ترکی میں ہنگامہ خیز لمحات

اصل معاملہ اختیارات کا ہے۔ برسوں سے ترکی یورپی یونین سے درخواست گزار تھا کہ اُسے بھی اس کلب میں شامل کرلیا جائے، لیکن ہر بار اُس کی درخواست کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا کیونکہ کئی رکن ممالک نے اسے یورپی یونین میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ ترکی یورپی یونین کی ایک رکن ریاست، سائپرس (قبرص) سے آنے والے جہازوں کو اپنی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا، لیکن دراصل اس کی وجہ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کی مخالفت تھی،کیونکہ اُنہیں یہ خوف لاحق تھا کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے سے Schengen معاہدے کے تحت وہاں سے لاکھوں مسلمان ان کے ممالک میں ملازمت کرنے آجائیں گے۔ 
تاہم اب یورپی یونین تین بلین یورو امدادی پیکیج قائم کرنے، ترک شہریوں کو یورپی یونین کے ممالک میں سفر کی اجازت دینے اور ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی سابق درخواست پر نظر ثانی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ اب کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ دراصل یورپی یونین کے رہنمائوں کو بہت دیر بعد اس بات کی سمجھ آئی کہ ترکی کے تعاون کے بغیر یورپ کی طرف آنے والے مہاجرین کا سیلاب نہیں روکا جاسکتا۔ چنانچہ ان کا بنیادی مقصدانقرہ کو قائل کرنا ہو سکتا ہے کہ وہ مہاجرین کے کیمپوں کو یونان کی طرف بڑھنے اور پھر دوسری یورپی ریاستوں میں سرایت کرنے سے روکے۔
طاقت کے توازن میں اس تبدیلی نے ترک صدر طیب اردوان کویکم نومبر کو ہونے والے انتخابات سے قبل سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ یہ چند ماہ کے وقفے سے ہونے والے دوسرے عام انتخابات ہیں۔ ان کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جون میں ہونے والے انتخابات میں کوئی جماعت بھی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ حکمران جماعت، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، فیصلہ کن برتری حاصل کرنے میں ناکا م رہی اوراس نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت سازی کی زحمت بھی نہیںکی۔ ناقدین کے خیال میں ترکی کی سرحدوں کے نزدیک پیش آنے والے حالیہ واقعات ''انتخابی ضرورت‘‘ کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ عراق اور شام میں کردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ترکی نے کرد علیحدگی پسند گروہ، PKKکے ساتھ آگے بڑھنے والے قیام ِامن کے عمل کو ''نہایت کامیابی‘‘ سے سبوتاژ کردیا ہے۔ اگرچہ طیب اردوان کا اصرار ہے کہ ان کی فضائیہ صرف داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنارہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس دعوے کی تائید نہیںکرتے۔ گزشتہ دنوں انقرہ میں ہونے والے خود کش حملے،جن میں اٹھانوے لوگ ہلاک ہوئے، کو اردوان کے سیاسی عزائم کے آئینے میں دیکھا جا رہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ یکم نومبرکو وہ نصف سے زائد ووٹ حاصل کرلیں۔ سازشی تھیوریاں گردش میں ہیں اورطاقتور اداروںکو ان دھماکوں کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔ چونکہ جس مظاہرے کو نشانہ بنایا گیا، اس کا اہتمام کردوں اور اردوان کے سیاسی مخالف، لبرل گروہوںکی طرف سے کیا گیا تھا، اس لیے سازشی تھیوری میں جان دکھائی دیتی ہے۔ 
اس سے قطع نظر کہ حکومت مخالف اس منفی رائے میں کوئی جان ہے یا نہیں، اس سے یہ حقیقت بہرحال عیاں ہوتی ہے کہ اردوان کے دورحکمرانی نے ترک معاشرے کوکس قدر تقسیم کردیا ہے۔ انقرہ حملے سے کچھ دن پہلے لیے گئے ایک پول سروے کے مطابق حکمرا ن جماعت کی مقبولیت 43 فیصد ہے(جون میں ہونے والے انتخابات میں بھی اتنی ہی تھی) جبکہ دیگر جماعتیں بھی پانچ ماہ پہلے والی پوزیشن پر ہیں۔ اردوان کے مخالفین کہتے ہیں کہ کرد علیحدگی پسندوں پردہشت گردی کا الزام لگا کر اُن کے خلاف کارروائی شروع کرتے ہوئے حکمران جماعت ترک قوم پرستوں کی زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ تاہم پول سروے ظاہرکرتے ہیں کہ ترک آبادی کی اکثریت نہیں چاہتی کہ اُن کی حکومت شام کی خانہ جنگی میں فریق بنے۔گزشتہ کئی برسوں سے یہ ایک کھلا راز ہے کہ ترکی شام میں داعش کی حمایت کر رہا تھا۔ ایسی بہت سے رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق داعش کے جنگجو بہت آسانی سے ترک سرحد عبورکر لیتے ہیں۔ عرب دنیا کی طر ف سے مبینہ طور پر آنے والا کیش اور ہتھیار بھی ترک سرزمین سے ہوتے ہوئے''شامی صارفین‘‘ تک پہنچتے ہیں۔ اس وقت استنبول اسد مخالف قوتوں کاگڑھ ہے۔ 
ترک انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے درمیان مبینہ طور پر قریبی روابط کی وجہ سے اردوان کے ناقدوںکو ایسی زرخیز زمین مل جاتی ہے جس میں سازشی تھیوریاں بآسانی کاشت ہوجائیں؛ تاہم فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کا ہونے والے انتخابات کے نتائج پرکس حد تک اثر ہوگا، لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اگر ترکوں کو یورپی یونین میں سفرکا حق مل جاتا ہے تو اس سے حکومت کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ ترک کاروباری طبقہ اس پیش رفت پر یقیناً بہت خوش ہوگا کہ ان کا ملک آئندہ یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرسکتاہے۔ اس ہفتے ہر دلعزیز جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی اردوان سے ملاقات ہونے جارہی ہے۔ اس سے ترکی کی بڑھتی ہوئی عالمی اہمیت کو تقویت ملے گی۔ ان تمام عوامل کے باوجود شامی سرحد پرہونے والے تخریبی کارروائیاں ترکی کو بھی عدم استحکام سے 
دوچار کرسکتی ہیں۔ جب موجودہ 
ترک وزیر ِاعظم، احمدداوتوگلو
(Ahmet Davutoglu) وزیر ِخارجہ تھے تو اُنھوں نے ''ہمسایوں کے ساتھ مکمل امن‘‘ کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جزو قراردیا تھا، لیکن اب یہ پالیسی بکھرتی محسوس ہوتی ہے۔ ٹرکش سائپرس نے انقرہ کی مرضی کے خلاف یونان کے ساتھ ملنے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے۔ ترکی پر یونان الزام لگا رہا ہے کہ وہ مہاجرین کے سیلاب کو اس کی سرحد کا راستہ دکھاتا ہے۔ طیب اردوان کی طرف سے تختہ الٹنے کی پوری کوشش کے باوجود بشارالاسد ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اس دوران شام میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں بیس لاکھ کے قریب مہاجرین خیمہ زن ہیں۔ اور اب معاشی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران بھی خطے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ چونکہ ایران شامی حکومت کا حامی ہے، اس لیے ترکی کی حکمران جماعت ایران کے کردار کو پسند نہیں کرے گی۔ روس کی طرف سے شام میں کی گئی حالیہ کارروائیوں کی وجہ سے ترکی کا ماسکو کے ساتھ تنائو دیکھنے میں آیا۔ چنانچہ ترکی کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 
ان مسائل پر قابو پانے کی کنجی طیب اردوان کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ اُنھوں نے اور ان کی AK پارٹی نے گزشتہ تیرہ سالہ اقتدار کے دوران ترک معیشت کو مضبوط قدموں پر لا کھڑا کیا، لیکن اُنھوں نے ملک کے سیکولر آئین کے ساتھ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ شاید ان کی سب سے بڑی کامیابی طاقتور ترک فوج کو واپس بیرکس میں بھیجنا تھا۔ اس سے پہلے ترک فوج بادشاہ گر کا کردار ادا کر رہی تھی، لیکن اب اس کا سیاسی عمل میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند ہفتوں بعد ہونے والے انتخابات میں بہت سے معروضات دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر اردوان اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی بلاشرکت ِغیرے، طاقت اُنہی کے پاس محفوظ رہے گی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک جمہوری رہنما کی بجائے ایک آمر کا رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے میڈیا کے خلاف کریک ڈائون ہوا، عدلیہ اور بیوروکریسی کو دبائو میں لانے کے حربے بھی استعمال کیے گئے۔ شراکت ِاقتدار کے لیے کسی قدر انکساری کی ضرورت ہوتی ہے جو موجودہ ترک قیادت میں دکھائی نہیں دیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں