پڑتی ہے:
بیگم ہتھ پستول نہیں ہوندا
فیر وی اگوں بول نہیں ہوندا
شیخ صاحب کی ساری شگفتگی اسی وجہ سے تو ہے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک و قوم کی خدمت کرنے والے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔پہلے جب بھی ان سے کوئی رپورٹر سوال کی جرأت کرتا تھا تو وہ ارشاد فرماتے ''نہ چھیڑ ملنگاں نوں‘‘۔
آج حالت یہ ہے کہ وہ لندن سے جو کچھ سوچ کر واپس آئے تھے‘ وہ تو ممکن نہ ہو سکا ‘اب سوچتے ہوں گے کہ اس سے بہتر تو وہ عرصہ تھا جو بیس سال پہلے جدہ کے سرور پیلس میں گزارا تھا۔ صحافی دوستوں سے علیحدگی میں رازدارانہ انداز میں ایک رکشے کے پیچھے لکھا شعر آہستہ سی لے میں گنگناتے ہوں گے:
کبھی مشکلوں کا تھا سامنا کبھی راحتوں میں گزر گئے
وہ جو دن تھے اصل حیات کے‘ وہ سعودیہ میں گزر گئے
حالانکہ کبھی چھوٹے میاں صاحب بزبانِ حال کہا کرتے تھے:
سپیڈ میرا شوق‘ اوورٹیک میرا نخرہ
ایک توشہ خانہ ریفرنس تھا۔ اس میں نواز شریف پر ایک الزام تھا کہ کوئی عہدہ نہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی دورِ حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے غیر ملکی سربراہان سے ملنے والی گاڑیاں سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے انہیں اور زرداری صاحب کو تحفے میں دی تھیں۔ اس وقت وہ کیسے ان گاڑیوں کے مستحق ٹھہرے؟ اب یہ سوال بنتا تو گیلانی صاحب سے ہے اور اس کے جواب میں انہوں نے کسی ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا یہ جملہ ہی دہرایا ہو گا:
ایک بار جو میں کمٹمنٹ کر لوں تو اس کے بعد میں خود کی بھی نہیں سنتا۔
احتساب کیسز نے بھی خوب اُدھم مچائے رکھا۔ کبھی نواز شریف‘ کبھی مریم نواز‘ کبھی احسن اقبال‘ کبھی شاہد خاقان عباسی‘ کبھی سردار عثمان بزدار‘ کبھی کیپٹن صفدر کی حاضری پر حاضری ہوتی رہی۔ کسی کے وعدہ معاف گواہ بننے کی خبریں آتیں تو کسی پر کروڑوں روپے وصول کرنے کا الزام تھا۔ کسی پر سپورٹس کمپلیکس میں کک بیکس کا الزام تھا‘ کسی پر ایل این جی ٹرمینل ڈیل میں تھرڈ پارٹی کو روزانہ دو لاکھ تیرہ ہزار ڈالر کی ادائیگی کا کیس تھا۔ایک صاحب کی کسی پرانی کلاس فیلو نے ان کیسز کے سوالات سے متعلق جب ان سے پوچھا تو انہوں نے یہ جملہ کہا اور کیا خوب کہا:
احتساب کیسز میں مجھے طلب کیا
میرے اثاثوں میں فقط تم نکلیں
آج کل پی ڈی ایم کا بھی بڑا شور ہے۔ پہلے اے پی سی کا رولا تھا۔ ہمارے بچپن میں سر درد کی ایک گولی تھی جو شاید ایک پیسے کی آتی تھی۔ یہ اے پی سی وہ گولی تو نہیں؛ البتہ مولانا صاحب کو بہت سوں نے گولی دی ہے۔ پہلی گولی اس وقت دی جب وہ ایک جم غفیر لے کر کراچی سے چلے تھے۔ لاہور پہنچنے پر ان کا خیال تھا کہ یہاں سے ایک پارٹی کے رہنما اور کارکنان ان کے ساتھ مل کر اسلام آباد کی طرف ایسے نکلیں گے جیسے فتح ان کے قدموں کو بس چومنے ہی والی ہو اور اس حکومت کا خاتمہ دنوں کی بات ہو مگر لاہور تو بالکل خاموش تھا۔ کسی قابلِ ذکر شخصیت نے دو حرف بھی مولانا کے جلوس کی حمایت میں نہ کہے۔قافلہ بادلِ نخواستہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا اور اسلام آباد کی ایک رہگزر پر ڈیرہ جمالیا۔ یہاں ایک اور گولی ان کے مقدر میں لکھی تھی۔ جب گرم و سرد چشیدہ برادران نے ان کے کان میں کچھ ایسا پھونکا کہ وہ بی پلان کا اعلان کر کے وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔
اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مارچ 2020ء میں یہ حکومت گر جائے گی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔اب اگر پی ڈی ایم مارچ میں مارچ کر لے اور کامیاب ہو (جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں) تو وہ ضرور کہتے پھریں گے:
وقت نے ایک بار پھر دلہا بنا دیا
اپنے تئیں اور اپنی نظر میں موجودہ حکومت کی کام کرنے اور ملکی ترقی کی سپیڈ بہت تیز ہے۔ حالانکہ گاڑی تو پچھلے تین سالوں سے ایک جگہ پر ہی رکی ہوئی ہے؛ البتہ گاڑی کے پیچھے لکھا ہے:
سواری ہو نہ ہو‘ سپیڈ 190 کلومیٹر
جو سواری اعتراض کرتی ہے کہ گاڑی سٹارٹ تو کرو تو ڈرائیور اس کے کان میں آہستہ سے کہتا ہے:
ساڈی گڈی دی خیر
ہن گھن مزے تبدیلی دے