دھرنا چوک کا کنٹینر

عمران خان سے دھرنا چوک اسلام آباد کے کنٹینر میں ملاقات انوکھا تجربہ تھا۔ کنٹینرپر گزشتہ اڑھائی ماہ کے دوران بہت کچھ کہا‘ لکھا اور چھاپا گیا،خوب طبع آزمائی ہوئی۔ اندر جا کر سب افسانہ لگا۔لاہور اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی بسیں کنٹینر سے زیادہ کشادہ ‘ آرام دہ‘ باسہولت اور پرتعیش ہوتی ہیں جن میں ہمارے حکمران اور سیاستدان سفرکرنے کے عادی ہیں ،نہ ان کے قصیدہ خواں۔
اس کنٹینر میں چونکہ عمران خان براجمان ہیں، لہٰذا خواجہ آصف اور پرویز رشید کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا مذاق اڑائیں‘صدر اوباما کے طیارے‘بل گیٹس کی گاڑی اور وارن بفٹ کے بیڈ روم سے زیادہ مہنگا اورلگژری ثابت کریں۔تحریک انصاف کے کارکنوں اور ووٹروں کو بدظن کرنے کی کوشش کریں کہ لیڈر اندر بیٹھ کر عیش کر رہا ہے اور کارکن باہر خاک پھانک رہے ہیں۔
سرگودھا کے جلسہ میں تو خیر تحریک انصاف نے مرکزی سٹیج کو ہجوم اور دھکم پیل سے محفوظ رکھا مگر عمران خان کا کنٹینر شوکت تھانوی کی سودیشی ریل یا بلور دور کی ٹرین کا ڈبہ لگتا ہے جہاں کھوے سے کھواچھلتا ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔کسی مہمان کی آمد پر عمران خان کے جانثار خاموشی اختیار کر بھی لیں تو کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کے لیے ہر دم آن (ON)میوزک اور ترانوں کی گھن گرج سے ، ع ...ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
دوران ملاقات عمران خان اپنی تقریروں کے نکات جمع تفریق کرتے ہیں‘ کرپشن‘ دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے حوالے سے موصولہ دستاویزات کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تبادلۂ خیال کی مجلس سجاتے اور اپنے مداحوں سے ملتے ہیں جو اندرون و بیرون ملک سے قطار در قطار چلے آتے ہیں۔ عمران خان کے یہ شیدائی صرف اپنے لیڈر سے ہاتھ ملانے اور تصویر بنوانے کے شوقین نہیں، دھرنے کے لیے عطیات بھی دیتے ہیں ۔ ہماری موجودگی میں تین خاندانوں نے بھاری رقوم کے چیک پیش کئے ۔ دو کا تعلق قطر اور یو اے ای سے تھا ،ایک مقامی ۔
مجھے گماں گزرا کہ شاید یہ شوکت خانم ہسپتال کے عطیات ہیں‘ میں نے نعیم الحق سے پوچھ ڈالا مگرمُعطی خواتین و حضرات کا کہنا تھا کہ ''نہیں یہ دھرنا کے اخراجات کے لیے ہیں۔کپتان قومی خدمت انجام دے رہا ہے ،ہم پیچھے کیوں رہیں‘‘ عمران خان نے فاتحانہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہا ''آصف علی زرداری کو بتائیں کہ دھرنوں اور جلسوں کا خرچہ کون اٹھاتا ہے‘‘ عمران خان کا اشارہ زرداری صاحب کے ایک روز قبل جاری ہونے والے بیان کی طرف تھا۔ مظہر برلاس بولے ،آصف علی زرداری اتنا بھولا نہیں کہ اسے بتانے کی ضرورت پڑے ۔
میں نے عمران خان سے سوال کیا کہ اگر میاں نواز شریف نے دھرنا پالیٹکس سے توجہ ہٹانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا تو آپ کا لائحۂ عمل کیا ہو گا۔عمران کا جواب تھا''ایک تو میں دھرنے ختم کرنے والا نہیں‘ میں اور میرے کارکن اب اس کے عادی ہو گئے ہیں اور دھرنوں نے عوامی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے ،دوسرے بلدیاتی انتخابات ہوں یا مڈٹرم الیکشن‘ تحریک انصاف نوازشریف اور آصف علی زرداری کو چھٹی کا دودھ یاد دلادے گی۔میری بات کا ثبوت کل ملتان کے ضمنی انتخاب میں پوری قوم کو مل جائیگا‘‘(ملاقات بدھ کی شام ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل ہوئی)
دوسرے روز ملتان میں ضمنی انتخاب کا نتیجہ عمران خان کے دعوے اور توقع کے عین مطابق نکلا۔ حلقہ 149کے ووٹروں نے مخدوم جاوید ہاشمی ہی نہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اس بیانیے کو یکسر رد کر دیا کہ دھرنا پالیٹکس جمہوریت کے خلاف سازش اور قومی استحکام و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ایک نامور‘باوقار اور جمہوری جدوجہد کی علامت سیاستدان کا نو آموز سیاسی کارکن سے ہارنا موجودہ حکومت کی سوا سالہ کار گزاری‘ گورننس اور سیاسی فلسفے پر عدم اعتماد ‘ موجودہ کرپٹ سیاسی و معاشی ڈھانچے کو بچانے کے لیے سیاستدانوں کی جتھے بندی سے بیزاری اور عمران خان کے موقف‘ اندازِ سیاست اور دعوئوں کی پذیرائی کا مظہرہے۔
تحریک انصاف منظم جماعت نہیں لیکن 108سال پرانی مسلم لیگ اور 47سالہ پیپلز پارٹی نے کب منظم جماعت کے طور پر کام کیا۔تنظیمی طور پر مضبوطی کسی جماعت کی انتخابی کامیابی میں کارگر ثابت ہو سکتی تو جماعت اسلامی ہر انتخاب میں دو تہائی اکثریت حاصل کرتی اور مقابلے میں صرف عوامی تحریک ہی نظر آتی۔ 1970ء میں تنظیمی لحاظ سے کمزور پیپلز پارٹی نے معرکہ مارا اور اب تحریک انصاف تیار ہے۔البتہ سیاسی جماعتوں کی تنظیمی مضبوطی نہ صرف جمہوریت کے مفاد میں ہے بلکہ منظم سیاسی جماعتیں ہی قومی مسائل حل کر سکتی ہیں۔خاندانی سیاست اور موروثی قیادت ملک و قوم اور جمہوریت سب کے لیے تباہ کن ہے۔
موجودہ سیاسی اور نظریاتی تقسیم کا ایک فائدہ یہ ہے کہ سٹیٹس کو کے سارے گندے انڈے ایک ہی ٹوکری میں جمع ہوتے جا رہے ہیں ۔ذاتی‘ خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے موقع پرستوں کا گٹھ جوڑ تبدیلی والوں کے لیے غنیمت ہے کہ انہیں ایک ہی ٹھوکر سے اپنے فطری انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔چومکھی نہیں لڑنی پڑے گی۔ مقابلہ دو بدو ہے۔
سٹیٹس کو کی اجتماعی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے اب یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اپنا الگ امیدوار کھڑا نہ کرتی تو ہاشمی صاحب کو فائدہ ہوتا۔پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنا امیدوار عامر ڈوگر کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔میرے خیال میں ہاشمی صاحب کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انہیں گیلانی صاحب اور زرداری صاحب کا ملبہ اٹھا کرووٹروں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ورنہ سابقہ حکومت کی نااہلی‘ کرپشن اقربا پروری اور بے عملی سے متنفر ووٹر عامر ڈوگر کی لیڈبڑھا دیتے۔ صرف مسلم لیگ ن کی حمایت ناکامی کے لیے کافی تھی۔ اب شاید ہاشمی صاحب کے خیر خواہ سوچتے ہوں کہ مسلم لیگ ن کی ہلّہ شیری پر یہ سرد و گرم چشیدہ سیاستدان آزمائش میں نہ پڑتا تو عزت سادات بچ جاتی۔
لوگ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لوڈشیڈنگ اور بدامنی سے تنگ ہیں۔ سرائیکی وسیب میں حکمرانوں کے خلاف غصہ ہے کہ انہوں نے کوئی وعدہ پورا کیا، نہ اس علاقے کو قابل التفات جانا۔ ایک ٹی وی پروگرام کے دوران زعیم قادری کے اس دعوے پر کہ ہم نے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو غالباً سترہ ارب روپے کا پیکیج دیا، ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر کہا کہ پورے ڈویژن کے لیے سترہ ارب اور لاہور کی میٹرو بس کے لیے تیس ارب ؟
بہ بیں تفاوتِ راہ‘ از کجا است تابہ کجا
مختلف اضلاع ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حوالے ہیں، جہاں ان کی مرضی کی پولیس اور انتظامیہ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔گردشی قرضوں کا حجم دوبارہ 455ارب کو چھو رہا ہے اور بجلی کے نرخ کئی گنا بڑھ چکے مگر لوڈشیڈنگ بدستور جاری۔ عوام حکومت کے حمایت یافتہ کسی امیدوار پر اظہار اعتماد کریں تو کیسے اور موجودہ ظالمانہ سیاسی معاشی ڈھانچے کو جمہوریت مانیں تو کیونکر؟ یہ تو فراڈ ہے ،نِرا ‘ننگافراڈ جو کسی شریف اور معقول آدمی کو ہرگز قبول نہیں۔
اس نظام اور اس کے علمبرداروں سے ناگواری و بیزاری روز بروز بڑھ رہی ہے اور عوام کا پیمانۂ صبر لبریز ہو رہا ہے ۔ حکمرانوں اور ان کے حلیفوں نے اپنا چال چلن بدلا ،نہ انداز سیاست و طرز حکمرانی تو اندیشہ یہی ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی کزن طاہر القادری سے مل کر فائنل رائونڈ جلد شروع کریں گے اور کامیابی کے بارے میں عمران خان پہلے کسی شک و شبے کا شکار تھے ،نہ اب ہیں۔محض نمائشی اقدامات اور مظہر شاہی بڑھک بازی سے گرتی ہوئی دیواروں کو زیادہ دیر تک برقرار کھنا مشکل ہے۔مسلسل ملاقاتوں اور فوجی اجتماعات میں شرکت سے آئی بلا کبھی ٹلی نہیں۔کنٹینر سے نکلا تو نوجوان ایک مخصوص نعرے کی تکرار میں مصروف تھے اور ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں