اخبارات میں ملکی صورتِ احوال کا جو مجموعی عکس نظر آتا ہے اصل میں وہ ملکی صورتِ احوال کا مجموعی نَقص ہوتا ہے۔
اخبار کی سرخی دنیا کی واحد 'سرخی‘ ہے جو سیاہ ہوتی ہے۔
اخبار پڑھنے والے کے اندر بے چین روح نہیں‘ بے چین بدروح ہوتی ہے۔ پہلے ایک اخبار دس بیس لوگ پڑھتے تھے اب ایک آدمی دس‘ بیس اخبار پڑھتا ہے۔
اخبار اور صحافی کی کامیابی یہ ہے کہ اگر وہ کہے: کل قیامت آ جانی ہے‘ تو لوگ اس پر یقین کر لیں۔
لوگ سحر خیز ہوتے ہیں صحافی دوپہر خیز۔ سیاست دان کا معاشقہ اور صحافی کی خبر دوسرے دن باسی ہو جاتی ہے۔ کسی اخبار پر اشتہاروں کی پابندی ہو تو اس کے مطالعے سے پتا چلتا ہے وہ اخبار نہیں‘ اشکبار ہے۔
موسیقار راگ سے اور صحافی آگ سے کھیلتا ہے۔ موسیقار دوسروں کے دلوں کو جلاتا ہے‘ صحافی خود جلتا ہے۔ صحافی کسی کے زیر نگرانی کام نہیں کرتا‘ وہ خود زبر نگرانی کرتا ہے۔
ایک دوست صحافی کا قول ہے: جیسے نجیب الطرفین ہی اصل سید ہوتا ہے‘ اسی طرح قریب الطرفین ہی اصل صحافی ہوتا ہے۔
وزیر آباد میں اگر مولانا ظفر علی خان جیسا صحافی پیدا نہ ہوتا تو اس شہر کی مشہوری چاقو چھریاں بنانے تک ہی محدود رہتی۔ پریس کلب وہ جگہ ہے جہاں نہ پریس ہوتا ہے اور نہ کلب۔
چائے کی چسکی‘ سگریٹ کا کش اور اخبار کی سرخی ایک عیاشی ہوتی ہے۔ پہلے لوگ صحافیوں کو جانتے تھے‘ اب ان کی مانتے ہیں۔ صحافی آ ج کل رشک پیشہ ہو گیا ہے شاعر مگر اسی طرح اشک پیشہ ہے۔
ایک سابق گورنر صاحب سے میل بیوروکریٹ ڈرتے تھے اور ایک سابق وزیر اعلیٰ سے فی میل بیوروکریٹ۔
ہم صحافی شعر خوانی‘ غزل خوانی نہیں دستر خوانی لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ صحافی مفلوک الحال اور کچھ مفلوک الخیال ہوتے ہیں۔
خبر دنیا کی واحد چیز ہے جو صحافی کو بنی بنائی مل جاتی ہے۔
خبر بنانا اصل فن نہیں‘ اس کو چھپانا اصل فن ہے۔
غریبوں، محنت کشوں اور انقلابی لوگوں کا ترانہ فیض کی نظم ''ہم دیکھیں گے‘‘ہے مگر صحافیوں کا ترانہ ''بم دیکھیں گے‘‘ہے۔
جس طرح عشروں تک عرب لیگ کا اجلاس چلتا رہتا ہے‘ اسی طرح صحافیوں کا برسوں تک افلاس چلتا رہتا ہے۔
سنا ہے پی ٹی آئی کے اجلاس میں صحافیوں کی خدمت خاطر نہیں کی جاتی؛ البتہ نون لیگ کے اجلاس میں صحافی ممنون ہوجاتا ہے۔
دو ملائوں میں مرغی حرام ہو جاتی ہے مگر اتنے صحافیوں میں خبر حلال ہوتی رہتی ہے۔ صحافی دو ٹوک نہیں‘ دو ٹھوک بات کا قائل ہوتا ہے۔
فلم فلاپ ہو سکتی ہے‘ خبر فلاپ نہیں ہوتی۔
سیاستدان کی غلطی کو کوئی پکڑتا نہیں‘ صحافی کی غلطی کو کوئی چھوڑتا نہیں۔
اقبالؔ نے شاید ایک صحافی‘ جس کا تخلص خردؔ تھا‘ سے متعلق ہی کہا تھا:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
تمام لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں آپ کیسے ہو؟ صحافی ایک دوسرے سے ملتے ہوے پوچھتے ہیں: کوئی خیر خبر!۔
شاعر اور صحافی پیدائشی ہوتے ہیں لہٰذا ان کی کمی کبھی نہیں ہو سکتی۔
اخبار ایک قوس قزح ہے جس کے تمام شعبوں کے رنگ یکساں اہم ہوتے ہیں۔ بعض کالم نویس ظالم نویس ہوتے ہیں۔
ایک کالم ''دال دلیا‘‘ سے ہم بہت سے شاعروں کا دال دلیا چلا ہوا ہے۔
مرزا نوشہ شاید اخبار کو بہت اہمیت دیتے تھے کہ انہوں نے اپنے دیوان کا پہلا شعر کسی صحافی کی ہی نذر کیا ہو گا:
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
صحافی شاعر کی طرح ہوتا ہے‘ کسی کو اپنے سے بڑا نہیں مانتا۔ ایک انار سو بیمار اور ایک خبر سو صحافی‘ سو فیصد سچ ہے۔
پولیس کی طرح صحافی کے پاس بھی ایک مطلوبہ فہرست ہوتی ہے۔
پولیس رات کو گشت کرتی ہے اور اس کی بازگشت اگلے دن اخبار کی زینت بن جاتی ہے۔
لکھاری اپنے آپ سے اور صحافی سماج سے جنگ کرتا ہے۔ اخبار نہ ہو تو معاشرہ اندھیر نگری بن جائے۔
اخبار معاشرے کی آنکھ اور صحافی اس آنکھ کی پتلی ہوتا ہے۔
ہر کوئی اپنی آخری عمر میں تائب ہو جاتا ہے‘ صحافی اپنی خبر سے کبھی تائب نہیں ہوتا۔
خبر سازی سائنس ہے اور سچ ہے کہ کالم آدھا سچ اور آدھا فکشن ہوتا ہے۔
شورش کاشمیری کو مخالف 'یورش کاشمیری‘ سمجھتے تھے۔
جس طرح عوام پولیس کو ناپسند بھی کریں تو امن امان کے لیے ان کی طرف ہی دیکھتے ہیں‘ خبریں جاننے کے لیے اخبار نہ پڑھیں تو کیا کریں۔
حالات بھی تبدیل نہیں ہوتے‘ خبریں بھی وہیں رہتی ہیں۔ صحافی اور اخبار کا پیٹ بھی بھر ہی جاتا ہے۔
صحافی خبر کو اپنی اولاد سمجھتا ہے اور ساری عمر اپنی خبر کو یاد رکھتا ہے۔
صحافی سب کو معاف کر دیتا ہے مگر صحافی کو کوئی معافی نہیں۔
صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
اخبار ایک کاروبار بھی ہے اور معاشرے کا گردو غبار بھی۔
کسی کو اپنے کہے کا اعتبار نہیں‘ اخبار اور صحافی کو اپنے کہے کا اعتبار ہے۔
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس کے ہاتھ میں انصاف کی شیریں حاصل کرنے کے لیے الفاظ کا تیشہ ہے۔
صحافی دنیا کی واحد مخلوق ہے جس پر جوانی بڑھاپے میں آتی ہے۔
سیاستدان اگر اپنا اخبار جاری کرتے تو پیپلز پارٹی والے اپنے اخبار کا نام ''ہر شے کھپے‘‘ رکھتے۔ پاکستان مسلم لیگ نون ''بے نامی پاکستان‘‘ ،مسلم لیگ قاف والے ''قومی مفاد‘‘، پی ٹی آئی والے ''الزام‘‘ اور مولانا فضل الرحمن ''کمیٹی‘‘ رکھتے۔ باقی سیاستدان ڈیکلریشن ہی حاصل نہ کر سکتے۔
اگر سیاست دان کالم لکھنا شروع کرتے تو سب سے زیادہ کالم چوہدری شجاعت حسین کا پڑھا جاتا۔
نواز شریف علاج بالغذا پر کالم لکھتے اور آصف علی زرداری شاید یہ بتاتے کہ نظریات کو کس طرح مار کر کشتہ جات بنائے جا سکتے ہیں۔ شیخ رشید کالموں میں بھی زبان کے نیچے دو انگلیاں رکھ کر سیٹی بجاتے رہتے۔
مولانا محمد حسین آزاد کے والد نے اپنے اخبار کا نام اخبارِ دہلی رکھا تھا اور بعد میں بہادر شاہ ظفر کے کہنے پر اس کا نام ''اخبار الظفر‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ آزاد اگر خود اخبار نکالتے تو شاید اس کا نام ذوق رکھتے۔ ذوق اگر اخبار نکالتے تو غالباً 'بے ذوق‘ کے نام سے نکالتے۔
موسیقار دُھن اور صحافی سن گن سے سارے کام لیتا ہے۔ کسی ستم ظریف کا کہنا ہے کہ دن نکلے نہ نکلے‘ اخبار ضرور نکلے گا۔ معاشرے میں ہمیشہ سے دو طبقے رہے ہیں اور رہیں گے؛ ایک زبر دست اور دوسرے زیر دست‘ جو صحافی زیر دست کا ساتھ دے گا وہی اصل صحافت کا علم بردار ہے‘ اس کو ہمارا سلیوٹ ہے‘ اسی کو زبردست کہنا اور داد دینا بنتی ہے۔