امریکی اور نسل پرستی

گزشتہ چند ماہ سے امریکہ سے ایسے واقعات کی خبریں بڑے تسلسل سے آرہی ہیں جن میں مختلف شہروں میں غیر مسلح سیاہ فام نوجوان سفید فام امریکیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔ بیرونی ممالک میں رہنے والے زیادہ تر افراد کے لیے یہ ہلاکتیں غیر معمولی واقعات ہیں، تاہم امریکہ میں مقیم گارڈین کے فیچر رائٹر اور کالم نگار، گرے ینگ(Gary Younge) ایک تیز وتند کالم لکھتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ ایسے واقعات معمول کی بات ہیں، لیکن ان مخصوص واقعات کا چرچا اس لیے ہوگیا کیونکہ انہیں کسی قریبی راہ گیر نے اپنے فون پر ریکارڈ کرلیا تھا۔ ان واقعات کا شہ سرخیوں اور ہیڈلائنز کا حصہ بننے کی اس کے سوا کوئی اور وجہ نہ تھی۔ 
ینگ امریکی معاشرے اور اس کے خدوخال کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ وہ اس ہنگامہ خیز عشرے کے دوران اس میں رونما ہونے والی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں پر سیر حاصل روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک طویل مضمون میں، وہ اس ملک میں گزرے ہوئے بارہ برسوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ملک ابھی تک نسل پرستی کی دلدل سے باہر نہیں نکل پایا ۔ 2008ء میں بارک اوباما کے صدر منتخب ہونے پر دنیا کے بہت سے افراد، جن میں یہ راقم الحروف بھی شامل تھا، کو غلط فہمی ہوگئی کہ وائٹ ہائوس میں ایک سیاہ فام صدر کے داخلے کا مطلب ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اور یہ کہ امریکہ نسل پرستی کے دھبوںسے آلودہ ماضی کو چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ہے۔ تاہم ، جیسا کہ ینگ ''Farewell to America‘‘(دی گارڈین۔۔۔ یکم جولائی 2015ء)میں لکھتے ہیںکہ یہ توقع بعید ازحقیقت تھی کہ امریکی معاشرے کی جڑوں میںسرایت کرجانے والی نسل پرستی کا صرف ایک شخص کے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے سے خاتمہ ہوجائے گا۔ اگرچہ ہم امریکی صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین شخص سمجھتے ہیں، لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ آئین کی طرف سے عائد کردہ بہت سی حدودوقیود ان کی طاقت کا احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ آئین افراد کے گروہ کو اختیار دیتے ہوئے فرد ِ واحد کو من مانی کرنے سے روکتا ہے تاکہ کسی ایک شخص کی خواہش پوری قوم کو یرغمال نہ بنالے۔ اس کے علاوہ، منتخب شدہ افسران اپنی مہم چلانے کے لیے کاروباری کمپنیوں کے ممنون ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی صدر کوبھی استثنا حاصل نہیں۔ 
اگرچہ ینگ ایک برطانوی شہری ہے، لیکن وہ سیاہ فام ہے، چنانچہ اپنے مضمون کے لیے وہ ایسی تکلیف دہ تفصیل بھی حاصل کرلیتا ہے جس سے عام طور پر غیر ملکی نمائندے محروم رہتے ہیں کیونکہ وہ معاملات کو دور سے دیکھتے ہیں اور اس کا حقیقی ادراک کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ امریکی معاشرے کے نچلے طبقے کے ساتھ زیادہ میل جول نہیں رکھتے۔ میرا بھی خیال تھا کہ خوشحال سیاہ فام امریکی معاشرے میں اپنی جلد کے رنگ سے قطع نظر اچھی زندگی بسر کرسکتے ہیں، لیکن ینگ کا خیال مختلف ہے۔ دولت کچھ فرق ڈال تو سکتی ہے، فرق مٹا نہیں سکتی۔ ینگ اپنے دوبچوں کی پرورش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھاتا ہے کہ وہ اُنہیں کس طرح اعتماد دے سکتا ہے ؟ اُنہیں کس چیز پر ناز ہوگا؟وہ کہتا ہے کہ وہ جو بھی زبان بولتے ہوں گے یا جہاں بھی رہتے ہوں گے، اُنہیں اپنی جلد کی رنگت کی وجہ سے محتا ط رہنا ہوگا۔ 
یہ وہ الجھن ہے جس کا ہمیں کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن امریکہ میں رہنے والوں کے لیے اس کا خیال رکھنا ضرور ی ہے۔ ینگ کا کہناہے کہ ایک سیاہ فام لڑکا جو سکول سے نکلتا ہے، اس کے جیل میں جانے کے امکانات ساٹھ فیصد اور ڈگری لینے کے صرف ایک فیصد ہوتے ہیں۔ اگرچہ قانونی اور سیاسی طور پر نسلی تعصب کا کسی طور بھی اظہار ممنوع ہے، لیکن سفید فام امریکیوں کے دل سے شک اور خوف کے بادل چھٹتے دکھائی نہیں دیتے۔ جب بھی ان کا سامنا سیاہ فام شہریوں سے ہوتاہے، ان کے دل انجانے خوف سے دھڑکنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم کہیں اور نہیں، صرف رپبلیکن نمائندوں پر مشتمل صدر اوباما کی اپوزیشن کو ہی دیکھ لیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا منتخب شدہ صدر چونکہ کینیا میں پیدا ہوا تھا ، اس لیے وہ وائٹ ہائوس میںداخل ہونے کا اہل نہیں۔ اس تنازع کو دبانے کے لیے مسٹر اوباما کو اپنا برتھ سرٹیفکیٹ پیش کرنا پڑا کہ وہ کینیا میں نہیں، ہوائی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کچھ حریف آج تک کہتے ہیں کہ اوباما '' مسلمانوں سے ملتے جلتے ‘‘ دکھائی دیتے ہیں، اور یہ ان کے نزدیک قابل ِ اعتراض بات ہے۔ دائیں بازو کے امریکی میڈیا کی طرف سے اُنہیں شدید ترین تنقید کا نشانہ بنانا بھی اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی معاشرے میں ابھی نسلی تعصب کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 
1963ء میں ایک سیاہ فام مصنف ، جیمز بلڈون نے ''The Fire Next Time‘‘ شائع کی۔ یہ امریکی معاشرے میں پھیلی ہوئی نسل پرستی کو کٹہرے میں کھڑاکرتی تھی۔ لبرل حلقوں میں یہ کتاب بہت پڑھی گئی۔ ان کی دوسری کتابیں بھی اسی موضوع پر تھیں ۔ اُنھوں نے نسل پرستی کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے سفید فام امریکیوںکو احساس دلانے کی کوشش کی کہ اُنہیں اپنے رویے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد صاحب مجھے ایک چشم کشا واقعہ سنایا کرتے تھے۔ پچاس کی دہائی میں وہ لیکچرز دینے کے سلسلے میں امریکہ گئے ہوئے تھے۔ اس دوران وہ ایک مقامی پروفیسر سے ملنے کے لیے Charleston بھی گئے جہاںحال ہی میں چرچ میں نو سیاہ فام امریکیوں کو ہلاک کیا گیا۔ میرے والد ایک ہوٹل کی لابی میں انتظار کررہے تھے جب ویٹر نے اُنہیں بتایا کہ پروفیسر صاحب باہرہیںاور انہیں ملنے کے لیے بلارہے ہیں۔ جب وہ باہر گئے تو اُن کے مہمان نے اُنہیں بتایا کہ کسی سیاہ فام کو ہوٹل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ میرے والد صاحب اس تعصب پر ششدر رہ گئے۔ 
اگر ہم ایمانداری سے دیکھیں توعلم ہوگا کہ نسلی امتیاز پر صرف امریکی کی ہی اجارہ داری نہیں بلکہ بہت سے معاشروں کا اس حمام میں ایک سا ہی حال ہے۔ دنیا میں غیر ملکیوںسے نفرت کرنے میں چینیوں کا سب سے پہلا نمبر ہے۔ ان کے نزدیک ''غیر ملکی ‘‘ سے مراد ''وحشی اور اجڈ‘‘ ہے۔ جاپانی آج بھی ان کوریائی باشندوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جو کئی نسلوںسے جاپان میں آباد ہیں۔ عرب باشندے بر ِ صغیر سے کام کی تلاش میں آنے والوں پر تو بہت سختی کرتے ہیں لیکن سفید فام جلد اُن کے دل کو نرم کرتی ہوئی ساری سختی چھین لیتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ امریکی ہتھیاروں سے بہت محبت کرتے ہیں اور وہاں ہتھیار ہیں بھی عام، اس لیے وہاں نسل پرستی پر مبنی نفرت کبھی کبھار ہتھیاروں کی زبان میں ادا ہوجاتی ہے۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہے جب کہیں نہ کہیں فائرنگ کے مہلک واقعات پیش نہ آئیں۔ ہر سال 33ہزار کے قریب امریکی گن فائر سے ہلاک ہوجاتے ہیں اور مرنے والوں میں سیاہ فاموں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں