’’پپاں‘ پپاں‘‘

بیرسٹر اعتزاز احسن اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا گلہ بجا کہ بحران ابھی ٹلا نہیں اور حکومت کے تیور بدل گئے مگر حکمران اپنی جگہ سچے ہیں۔ جب بدترین بحران بالآخر ٹل جاتا ہے‘ خطرہ انہیں چھوئے بغیر گزر جاتا ہے اور وہ مرد میدان ٹھہرتے ہیں تو وہ کسی کی کیوں سنیں اور ان کے تیور کیوں نہ بدلیں؟ 
حالیہ بحران اس لحاظ سے سنگین اور ہمہ گیر تھا کہ حکومت اور مقتدر حلقے Same page پر نہ تھے۔ بھارت و افغانستان کی قیادت سے مشکوک مراسم اور معیوب نامہ و پیام‘ فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں بعض وزیروں کی متنازع سرگرمیاں اور غیر محتاط گفتگو اور ان لوگوں کی کھلم کھلا سرپرستی جو فوج سے بغض اور بھارت سے محبت کو کبھی چھپاتے نہیں بلکہ فخر کرتے ہیں۔ حکومت کی ایک سالہ کارگزاری سے بیگانے تو بیگانے اپنے بھی خوش نہ تھے‘ عوام نالاں کہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بدامنی‘ لوڈشیڈنگ نے ان کا جینا حرام کردیا اور بے خبر و بے نیاز شیر لسّی نوشی میں مشغول رہا۔ 
خود حکومتی ذمہ داران کا موقف یہ تھا کہ لانگ مارچ اور دھرنا گروپ کو غیر ملکی اداروں اور اندرون ملک جمہوریت مخالف عناصر کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے‘ اس بنا پر حکومت پہلے دس دنوں میں سراسیمگی کا شکار رہی۔ پنجاب حکومت پر سانحہ ماڈل ٹائون کا خوف طاری تھا اور وفاقی حکومت کسی نادیدہ اقدام کی منتظر۔ مگر سابق صدر آصف علی زرداری‘ سراج الحق اور الطاف بھائی کی صورت میں غیبی امداد ملی اور وزیراعظم ہائوس میں بندھا بستر پھر سے کھل گیا۔ حکمران اپنے آپ کو خوش قسمت اور مقدر کا سکندر کیوں نہ سمجھیں‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کی بیرون ملک روانگی کے بعد کامیاب حکمت عملی کا جشن کیوں نہ منائیں‘ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آ گیا۔ 
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج الوقت‘ مقبول انداز سیاست اور طرز حکمرانی یہی ہے ''استعمال کرو اور پھینک دو‘‘۔ آدھا خطرہ ٹل گیا‘ باقی ٹل جائے گا۔ آصف علی زرداری‘ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کی طرح سراج الحق لاکھ کریڈٹ لیں کہ انہوں نے میاں صاحب کے کندھے سے کندھا ملا کر خطرے کا سدباب کیا۔ ''عمران‘ طاہر‘‘ طوفان کا زور توڑا اور پارلیمنٹ و حکومت کی جان بچائی مگر کون مانتا ہے۔ 2012ء میں میاں صاحب عمران خان کی طوفانی یلغار کے سامنے بے بس اور سیاسی تنہائی کا شکار تھے تو حامد ناصر چٹھہ‘ سلیم سیف اللہ اور ہمایوں اختر کے ہم خیال گروپ نے آگے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا‘ انتخابی اتحاد کے لیے تحریری معاہدہ کیا دیگر الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی طرف متوجہ کیا مگر 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی طے شدہ تیس نشستیں تو درکنار ہم خیال گروپ کے نصیب میں تین نشستیں بھی نہ لکھی گئیں‘ جن پر سلیم سیف اللہ خان‘ حامد ناصر چٹھہ اور ہمایوں اختر الیکشن لڑ سکتے۔ تینوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ حامد ناصر چٹھہ آج تک پچھتاتے ہیں کہ احمد نگر کا جاٹ ایک سوراخ سے دوسری بار کیوں ڈسا گیا۔ 
کسی کو اچھا لگے یا بُرا‘ حکمران اپنی جگہ حق بجانب ہیں کہ جب سنگی ساتھی‘ سیاسی حلیف‘ نامور دانشور و تجزیہ کار‘ آصف علی زرداری اور سراج الحق جیسے بظاہر سیاسی و نظریاتی مخالف طویل چارج شیٹ پڑھنے کے بعد سنگین بحران کی ذمہ داری نادیدہ قوتوں اور ایجی ٹیشن کرنے والوں پر ڈالتے‘ احتجاج کو جمہوریت دشمنی قرار دیتے اور سیسہ پلائی دیوار بن کر ساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘ کسی غلطی پر ٹوکتے نہ فوری طور پر کوئی مثبت اقدام کرنے کے لیے دبائو ڈالتے ہیں تو حکمرانوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں‘ کابینہ میں ردوبدل اور پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ غلط تو عمران خان اور طاہرالقادری تھے‘ ان کے پیروکار اور ڈوریاں ہلانے والے فنکار۔ جنہیں بالآخر منہ کی کھانی پڑی۔ بھلا راہ راست پر گامزن کوئی فرد یا گروہ بھی اپنی روش بدلتا ہے کیا؟ 
حاجی سیف اللہ مرحوم ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک عادی نوسرباز واردات میں پکڑا گیا‘ نوسربازی کے دستاویزی ثبوت موجود تھے اور عینی شاہد بھی۔ سزا سے بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ بھاری فیس کے وعدے پر نوسر باز نے ایک اچھا سا وکیل کیا اور یقین دہانی کرائی کہ مقدمہ سے جان چھوٹنے پر نہ صرف وہ طے شدہ فیس ادا کرے گا بلکہ اپنی بساط کے مطابق انعام و اکرام سے بھی نوازے گا۔ وکیل نے ہامی بھری اور نوسر باز سے کہا کہ وہ جج اور مخالف وکیل کے ہر سوال کے جواب میں صرف ''پپاں‘ پپاں‘‘ کہے‘ مزید کچھ بولے نہ کسی اشارے کنائے سے ثابت کرے کہ وہ ایک نارمل انسان ہے۔ 
موکل نے اپنے وکیل کی ہدایات پر عمل کیا‘ جرح کے دوران ہر سوال کا جواب ''پپاں پپاں‘‘ سے دیتا رہا۔ وکیل نے ثابت کیا کہ میرا موکل نوسرباز ہے نہ وارداتیا‘ ایک سادہ لوح شخص ہے جو کسی کی بات ٹھیک سے سن سکتا ہے نہ جواب دینے کا اہل‘ خود دیکھ لیجیے کہ وہ فاضل عدالت اور مخالف وکیل کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے سے قاصر ہے‘ مسلسل ''پپاں پپاں‘‘ بولے جا رہا ہے۔ عدالت نے بالآخر اسے فاترالعقل قرار دے کر بری کردیا۔ کمرہ عدالت سے باہر نکل کر وکیل نے داد طلب نگاہوں سے موکل کی طرف دیکھا‘ اپنی فیس اور انعام و اکرام کا مطالبہ کیا تو جواباً اس نے ''پپاں پپاں‘‘ شروع کردی۔ بیچارے وکیل کی داد رسی کون کرتا۔ 
سراج الحق اور اعتزاز احسن خاطر جمع رکھیں ابھی ان کے فون بھی سنے جاتے ہیں اور ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ یہ کسی مروت اور لحاظ کے سبب ہے یا عمران خان کی کنٹینر میں موجودگی اور ارکان اسمبلی کے استعفوں پر اصرار کے باعث؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔ کسی نہ کسی طور یہ کانٹا بھی نکل گیا تو پھر ماضی کی طرح میں کون‘ تو کون کی کیفیت ہوگی جس کا تجربہ سراج الحق کو تو نہیں مگر لیاقت بلوچ اور اعتزاز احسن کو ہے۔ خورشید شاہ صاحب شاید تب بھی ملاقاتوں اور راز و نیاز کا لطف اٹھاتے رہیں کہ آپ خلوتوں کے امین ہیں اور قابل اعتماد اپوزیشن لیڈر۔ 
ہمارے ہاں آج سے نہیں عرصہ دراز سے خوشامد‘ چاپلوسی ا ور مفادپرستی کے کلچر کا غلبہ ہے۔ ہر طبقے اور شعبے کی نسبتاً‘ سیاست و حکومت کے ایوانوں میں زیادہ۔ حکمران خواہ فوجی ہو یا منتخب‘ چاپلوس اسے یہ باور کرانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ وہ معصوم عن الخطا اور عقل و دانش کا کوہ ہمالیہ ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہوں کی طرح وہ کبھی غلطی کرتا ہے نہ کوئی غلط فیصلہ اور اقدام‘ اس کے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوتی ہیں اور حاسدین اس کے بارے میں بے پر کی اڑاتے ہیں۔ جب وہ اپنی پہاڑ جیسی حماقتوں کے سبب کسی ابتلا کا شکار ہو اور محروم اقتدار تو پھر بھی حکمران کو گریبان میں جھانکنے کا موقع نہیں ملتا کہ تسلسل سے اسے مخالفین کی کارستانی اور بعض کوتاہ بین حاشیہ نشینوں کی نادانستہ غلط کاریوں کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہم اخبار نویس اور قلمکار بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ حکمران کی معصومیت‘ دانش و بصیرت اور معاملہ فہمی پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ تبدیلی کی نوبت کیوں کر آئے۔ 
مایوسی گناہ ہے اور قلب ماہیت کی امید ہر انسان سے ہمہ وقت کی جا سکتی ہے۔ احساسِ زیاں کا جذبہ غالب ہو‘ کچھ کر دکھانے کا عزم جواں تو غلطیوں سے سبق سیکھنا مشکل ہے نہ طرز حکمرانی میں تبدیلی لانا محال۔ سیاست اور کاروبار حکومت سے چند عزیز رشتہ داروں کی بے دخلی‘ شاہانہ انداز حکمرانی سے گریز‘ حلقہ مشاورت میں توسیع‘ نکمے‘ باتونی اور فتنہ پرداز وزیروں‘ مشیروں سے نجات‘ پارلیمنٹ کے اندر باہر کی سیاسی قوتوں کے ساتھ موثر رابطوں اور ترجیحات کے ازسرنو تعین کے علاوہ خارجہ‘ داخلہ اور دفاعی پالیسوں میں ذاتی پسند و ناپسند کے بجائے قومی مفاد اور ضرورتوں کے مطابق ان اداروں کی Input جو ہر لحاظ سے سٹیک ہولڈر اور بہتر علم و معلومات کے حامل ہیں‘ موجودہ بحران پر قابو پانے میں مددگار اقدامات ثابت ہو سکتے ہیں۔ 
خدا کرے کہ ایسا ہو‘ سراج الحق‘ آصف علی زرداری اور اعتزاز احسن کو اپنی گراں قدر خدمات کے عوض بعض جمہوری مطالبات اور سیاسی مشوروں کی پذیرائی پر اصرار کے جواب میں ''پپاں پپاں‘‘ سننے کو نہ ملے کہ یہ اس کے مستحق نہیں۔ مگر اُحد کا پہاڑ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر ہو سکتا ہے انسانی جبلت اور فطرت میں تبدیلی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں