گو نظام گو

45روزہ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے جب یہ کہا کہ ہماری تحریک کا اصل مقصد''گو نواز گو‘‘ نہیں ''گو نظام گو‘‘ ہے تو ملک کے طول و عرض میں تبدیلی کے آرزو مند کمزور‘ مفلس‘ مظلوم‘ محروم‘ فاقہ کش‘ بے روزگار اور بے وسیلہ خاک نشینوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا، تیری آواز مکّے اور مدینے۔ عمران کے منہ میں گھی شکر۔
عمران خان کو معلوم نہیں اس کا ادراک ہے یا نہیں؟ مگر بات اس نے ایسی کہہ دی ہے جو طورخم سے گوادر اور کیماڑی سے گلگت و بلتستان تک ہر اس شخص کے دل میں ہے جس کی چھت ٹپکتی ہے ‘ پائوں میں جوتی نہیں اور جس کے بچے بھوک پیاس سے بلکتے‘ دوائی کو ترستے اور تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔روزگار اور انصاف جسے میسر نہیں اور جو زندگی گزار نہیں رہا فقط اس سے نباہ کیے جا رہا ہے۔
موجودہ انسانیت سوز ‘ عوام کش نظام کی تبدیلی کا نعرہ پاکستان میں پہلی بار بلند نہیں ہوا۔ ماضی میں یہ نعرہ لگا کر چالاک جاگیردار‘ مکّار وڈیرے‘ عیّار سرمایہ دار اور مفادپرست تاجر سیاستدانوں کے روپ میں سادہ لوح عوام سے ووٹ بٹورتے اور انہیں اس سادہ لوحی کی سزا ظلم‘ زیادتی‘ ناانصافی اور سیاسی و معاشی استحصال کی صورت میں دیتے رہے ہیں ۔ عمران خان نے بھی تحریک انصاف کی ابتداء اسی نعرے سے کی مگر پھر الیکٹ ایبلز کے چکر میں پڑ گئے جو انہیں سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے ایوان اقتدار میں پہنچنا چاہتے تھے۔
بھٹو‘ نواز شریف انہی الیکٹ ایبلز کے بل بوتے پر وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے میں تو کامیاب رہے‘ پاکستان اور اپنے عوام کی تقدیر نہ بدل سکے کہ جاگیردار‘ وڈیرے ‘ مخدوم‘ سرمایہ دار اور دیگر استحصالی طبقات کے نمائندے پائوں کی زنجیر ‘ راستے کا پتھر بن گئے۔ استعفوں کے موقع پر عمران خان کو بھی انہی لوگوں کے ہاتھوں زک اٹھانی پڑی اور دو عملی کا طعنہ سنا۔
تبدیلی اور گو نظام گو کا نعرہ اگرچہ ابھی تک فکری اور نظری حد تک ہے‘ عملی پیش رفت دور دور تک نظر نہیں آتی مگر غنیمت ہے کہ کسی کو یہ احساس ہوا اور کسی نے اپنے بعض ساتھیوں کی کوتاہ نظری‘ پست فکری اور حکمران اشرافیہ کی سنگدلانہ روش سے اکتا کر بخوشی نہ سہی ‘ بامر مجبوری یہ نعرہ بلند تو کیا ؎
تجاہل، تغافل، تبسم، تکلم
یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہو کر
نظام بدلنے کے لیے اربوں اور کھربوں روپے کے وسائل نہیں نیک نیتی‘ عوام دوستی‘ اخلاص اور پختہ عزم درکار ہے‘ ذاتی زندگی کو دوسروں کے لیے مثالی نمونہ بنانے کی ضرورت اور اپنے ساتھیوں‘ عزیز و اقارب اور حاشیہ نشینوں کی ناجائز خواہشات ‘ وسائل اور اختیارات میں اضافے کی ہوس پر قابو پانے کی جرأت مطلوب ہے‘ جس کا دعویٰ عمران خان کرتے ہیں۔ دانشور اور لیڈر سمجھتے ہیں کہ نظام بدلنے میں فنی اور قانونی رکاوٹیں ہیں۔ عام آدمی کی رائے میں شخصی اور ذاتی رویے رکاوٹ ہیں۔ اگر لیڈر خود بدل جائیں تو آئین بدلنے کی ضرورت ہے‘ نہ قانون کو موم کی ناک بنانا مجبوری اور نہ رولز آف بزنس اور انتظامیہ کا مزاج بدلنا مشکل۔
جس ملک میں 1973ء کا آئین‘ 1935ء کے ایکٹ کے تحت وجود میں آنے والے قوانین اور انگریز کی جانشین بیورو کریسی‘ سوشلزم کے علمبردار ذوالفقار علی بھٹو‘ نفاذ اسلام کے دعویدار فوجی آمر جنرل ضیاء الحق‘ نجکاری اور منڈی کی معیشت کی علامت میاں نواز شریف اورمادر پدر آزاد لبرل ازم کے مبلغ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بخوشی گزارا کرنے کی اہلیت اور قدم بقدم چلنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو‘ وہاں کون کہہ سکتا ہے کہ دھاندلی کی روک تھام موجودہ قوانین کے تحت ممکن نہیں اور عوام کی فلاح و بہبود میں فلاں ادارہ یا محکمہ رکاوٹ ہے۔ بھٹو کے سوشلسٹ ساتھیوں کو ہم نے جنرل ضیاء الحق کے دسترخوان سے ریزہ چینی کرتے دیکھا ہے اور ضیاء الحق کے بھٹو دشمن رفقاء کو ان گناہگار آنکھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے کورنش بجا لاتے‘ شہید بھٹو کے ساتھ مراسم کی جھوٹی سچی داستانیں سناتے دیکھا۔ گنگا گئے تو گنگا رام‘ جمنا گئے تو جمنا داس نسل کی یہ مخلوق کبھی کسی جرأت مند‘ دلیر اور ویژنری لیڈر کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی بشرطیکہ اسے علم ہو لیڈر صرف کہتا نہیں کرنا چاہتا اور کرنا جانتا ہے اور وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
نظام بدلنے کا مطلب صرف چند افراد کو ادھر ادھر کرنا‘ چند قوانین میں گنجلک اور پیچیدہ ترامیم کرنا اور کسی عمارت کو پارک‘ سپورٹس کمپلیکس یا یونیورسٹی میں تبدیل کرنا نہیں‘ یہ محض علامتی اور نمائشی اقدامات ہیں۔ بھٹو‘ضیاء‘ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے دور میں ایسے کئی اقدامات ہوئے‘ بے نتیجہ رہے کہ مقصد پائیدار ‘ نتیجہ خیز اور بامقصد تبدیلی نہیں محض اور محض وقتی سیاسی فوائد حاصل کرنا اور عوام سے داد بٹورنا تھا‘ سستی شہرت کا حصول اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔ 
اگر عمران خان‘ طاہر القادری یا حکمرانوں میں سے تبدیلی کا نعرہ لگانے والے میاں شہباز شریف لینن کی طرح دفتر کی ٹیبل پر سونے کا روا دار ہے‘ کام سے فارغ ہوا اور وہیں سو گیا‘ حضرت علیؓ کی طرح نچلی عدالت میں ہٹو بچو کی آوازوں‘ میڈیا‘ کی کوریج اور حفاظتی تام جھام کے بغیر پیش ہونے پر تیارہے اور بیٹے کی گواہی مسترد ہونے کی صورت میں اپنے خلاف فیصلہ آنے پر ہنسی خوشی سزا بھگتنے کے لیے آمادہ' خمینی کی طرح اقتدار ملنے پر پانچ سات مرلے کے آبائی مکان میں رہنے اور عمر بن عبدالعزیزؒ کی طرح اپنے اور اپنے خاندان کے جملہ اثاثے سرکاری خزانے(بیت المال) میں جمع کرانے کی ہمت اپنے اندر پاتا ہے تاکہ دوسروں کے لیے نمونہ اور مثال بن سکے اور ایثار و قربانی کا آغاز اپنی ذات سے کر سکے تو نظام بدلنا مشکل ہے نہ نمود و نمائش‘ حق تلفی‘ اقربا پروری اور لوٹ مار کے موجودہ مکروہ کلچر کا قلع قمع کرنا محال۔
حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے عبداللہ ابن عمرؓ کو جن کی ذہانت ‘ علمی قابلیت‘ حس ذِکاوت اور قوت فیصلہ کا زمانہ معترف تھا‘ وصیت کے ذریعے 
امیر المومنین بننے سے روک دیا تاکہ موروثی سیاست اور خاندانی اجارہ داری کی بدعت فروغ نہ پا سکے مگر آج ہر حکمران خاندان اپنے بیٹے بیٹیوں ‘ بھانجوں‘ بھتیجوں بلکہ دور پرے کے رشتہ داروں کو ہر اہم منصب اور قیادت کا حق دار سمجھتا اور قربانیاں دینے والوں کارکنوں کو شودروں اور ملیچھوں کی طرح ان سے دور رکھتا ہے۔ مائوزے تنگ بتیس سال تک ایک ہی کوٹ میں ملبوس عوامی جمہوریہ چین اور عظیم چینی قوم کی قیادت کرتا رہا۔ یہ کوٹ اب بیجنگ کے عجائب گھر کی زینت ہے مگر ہمارے حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کے ملبوسات ‘ بیگمات کے زیورات اور شوق دیکھ کر ترقی یافتہ ممالک کی اشرافیہ حسد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ مقروض ملک اور ایک وقت کی روٹی کے محتاج عوام کی نمائندگی یہ سفاک خود پسند کرتے ہیں اور ڈھیٹ اتنے ہیں کہ شرماتے بھی نہیں۔
'گو نظام گو‘ کا نعرہ لگانا آسان ہے‘ یہ عوام کو مسحور اور قوم کی گردنوں پر مسلط دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کے علمبرداروں کی نیندیں حرام کرتا ہے۔ یہ نعرہ تسلسل سے لگنا چاہیے مگر اس نعرے کے کچھ تقاضے ہیں اور اس تبدیلی کو برپا کرنے کے لیے ایثار پیشہ‘ تربیت یافتہ‘ دلیر اور پُرعزم و پرجوش ساتھیوں‘ کارکنوں کی ضرورت ہے جو جھکنے کے عادی ہوں نہ بکنے کے ۔کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان۔ روایتی سیاستدانوں اور اقتدار کی خواہش سے مغلوب الیکٹ ایبلز میں سے بہت کم 'گو نظام گو‘ کے نعرے کو آگے بڑھانے اور عوام کو حقیقی سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی تبدیلی کے ثمرات سے بہرہ ور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں گے ‘ ان پر انحصار تباہ کن اور توقع عبث ۔
اگر تبدیلی کے علمبردار خود بدل جائیں‘ دھرنے کے تجربات کی روشنی میں اپنا رہن سہن‘ کردار و گفتار اور رویہ بدل لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات نہ بدلیں‘ عوام اور معاشرے کی خُو نہ بدلے۔ چوری اور سینہ زوری کا کلچر بدلنے کے لیے پختہ عزم کے ساتھ بلند و مثالی کردار اور چور کی ماں یعنی اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت کی ذہنیت سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے تاکہ 'گو نظام گو‘ محض نعرہ نہ رہے حقیقت بن جائے اور عوام کی منزل مقصود ؎
بدلنا ہے تو مے بدلو، نظام میکشی بدلو
وگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں