الیکشن کمشن آف پاکستان اپنی رپورٹ کی اونرشپ لے نہ لے‘ اسے عالمی اور مقامی مبصرین کی رپورٹ قرار دے یا کوئی اور بہانہ بنائے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الیکشن کمشن کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود رپورٹ کا وہ ہر لحاظ سے والی وارث ہے اور بیان کیے گئے حقائق کو مستند اور مصدقہ تسلیم کرنے کا پابند۔ عالمی اور مقامی مبصرین بھی دودھ پیتے بچے ہیں نہ مسلم لیگ اور میاں نوازشریف کے ذاتی مخالفین کہ الیکشن کمشن کو حقائق کے برعکس رپورٹس پیش کریں اور ان کی صداقت و معقولیت جانے بغیر الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں۔
الیکشن 2013ء میں دھاندلی پر قومی اجماع ہے۔ اگر کڑے احتساب کا ڈر نہ ہوتا اور این آر او المعروف میثاق جمہوریت آڑے نہ آتا تو سب سے زیادہ شور پیپلز پارٹی مچاتی مگر زرداری صاحب‘ مخدوم امین فہیم‘ مخدوم یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور دیگر خوردو کلاں پانچ سال کا کھایا پیا ہضم کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی حمایت پر مجبور ہیں ورنہ نیب میں مقدمات تیار ہیں اور فعال عدلیہ کی طرف سے بے جا ریلیف ملنے کا امکان مفقود۔ وہ پنجاب کی حکمران اشرافیہ کی طرح خوش نصیب نہیں کہ قانون ان کے لیے موم کی ناک اور عدل ان کے رو برو فرش راہ ہو۔
الیکشن کمشن کی رپورٹ میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں قوم ان سے واقف ہے۔ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو اعتراف کر چکے کہ ان کا کام صرف امن و امان بحال رکھنا تھا‘ انتخابات کرانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری تھی یا صوبائی حکومتوں کا فرض جو انتظامات کی ذمہ دار تھیں۔ الیکشن کمشن کی طرف سے حالیہ اجلاس میں ریٹرننگ افسروں کو اپنے ماتحت کرنے کا مطالبہ اس بات کا غماز ہے کہ پچھلے سال یہ الیکشن کمشن کے ماتحت نہیں تھے اور چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری اور ان کے ساتھیوں کے احکامات کی پیروی کرتے رہے۔ اسی بنا پر چیف صاحب اور ریٹرننگ افسر جرح و تنقید کا نشانہ بنے اور ہارنے والوں کی نظر میں مشکوک انتخابی عمل کے ذمہ دار ٹھہرے۔
پولنگ سکیم کی تبدیلی‘ بیلٹ پیپرز کی چھپائی‘ اضافی ووٹر لسٹوں کی تاخیر سے فراہمی اور ناقص روشنائی کا استعمال‘ الیکشن کمشن آخر کس کس غلطی اور بے ضابطگی کا دفاع کر سکتا ہے اور کس برتے پر‘ جبکہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں جس حلقے کے تھیلے کھلتے ہیں ان میں یا تو کچرا بھرا ہوتا ہے یا جعلی ووٹ اور یا پھر ڈھیروں ردی۔ صرف حلقہ این اے 118 میں 143 پولنگ سٹیشنز کا ریکارڈ چینی اور کھاد کے تھیلوں میں ملا۔ شاید الیکشن کمشن کے فراہم کردہ تھیلے ریٹرننگ افسر اور ان کے ماتحت عملے کو پسند نہ آئے یا جیتنے والے امیدوار نے تھیلے بچائو ثواب کمائو مہم کے تحت اپنے گھر میں پڑے تھیلے دے کر انتخابی عملے کی مدد کی‘ تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کی تردید اب وہی شخص کر سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سننے‘ دیکھنے اور سمجھنے کی اہلیت و صلاحیت سے محفوظ رکھا ہے یا وہ سارے زمانے کو کودن اور اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ اگر پچاس فیصد سے زائد حلقوں میں منظم دھاندلی ثابت ہو جائے‘ ایک ہی پیٹرن پر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہو‘ تب بھی بھولے عوام یقین نہیں کریں گے۔ سچ اسے مانیں گے جو حکومتی بھونپو بولیں گے‘ مگر جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور اور بہت زیادہ نہیں معمولی فہم و فراست سے نوازا ہے‘ روزانہ سن‘ دیکھ اور مان رہے ہیں کہ دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا اور جو مان کر دیئے ہیں وہ اپنی مجبوریوں اور نظریہ ضرورت کی بنا پر کہ دھن دھونس دھاندلی کا یہ کاروبار چلتا رہے اور ان کا دال دلیہ بھی‘ جو اس مکروہ نظام کی دین ہے۔
اس دھاندلی زدہ جمہوریت اور عوام دشمن سماجی و معاشی ڈھانچے کو چلانے پر مصر کون ہے؟ ٹیکس‘ قرض نادہندگان‘ ترقیاتی فنڈز خور‘ بجلی چور‘ جعلی ڈگری ہولڈر‘ اغوا برائے تاوان اور بھتہ مافیا کے سرپرست‘ ڈاکوئوں‘ رہزنوں‘ رسہ گیروں کے ریوڑ پالنے والے وڈیرے اور قومی وسائل کو شیر مادر کی طرح ہضم کرنے کے عادی‘ جو ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہاں! دھاندلی ہوئی‘ کرپشن ہو رہی ہے‘ نااہلی اور اقرباپروری کا بازار گرم ہے مگر یہی سسٹم چلنا چاہیے کہ اس میں اُن کی اور اُن کے سیاسی آقائوں کی بقا ہے کوئی بہتر سسٹم آ گیا تو وہ پارلیمنٹ میں نہیں جیل خانوں میں ہوں گے یا نیب کے سیف ہائوسز میں زیر تفتیش۔
کئی عشرے قبل آغا شورش کاشمیری مرحوم نے سیاسی لیڈران کرام کے بارے میں نظم موزوں کی تھی‘ برس ہا برس بیت گئے‘ سیاست نے کئی رنگ بدلے‘ عوامی جمہوریت‘ مارشل لاء‘ شورائی جمہوریت اور اب بے لگام جمہوریت کا تجربہ قوم کر رہی ہے جس نے لوگوں کو بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے اپنے گردے اور بجلی کے بلوں‘ بچوں کی فیس اور اہل و عیال کی روز مرہ خوراک کے لیے اپنا خون بیچنے پر مجبور کردیا ہے مگر لیڈران کرام بدلے ہیں نہ ان کا طرزِ فکر اور انداز سیاست۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں ان کی تقریروں کا مواد بھی ایک دوسرے سے مختلف نہ تھا۔
شورش کاشمیری مرحوم نے کسی کا نام لیے بغیر اپنے دور کے رہنمایانِ قوم کا تعارف یوں کرایا تھا ؎
کچھ ایرے ہیں کچھ غیرے ہیں
کچھ نتھو ہیں، کچھ خیرے ہیں
کچھ جھوٹے ہیں، کچھ سچے ہیں
کچھ بڈھے ہیں، کچھ بچے ہیں
کچھ ململ ہیں، کچھ لٹھے ہیں
کچھ چیمے ہیں، کچھ چٹھے ہیں
کچھ تلیر اور بٹیرے ہیں
کچھ ڈاکو اور لٹیرے ہیں
کچھ روٹی توڑ مچھندر ہیں
کچھ دارا، کچھ اِسکندر ہیں
کچھ اپنی بات کے پکے ہیں
کچھ جیب تراش اُچکے ہیں
کچھ ان میں ہر فن مولا ہیں
کچھ ''رولا‘‘ ہیں کچھ غولا ہیں
کچھ تاک دھنا دھن تاکے ہیں
کچھ الٹے سیدھے خاکے ہیں
کچھ ان میں رنگ رنگیلے ہیں
کچھ خاصے چھیل چھبیلے ہیں
کچھ چورا چوری کرتے ہیں
کچھ سینہ زوری کرتے ہیں
ہر چند بڑے ہشیار ہیں یہ
شہ زور ہیں یہ، سردار ہیں یہ
اب قوم کی خاطر مرتے ہیں
اسلام کا بھی دم بھرتے ہیں
مان لیا کہ الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹ نہیں‘ مبصرین کی سفارشات ہیں مگر چند ماہ پہلے کی ان سفارشات کو اس وقت ویب سائٹ پر ڈالنے اور پبلک کرنے کا مقصد کیا ہے؟ فارسی میں کہتے ہیں عاقل را اشارہ کافی است۔ کیا الیکشن کمشن دو ٹوک الفاظ میں یہ اقرار کرے تو قابل قبول ہوگا کہ اس کی نگرانی میں منظم دھاندلی ہوئی اور عمران خان کے الزامات درست ہیں؟ ظاہر ہے کسی کو اس کی توقع نہیں جس الیکشن کمشن کے ارکان ایک سال سے الزامات کی زد میں ہیں اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے سب کچھ سہہ رہے ہیں‘ وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعتراف و اقرار پر آمادہ کیوں ہوں گے۔ جبکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دھاندلی کی گنگا میں اشنان کرنے والے جتھہ بند ہو کر اپنا اور ان کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں۔ مگرتابکے؟
روزِ قیامت انسان کے اعمال و افعال کی گواہی اس کے اعضا دیں گے۔ ہاتھ‘ کان‘ آنکھ‘ زبان اور ناک۔ وہ دن ابھی دور ہے مگر 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی گواہی ایک ایک کر کے وہ سب لوگ اور ادارے دینے لگے ہیں جو اس فرض کی ادائیگی پر متعین تھے۔ بلوچستان کے سابق نگران وزیراعلیٰ غوث بخش باروزئی اسے دھاندلی کے بجائے استادی کا نام دیتے ہیں جبکہ بعض ریٹرننگ افسر نجی محفلوں میں ہاتھوں کو کان لگا کر ایسی داستانیں سناتے ہیں کہ ع
کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
کچلے جانے کے قابل افراد اور گروہوں کے سر پر کلاہِ خواجگی‘ ناپے جانے کے لائق گردنوں میں رہنمائی کی مالا اور رسوائی کی ٹکٹکی پر باندھے جانے کے پاس پیشوائی کی کرسی ہو اور جن ہاتھوں میں ہتھکڑیاں سجتی ہوں انہیں زمام کار سونپ دی جائے تو نتیجہ معلوم‘ شور مچانے کا فائدہ نہ بہتری کی توقع۔ لیڈران کرام تو جو ہیں سو ہیں قوم بھی قابل داد ہے۔ یزیدوں کے ساتھ جینے کی خواہش مند ہے مگر روزِ قیامت حسینؓ کے ساتھ اٹھنے کی آرزو سے سرشار ؎
ترسم کہ بکعبہ نہ رسی اے اعرابی
کیں راہ کہ تو روی بہ ترکستان است
(مجھے ڈر ہے بھائی کہ تم کعبہ تک نہیں پہنچ پائو گے کیونکہ جس راستے پر رواں دواں ہو وہ حجاز مقدس نہیں ترکستان کو جاتا ہے)