جو لوگ اس چلتی اور ہمہ وقت متحرک زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں‘ ان کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟ مقدور ہو تو روزانہ ان سے ملاقات کریں‘ ان کے پاس بیٹھیں۔ زندگی مگر سفر کا نام ہے‘ کسی کو ایک جگہ نہ قرار ہے نہ قیام کی اجازت۔ چلتے جانا، نئی جگہیں‘ نیا وقت‘ نئے احباب کہ دوستوں کی مالا نے ایک دن بکھر جانا ہے۔ دوستوں کے ساتھ تعلق رشتے داری میں بدل جائے تو ایک مستقل رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ یہ بھی دوستی کا ایک حسن ہے کہ آپ کے بچوں کی دوستیاں ہوں یا آپ کے بچوں کی شادیاں دوستوں کے گھروں میں ہو جائیں‘ یوں تعلق کی ایک نئی صورت بن جاتی ہے۔ ہمارے دوستوں میں ایسے بھی ہیں جو کہنے کو تو لوگوں کی نظروں میں بڑے نہ ہوں گے مگر نزدیک ہو کر دیکھیں تو وہ زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ ملک غلام قادر کھوکھر بھی ایک ایسا دوست تھا جو نہ صرف ہمراز بنا بلکہ رشتہ داروں سے بھی بڑھ کر اس سے تعلق قائم ہوا۔ وہ ایک جیل میں‘ قتل کے الزام میں عمر قید کاٹ رہا تھا۔ سترہ‘ اٹھارہ سال کا نوجوان‘ سرخ یاقوت جیسا رنگ یا لال گلال سیب جیسی رنگت۔ آنکھیں مگر غمگین‘ دنیاوی غموں سے بھری ہوئیں۔ آواز خوبصورت، خدمت گار، آپ کی آواز پر لبیک کہنے والا، آپ کے ساتھ کھڑا ہونے والا، آپ کے دکھ سکھ کا شریک۔ نہ اس جیسا تھا کوئی‘ نہ ہو گا۔ ایک کھرا انسان۔ نیلی بار جیل میں بہت سارے قیدی تھے جو قتل کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ ایک دورافتادہ گائوں میں چچازاد بھائیوں کے جھگڑے کا انجام ایک بے گناہ کے قتل پر منتج ہوا‘ جس کو آنے والی کئی نسلوں نے بھگتا۔ لوگ گھروں سے بے گھر ہوئے‘ گائوں بدر ہوئے اور سات لوگوں کو سزائے موت ہوئی‘ جو ایک لمبے عرصے تک کیس چلنے کے بعد عمر قید کی سزا میں تبدیل ہو گئی۔ ان سات لوگوں میں ایک دس سالہ بچہ بھی شامل تھا۔ ایک بے گناہ دس سال کا معصوم لڑکا۔
ان کا گائوں ایک معروف تھانے کی حدودد میں آتا تھا‘ دریا کنارے آباد ایک مرحوم گائوں۔ جہاں ایسے ظلم ہوتے ہوں‘ اس نگر کو برباد ہی ہو جانا چاہیے تھا‘ بہت پہلے‘ بہت ہی پہلے۔ دریا برد ہوا تھا یہ گائوں۔ جن لوگوں نے اپنے چچازاد کا قتل کیاتھا‘ انہی کے گھر ان کا بھتیجا رہ رہا تھا۔ سرخ رنگت والا، گول مٹول اور غمگین آنکھوں والا غلام قادر۔ اس کے تین چچا اس جرم کی پاداش میں گرفتار ہوئے تو گھر میں یہی ایک ''مرد‘‘ بچا تھا۔ دس سال کا معصوم لڑکا۔ جس نے چچازاد کا قتل‘ چچازاد کے ہاتھوں دیکھا تھا۔ اس پر ایک اور مصیبت نازل ہونے والی تھی بلکہ اس کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔
پولس سٹیشن میں مجرمان حوالات میں بند تھے۔ وہ اس جرم کے مابعد اثرات پر بات کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوئے۔ رات کا عالم تھا‘ سردی کی ایک طویل سرد رات۔ سارے حوالاتیوں کے ماتھے پر شکنیں تھیں اور ایک دوسرے سے آدھ گھنٹہ لڑائی‘ مار کٹائی کے بعد ان کے ماتھے پسینے سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا: سارے حوالات میں بند ہو گئے ہو‘ غلام قادر کا کیا بنے گا؟ اس کو دشمنوں کے بیچ چھوڑ کر کیسے سکون سے قید کاٹو گے ؟ وہ اکیلا دشمنوں کا آسان شکار ہو گا۔ تب خود انہوں نے متعلقہ اہلکاروں سے سازباز کر کے غلام قادر کو بھی شریکِ جرم ملزم نامزد کرا دیا۔ ایف آئی آر ابھی کٹی بھی نہیں تھی کہ وہ بھی باقیوں کے ساتھ حوالات میں بند کر دیا گیا۔جرم تو اس نے کیا ہی نہیں تھا مگر اپنے عدم تحفظ کی وجہ سے اس نے عمر قید کی سزا قبول کر لی۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں معصوم اور بے گناہ لڑکے کے لیے جائے پناہ کوئی ہے بھی تو ایک جیل۔
جیل میں اس کی معصومیت‘ خدمت گزاری‘ نیک عادات اور خوب صورت گول مٹول چہرے مہرے کی وجہ سے جو جیل کا بادشاہ ( جیل سپرنٹنڈنٹ کے لیے اس کا بنایا ہوا نام )آتا‘ اس کا قائل ہو جاتا۔ جانے والا بادشاہ‘ آنے والے بادشاہ کو بتا کر جاتا کہ غلام قادر سے شفقت ومحبت کا سلوک جاری رکھنا۔ نیا اس کے سلوک سے پہلے سے بھی زیادہ گرویدہ ہو جاتا۔ اسے جیل میں پانچ سال ہو چکے تھے اور سن پندرہ‘ سولہ کا ہو چکا تھا۔ اب وہ جیل میں ''نمبردار‘‘ بن چکا تھا۔ یہ بھی جیل کی معاشرت کی کوئی اصطلاح ہے‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے 'بادشاہ‘ کے احکامات پر عملدرآمد کروانا ہے۔ جیل کی صفائی‘ ستھرائی ویسے بھی قیدیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر اس نے تو پورا انتظام سنبھال لیا تھا۔ کھانے‘ پینے کے اوقاتِ کار اور جیل کے معائنے کے دوران وہ 'بادشاہ‘ کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ وہ جیل کے باقی ذمہ داران کی آنکھ کا تارا بھی بن چکا تھا۔ اس کی زندگی اس کے لیے ایک نیا باب رقم کرنے کے لیے تیار تھی۔
گھر کے لیے ایک ایسے ملازم کی ضرورت تھی جو ایک فرد کی طرح ساتھ رہے۔ معلوم ہوا جیل میں پیرول پر رہائی کے لیے کچھ قیدیوں نے درخواستیں دی ہوئی ہیں۔ ''اگر کہیں تو ان میں سے سب سے اچھا قیدی آپ کے گھر بھیج دیں؟‘‘۔ یوں غلام قادر کے نام قرعہ نکلا اور وہ پیرول پر اپنی بقایا قید کاٹنے کے لیے ہمارے گھر بھیج دیا گیا۔ ایک‘ دو دن ہم بھی اور وہ بھی‘ اجنبی بن کر ایک دوسرے سے گفتگو کرتے رہے۔ پردہ ہٹا تو اندر سے ایک نیا نکور‘ صاف ستھرا خاندانی لڑکا سامنے آگیا۔ دو دِنوں میں گھر کا سارا کام وہ سمجھ گیا اور ادب آداب بھی۔ رفتہ رفتہ وہ گھر کے مشوروں میں بھی شریک ہو گیا۔ ایک دو ماہ میں وہ ہمارے گھر کا مکمل فرد بن چکا تھا۔ شادی بیاہ‘ فوتیدگی وغیرہ‘ ہر جگہ اس کی تلاش‘ اسی کو آواز۔ گھر میں کیا منگوانا ہے؟ ماں کہتیں: قادر سے پوچھ لو۔ آج آپ نے کہیں جانا تھا؟ کہتیں: قادر کی طبیعت خراب تھی‘ اس لیے نہیں گئی۔ گھر کے اندر باہر‘ ہر جگہ قادر ہی قادر۔
اس کی قید کے چھ سات سالوں کے دوران اس کی تینوں بہنوں کی شادیاں ہو گئی تھیں۔ ان کی شادیوں میں نہ ڈھولک رکھی گئی نہ پھول چنے گئے؛ البتہ ڈولی میں بیٹھتے ہی تینوں بہنوں نے بہت بین کیے اور اکلوتے چھوٹے بھائی کو یاد کیا۔ یوں دریا کنارے ان کا گھر ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ ان کی زرعی زمین پہلے ہی دریا برد ہو چکی تھی۔ اب گائوں میں اُس کا کوئی بھی نہیں تھا‘ اگر کوئی تھا تو وہی لوگ جن کا ایک فرد اس کے چچائوں نے قتل کیا تھا۔ گائوں سے اس کا اور اس کی بہنوں کا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا تھا۔
ہم چار بھائی ہیں‘ مگر والدہ کی قادر سے محبت نے اسے ہمارا پانچواں بھائی بنا دیا تھا۔ والدہ ہمیشہ اسے اپنا بیٹا اور پانچواں بیٹا سمجھتی رہیں۔ ہم جب بھی گائوں جاتے تو اسے پہلے اطلاع دیتے‘ وہ موٹر وے کے نزدیک ایک مخصوص جگہ پر ہمارا منتظر ہوتا۔ کبھی اس کے ساتھ اس کا چھوٹا یا بڑا بیٹا ہوتا۔ ساتھ ہی علاقے کی سوغاتیں‘ پھیونیاں، مہندی اور وڑیاں (گوشت اور دال کو خشک کر کے تیار کی گئی ڈش)‘ لازماً ہوتیں۔ اس کی مستقل ملازمت کا بندوبست ہو گیا تھا اور اس نے اپنا گھر بھی بنا لیا تھا۔
ماں جی ان دنوں اسلام آباد میں تھیں۔ طبیعت ان کی ناساز رہنے لگی تھی۔ قادر کو گائوں میں اچانک دل کی تکلیف ہوئی جو شدت اختیار کرتی گئی۔ بھائی نے اس کو وہاں چیک کیا اور ایمبولینس میں اسلام آباد کے ایک ہسپتال ریفر کر دیا۔ جہاں وہ دو دن موت جیسی تکلیف برداشت کر کے انتقال کر گیا۔ ماں جی نے اس بیٹے کی موت پر اپنی کمزور سی آواز میں بہت بین کیے۔ سب بہت روئے۔ جس دن قل خوانی کا پروگرام تھا‘ عین اسی دن ماں جی کا بھی انتقال ہو گیا۔ جیسے اپنے پانچویں بیٹے کا پیار انہیں اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ قادر کہا کرتا تھاجیل ''وکھری دنیا‘‘ہے۔ ایسا تجربہ اور ایسی کم عمری میں! بلا کا ذہن بھی ایسا جملہ نہیں سوچ سکتا۔ ''باہر کیا ہو رہا ہے‘ کسی کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ ساری زندگی‘ ساری بھاگ دوڑ وہیں تک‘ اسی چار دیواری تک محدود۔ ایک الگ کائنات‘ ایک الگ دنیا‘ علیحدہ قواعد و ضوابط‘‘۔
اس نے یہ بھی کہا تھا کہ کسی ماں کا پانچواں بیٹا بن جانا اور اس کے گھر میں رہنا‘ اس سے بھی ''وکھری دنیا‘‘ ہے۔