تھی خبر گرم

12اکتوبر کا دن آیا اور گزر گیا۔ پچھلے سال تک اس روز مسلم لیگ ن یوم سیاہ منایا کرتی تھی۔ اجتماعات ہوتے، چھوٹے بڑے لیڈر جنرل (ر) پرویز مشرف کو خوب ملاحیاں سناتے۔ اس بات پر سیاپا ہوتا کہ فوجی آمر نے ترقی کا سفر روک دیا اور قوم سال ہا سال اندھیروں میں بھٹکتی رہی، ورنہ آج دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ شریف خاندان کی جلاوطنی اور جدہ کے سرور محل میں قیام کو جمہوریت کے لیے قربانی اور مظلومیت کے استعار ے کے طور پر پیش کیا جاتا۔ بڑے میاں صاحب کے منہ سے ان دنوں کا ذکر سن کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی رنگون میں نظربندی اور حزُنیہ شاعری یاد آجاتی ؎
لگتا نہیں جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں 
اس بار جبکہ مسلم لیگ ن برسراقتدار ہے، ہر طرح کے وسائل سے مالا مال، 12اکتوبر کے روز اس نے چپ کا روزہ رکھا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے پورے ملک میں اودھم مچا رکھا ہے۔ لوگوں کو میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کے شاہانہ طرز حکمرانی ، جعلی مینڈیٹ اور نااہلی و بدعنوانی کے سچے ،جھوٹے قصے سناکر حکومت سے بدظن کرنے میں مصروف ہیں تو کوئی بڑا جلسہ نہ سہی کہ اب شاید مسلم لیگ کے بس کی بات نہیں، کم از کم کسی فائیو سٹار ہوٹل، لاہور کے الحمرا ہال ، اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک مناسب تقریب ہوسکتی تھی اور ٹی وی چینلز کی لائیو کوریج کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلایا جاسکتا تھا، مگر راولپنڈی میں ایک چھوٹی سی تقریب میں ویڈیو لنک کے ذریعے عابد شیر علی نے فیصل آباد سے خطاب کیا اور بس۔
فیصل آباد میں ڈاکٹر طاہرالقادری گرجے برسے، چودھری پرویز الٰہی نے فیصل آباد کے لیے اپنی خدمات کا تذکرہ کیا، حتیٰ کہ ایک ٹی وی چینل پر میں نے 12اکتوبر کے ولن جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے سنا، مگر میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، حمزہ شہباز، مریم نواز اور مسلم لیگ ن کے موقع بے موقع بولنے والے وزیروں ، مشیروں میں سے کوئی کہیں دکھائی دیا نہ سنائی۔ پرویز رشید اور عابد شیر علی نے عمران خان کے لتے تولیے؛ تاہم پرویز مشرف اور 12اکتوبر کے بارے میں خاموش رہے، ایک لفظ نہ بولے۔ 
چند ہفتے قبل غالباً عمران خان کے جلسہ لاہور کے بعد ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ اطلاع منظرعام پر آئی کہ مسلم لیگ ن 12اکتوبر کو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔ مسلم لیگ کی تنظیمی حالت پتلی ہے مخلص مسلم لیگی کارکن برملا کہتے ہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد میاں نوازشریف اوران کے ساتھی مسلم لیگ کو یوں بھول چکے ہیں جیسے بُرے وقت کے مخلص ساتھیوں کو، مگر پنجاب میں وہ حکمران ہے، لاہور کی قومی اسمبلی کی 13میں سے 12اور صوبائی اسمبلی کی 25میں سے 23نشستیں اس کے پاس ہیں، وہ کارکنوں کااجتماع بآسانی کرسکتی ہے۔ سرکاری وسائل کی کمی نہیں اور ٹرانسپورٹر ، پٹواری اور دیگر سرکاری اہلکار بھی ہر ممکن تعاون پر آمادہ، اس کے باوجود 12اکتوبر کی خاموشی سے ہر شخص اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کررہا ہے ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
مخالفین اور ناقدین اسے عوامی ردعمل اور ناکامی کے خوف سے تعبیر کریں گے کہ ان دنوں فول پروف حفاظتی انتظامات کے باوجود حکمرانوں کو ناخوشگوار اور ناپسندیدہ نعروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں اور روزمرہ کی تقریروں نے عوام بالخصوص نوجوانوں کو ''بے ادب‘‘ اور'' بدتمیز‘‘ بنادیا ہے۔ وہ کسی چھوٹے بڑے حکمران کا لحاظ کیے بغیر شور شرابا کرنے لگتے ہیں اور گستاخی پر اتر آتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ 12اکتوبر کو کسی سیاسی سرگرمی سے گریز کی وجہ کچھ اور ہے، یہ محض ناخوشگوار عوامی ردعمل سے بچنے کی تدبیر نہیں، طے شدہ حکمت عملی ہے۔
احسن اقبال تو برملا کہہ چکے ۔ وزیراعظم کے ذاتی معاون عرفان صدیقی کا خیال بھی یہی ہے کہ گزشتہ تین چار ماہ سے حکومت جس اندرونی اور بیرونی دبائو کا شکار ہے، عمران خان اور طاہرالقادری نے اس کے ناک میں دم کررکھا ہے(وہ عملاً آئی سی یو میں پڑی اپنی مدت پوری کرنے کی جدوجہد کررہی ہے) وہ پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کیس کا شاخسانہ ہے۔ 12اکتوبر کو اگر یوم سیاہ کی کوئی تقریب ہوتی تو میاں نوازشریف یا کوئی دوسرا لیڈر جوشِ جذبات میں پھر فوج پر چڑھ دوڑتا۔ ماضی کی طرح کرگل کا قصہ چھیڑ دیتا۔
ممکن ہے میاں صاحب ایک بار پھر یہ کہہ گزرتے کہ مسئلہ کشمیر کوجتنا نقصان ہماری فوج نے پہنچایا(آزاد کشمیر کے ایک جلسہ عام میں میاں صاحب نے یہی کہا تھا) بھارت نہیں پہنچا سکا۔ ہوسکتا ہے سیفما کی ایک تقریب میں سامنے بیٹھے ہندو اور سکھ یاتریوں کو دیکھ کر جس طرح میاں صاحب بھارتیوں سے معذرت کرنے لگے تھے، اسی طرح ان کی زبان بہک جاتی اور بھارتی جارحیت ، ورکنگ بائونڈری پر بھارتی گولہ باری کے حوالے سے وزیراعظم کی خاموشی کو ہدف تنقید بنانے والے سیاسی مخالفین اور میڈیا کو ایک نیا موضوع مل جاتا۔ ناقد مودی نواز ملی بھگت کی سازشی تھیوری گھڑ لیتے اور ان معاملات میں حساسیت کی شکار خاکی اسٹیبلشمنٹ پھر کسی بدگمانی میں مبتلا ہوجاتی۔
سو ایک خاموشی ہزار سکھ کے فارمولے کے تحت مسلم لیگ نے 12 اکتوبر کو فراموش کرنا ہی مناسب سمجھا کہ نہ ہوگا یوم سیاہ اور نہ پڑے گی کوئی نئی مصیبت ،کوئی نیا پواڑا۔ لیڈروں اور کارکنوں کا وقت بچے گا، ایسے اجتماعات پر سرمایہ کاری کرنے والوں کا خرچہ اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام ملے گا کہ ہم اچھے بچے بن چکے، اب آپ بھی غصہ تھوک دیں اور ماضی کا سارا کیا ، کہا معاف کریں۔ توبہ اللہ کو پسند ہے بندۂ خاکی کو بھی ہونی چاہیے۔
اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی قلب ماہیت ہوئی اور انہوں نے حالات سے سبق سیکھا۔ میاں نوازشریف نے عادت بدلی اوراب وہ فوج کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کے خواہاں ہیں۔ وہ کم از کم دفاعی معاملات بالخصوص بھارت سے تعلقات کے ضمن میں فوجی قیادت کے مشوروں اور تحفظات کو اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں ،ورنہ کل تک تو ان کا انداز فکر یہ تھا۔'' اگر ہم بھارت کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں تو ظاہری بات ہے کہ اس کا فیصلہ پاکستان کی کابینہ کرتی ہے، پارلیمنٹ کرتی ہے ، فوج کے سربراہ کو تو صرف بتانا پڑتا ہے بلکہ وہ بھی ضروری نہیں کہ آپ بتائیں یا نہ بتائیں ‘‘(غدار کون؟)
12اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر نہ منانے ، جنرل (ر)پرویز مشرف کے بارے میں زبان بند رکھنے اور عوامی احتجاج کو ایم آئی سکس کا منصوبہ بتانے سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ خدا بہتر جانتا ہے یا وہ مقتدر حلقے جن کی خوشنودی مطلوب ہے مگر عوام کو بہرحال یہ تاثر ملا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اور مستقبل اب زرداری صاحب کی دانائی سے وابستہ ہے یا وردی والوں سے، جو ایک جنرل غالباً آصف نواز جنجوعہ کے بقول اگر چھڑی گھمائیں تو ساری دنیا گھوم جاتی ہے۔
چند روز قبل میاں نوازشریف نے عمران خان اور طاہرالقادری کو تڑی لگائی تھی کہ '' ہم نے جلسے کیے تو لگ پتہ جائے گا‘‘ کارکن یہ بیان پڑھ کر پھولے نہ سمائے۔ وہ 12اکتوبر کو ایک شاندار جلسے کا انتظار کرتے رہے جو عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں ، جلسوں اور پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دے سکے مگر مسلم لیگ نے چُپ کا روزہ رکھ لیا۔شاید مریم بی بی کے ٹویٹ ہی متوالوں کا جی بہلانے اور جوش،جذبہ ابھارنے کیلئے کافی ہیں۔
میاں شہبازشریف نے ایک بیان جاری کیا مگر میاں نوازشریف کے میڈیا منیجروں کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی ع 
اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
اگر یہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے طاقتور دوستوں اوربہی خواہوں سے خیر سگالی کا اظہار ہے تو خوب، نہیں تو مزید خوب۔ پرویز مشرف البتہ ایک ٹی وی پروگرام میں چہکتے رہے، عمران خان ، طاہرالقادری اور پرویز الٰہی بھی۔
ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے اور پارلیمنٹ کا بھرپور اعتماد رکھنے والی پارٹی اگر 12 اکتوبر کو بڑا اجتماع کرنے سے قاصر یا خوفزدہ ہے کہ مبادا پرویز مشرف کوگراں گزرے تو پھراسٹیبلشمنٹ اور فوج کے حوالے سے اس قدر اچھل کود کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ کارکنوںکواب بھی بے وقوف کیوں بنایا جارہا ہے کہ میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔12اکتوبر کو تومعاملہ مختلف نظر آیا ؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفانِ آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میںآ گئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں