ہمارے الجھے ہوئے قومی اہداف اور خارجہ پالیسی

جب ہمارے چار میں سے تین ہمسایوںکے ساتھ کشیدہ تعلقات ہوں تو یقیناً ہماری خارجہ پالیسی کو کسی طور کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ افسوسناک ناکامی کا مزید ثبوت یہ کہ ہم دنیا کی واحد سپرپاورامریکہ کے ساتھ بھی جو ہمارا اہم ترین محسن رہا ہے، اچھے تعلقات برقرار نہیں رکھ پائے۔ کسی بھی خارجہ پالیسی کا مقصد ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ سکیورٹی اور تجارت کو بڑھاتے ہوئے ملک کے اچھے امیج کو عالمی سطح پر پھیلایا جائے اور زیادہ سے زیادہ دوست تلاش کیے جائیں تاکہ تجارت کو فروغ حاصل ہو۔
1980ء کی دہائی سے اب تک قائم ہونے والی مختلف حکومتیں اس محاذ پر ناکام ہو چکی ہیں، حتّٰی کہ جب نائن الیون نے ہمیں دنیا کی نظروں میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کا موقع فراہم کیا تو ہم نے کشمیر اور افغانستان میں اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے جہادی تنظیموں اور پیشہ ور انتہا پسندگروہوںکو بطور پراکسی استعمال کرنے کی پالیسی جاری رکھی۔ منتخب حکومتوں کو قومی مفاد سے جڑی خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں جس مسئلے کا پیہم سامنا رہتا ہے، اُس کی وجہ مقتدر ادارے کا اسے کنٹرول کرتے ہوئے اس کے اہداف کا تعین کرنے کی پالیسی ہے۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ تمام معاملات کو بھارتی خطرے کے تناظر میں ہی دیکھتی ہے۔ چنانچہ نواز شریف صاحب کی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ اسی طرح بھارت نے افغانستان تک زمینی رسائی کی درخواست کی تو اسے ٹھکرادیا گیا۔ چنانچہ انڈیا کو مجبوراً ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان تک رسائی کی کوشش کرنا پڑی۔ یقیناً ہر ملک اپنے اہداف رکھتا ہے۔
مربوط اور تعمیری خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں ایک اور رکاوٹ پاکستان کا بتدریج ایک سکیورٹی ریاست میں تبدیل ہو جانا ہے۔ جب ہماری نظر ہر طرف خطرات پر جاتی ہے تو ہم مواقع گنوا بیٹھتے ہیں۔ ہمارے سامنے بھی نائن الیون کے بعد مواقع کی ایک کھڑکی کھلی تھی کہ ہم طالبان کو کچلنے میں امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ پر خلوص تعاون کرتے، اس میں ہمارا بھی بھلا ہوتا اور ہم اُس انتہا پسندی اور خونی دہشت گردی سے محفوظ رہتے جو طالبان کی ہمارے قبائلی علاقوں میں موجودگی سے پروان چڑھی۔ تاہم ''اچھے طالبان اور برے طالبان‘‘ کا کھیل کھیلتے ہوئے ہمارے اداروں نے حقانی نیٹ ورک جیسے گروہوں کو اپنی سرزمین پر ٹھکانے بنانے اور افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی چھوٹ دیے رکھی۔ اس کے نتیجے میں ہمیں بھی داخلی طور پر طالبان کی دہشت گردی کے متعدد گھائو برداشت کرنا پڑے، نیز واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں بھی رخنہ پڑا۔ چنانچہ اب جبکہ ہمیں امریکہ سے F-16 طیارے نہیں ملے تو ہمیں اس کی وجہ کا علم ہونا چاہیے۔
ہمارا امریکہ کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وہ انڈیا کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنانے کی حمایت کر رہا ہے۔ ہمارے دفتر ِخارجہ کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے خطے میں تزویراتی توازن انڈیا کے حق میں ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے ہمارے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام پر ناقدانہ نظر اور اسے کنٹرول کرنے کی تدبیریں بھی، خاص طور پر جب سے ہم نے میدان ِجنگ میں استعمال کے لیے چھوٹے ایٹمی ہتھار بنانے کی پالیسی اپنائی ہے، ہمیں تائو دلاتی ہیں۔ تاہم غصیلے جذبات سے مغلوب ہوکر ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر امریکی تشویش کی وجہ ہمارا اپنا ماضی ہے جس پر جوہری پھیلائو کے سائے موجود ہیں۔ جب ڈاکٹر اے کیو خان ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو کچھ آلات اور ڈیزائن فروخت کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو دنیا نے ہمارے سرکاری موقف پر یقین کرنے سے انکار کردیا کہ وہ یہ کام انفرادی طور پر کررہے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر یہ اُن کا انفرادی فعل تھا تو بھی ان پر ملک میں کبھی اس جرم کی پاداش میں مقدمہ نہ چلایا گیا۔ اس سے دنیا کو ہمارا سرکاری موقف مزید مشکوک لگا۔ اس ماضی کے ساتھ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کا مطالبہ کرنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔
زیادہ تر ممالک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ذاتی مفاد پر ہوتی ہے، لیکن ہماری خارجہ پالیسی کی گردن پر سکیورٹی خدشات کے علاوہ نظریات کی گٹھڑی بھی لدی ہوئی ہے۔ جیسے ہم فلسطین کے مسئلے کی درست حمایت کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھ پاتے کہ اسرائیل کو بلاوجہ دشمن بنانا بھی ہماری ایک کمزوری ہے جو ہمارے لیے واشنگٹن میں بلاوجہ مسائل بڑھاتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک فلسطین کی حمایت کرتے ہیں لیکن اُن کی اسرائیل کے ساتھ دشمنی نہیں ہے۔ خود عرب ریاستیں اپنے مفاد کی خاطر اسرائیل کے ساتھ روایتی اور غیر روایتی طور پر روابط رکھتی ہیں، لیکن ہمارے لیے ایسا کرنا شجر ِممنوعہ کے قریب جانے کے مترادف ہے۔ بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر موجودہ حکومت نے واشنگٹن میں پاکستان کے لیے لابنگ کرنے کے لیے کسی فرم کی خدمات حاصل نہیں کیں۔ جب میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں سرکاری فرائض سرانجام دیتا تھا تو ہم مارک سیگل کی فرم کی ساتھ قریبی روابط رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ بے نظیر بھٹوکے ساتھ دوستی کی وجہ سے پاکستان میں بعض حلقوں کے نزدیک ایک متنازع شخص تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کے ڈیموکریٹس کے ساتھ بہت قریبی تعلقا ت تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے صحافی بھی اُن کے دوست تھے۔ اُن کے ذریعے ہمارے سفارت خانے کو کانگرس میں پائی جانے والی سوچ اور میڈیا میں پاکستان کو دی جانے والی کوریج کا علم ہوتا رہتا تھا۔
امریکی قانون پیشہ ور ماہرین کو لابنگ کی اجازت دیتا ہے کہ وہ مختلف ریاستوں، کارپوریشنز اور افراد کے بارے میں امریکی قانون سازوں کو بتا سکیں۔ یہ ماہرین زیادہ تر سابق ارکان ِ کانگرس یا ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ہوتے ہیں جو امریکی ریاست کے نظام کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے کانگرس کی کمیٹیوں کے ممبران کے قریبی تعلقات ہوتے ہیں۔ لابنگ کرنے والے ماہرین ان ارکان کی واشنگٹن کے بہترین ہوٹلوں میں تواضع کرتے ہیں اور اگر بجٹ اجازت دے تو اُنہیں من پسند مقامات کے تفریحی دوروں کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ آپ اسے منظم بدعنوانی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ معاملہ ایسا ہی ہے اور ''جس کو ہو دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں‘‘۔ وزیر ِاعظم کے معاون ِخصوصی برائے امور ِخارجہ، طارق فاطمی واشنگٹن میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہاں کا نظام کیسے چلتا ہے؛ چنانچہ حیرت ہے کہ پاکستان نے کسی لابنگ فرم کی خدمات کیوں حاصل نہیں کیں؟ اگرچہ وزیرِاعظم نواز شریف نے وزارت ِخارجہ کا قلم دان اپنے پا س رکھا ہوا ہے لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ عالمی تعلقات کی نزاکت کا فہم نہیں رکھتے۔ چنانچہ واشنگٹن میں کسی لابنگ فرم کی خدمات حاصل نہ کرنا اُن کے عدم تحفظ کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق جی ایچ کیو نے وزیر ِاعظم کو لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن انہوں نے اس خدشے کے پیش ِنظر ایسا کرنے سے گریز کیا کہ مبادا وہ فرم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی لابنگ شروع کردے ۔ ہماری اشرافیہ کے ایسے اوہام اور خدشات کے ہوتے ہوئے کسی کو اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس وقت پاکستانی خارجہ پالیسی کا کباڑا ہوچکا ہے۔ حرف ِآخر یہ ہے کہ اگر ''پراڈکٹ‘‘ ہی خراب ہو توکوئی سفارت کار یا لابنگ ماہر اس کوکامیابی سے مارکیٹ نہیں کرسکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں