پیر بلھے شاہ کو معلوم نہیں کیوں یہ غلط فہمی تھی کہ صرف بینائی سے محروم لوگوں کی بستی میں جان پہچان مشکل ہوتی ہے اور چشم بے بصر کسی کی ذات دیکھتی ہے نہ بات سنتی اور مانتی ہے، انہیں پنجاب پولیس سے واسطہ پڑتا توہرگز یہ نہ کہتے ؎
بلھے شاہ چل اوتھے چلیے، جتھے وسدے اَنھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی ساڈی مَنّے
تین روز قبل گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس کے درمیان لاہور پولیس نے معذوروں کا دن نابینا افراد کو زدوکوب کر کے منایا‘ ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوئی کہ پچھلے بیس پچیس سال سے تھانہ کلچر اور پولیس کا مزاج تبدیل کرنے کے مختلف حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے دعوے محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کارروائی تھی۔ پنجاب پولیس آج بھی اس گنوار کی مانند ہے جس نے کہا تھا '' ماں میں تھانیدار بن گیا تو سب سے پہلے تمہاری دھلائی کروں گا تاکہ پورے گائوں پر میرے رعب و دبدبے کی دھاک بیٹھ جائے۔‘‘
دوسروں پر رعب جمانے کی خواہش ایک ایسا روگ ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بڑی گاڑی، مہنگی گھڑی، وسیع و عریض گھر اور زرق برق لباس‘ سب دوسروں کو مرعوب کرنے کے بہانے ہیں اور طاقت و قوت کا اظہار۔ اس کی منحوس شکل۔ یہ روگ لگ جائے تو انسان کبھی پرویز مشرف کی طرح جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر فوج کشی کرتا ہے اور کبھی چیف جسٹس کی سر محفل تذلیل ۔ ماڈل ٹائون میں چودہ پندرہ بے گناہ افراد کی ہلاکت کو بھی اس کے سوا کیا نام دیاجاسکتا ہے ورنہ کسی پولیس افسر و اہلکار اور انہیں احکامات صادر کرنے والے حکام والا تبار کی ان مرحومین سے کیا دشمنی ہوگی اور ان لوگوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ اقتدار و اختیار کی دھاک بٹھانی تھی سو بٹھا دی۔ تیسری دنیا میں یہی انداز حکمرانی ہے او ریہی شیوۂ سلطانی۔
بینائی سے محروم لوگوں کے بارے میں دنیا کیا سوچتی، سمجھتی اور سفید چھڑی والوں سے کیا سلوک روا رکھتی ہے اس کو تو چھوڑیے کہ ہم نے دوسروں کی اچھائیوں کو اپنانے ، ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور ان کے قابل تقلید رویوں کو مشعل راہ بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ،نہ کبھی احتساب ذات کی ضرورت محسوس کی۔ ہم نے قسم اُٹھا رکھی ہے کہ دنیا میں جو برا ہو، اس کی ہم ہو بہو نقل کریں گے اور کسی اچھی بات، مثال پر کبھی عمل نہیں کریں گے۔ لیکن کیا حبِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ کے دعویدار کلمہ گو پولیس اہلکار اور افسر فرمانِ الٰہی اور اسوہ رسول ؐ کو بھی بھول گئے۔
حضور اکرم ﷺ ایک بار چند سرداروں کو قبول اسلام کی دعوت دے رہے تھے، آپ ؐ کی خواہش تھی کہ یہ بااثر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوں۔ اسی دوران آپؐ کے ایک پیدائشی نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن مکتومؓ حاضر خدمت ہوئے،وہ آپ ؐ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے۔آپؐ کو دخل در معقولات قدرے ناگوار گزرا اور آپ ؐ سرداران مکہ کی طرف متوجہ رہے۔ سرداروں کے رخصت ہوتے ہی سورہ عبس کی شکل میں وحی نازل ہوئی۔
'' وہ کبیدہ خاطر ہوا اور منہ موڑ لیا (صرف اس لیے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا۔تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا، یہ نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی ‘‘ایک نابینا صحابی سے ہلکی سی بے رخی برتنے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبرﷺ کو تنبیہ فرمائی '' کلا انھا تذکرہ (یہ ٹھیک نہیں) قرآن مجید تو نصیحت ہے‘‘ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے ''اللہ تعالیٰ جس کی دو آنکھیں لے لیتا ہے اور وہ صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرماتا ہے‘‘۔
وزیراعلیٰ ہائوس کی طرف مارچ کرنے کے خواہش مند ان معذوروں کا قصور یہ تھا کہ وہ صدقہ خیرات پر پلنے کے بجائے ملازمتوں میں اپنا حق مانگ رہے تھے ۔اگر کسی حاکم کی سواری کے سامنے ہاتھ پھیلاکر کھڑے ہوتے تو پولیس ان سے کبھی تعرض نہ کرتی۔ سواری صدر ممنون حسین کی ہوتی، وزیراعظم میاں نوازشریف کی یا وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کی، فوراً رکتی، ہٹو بچو کی آوازوں میں بادشاہ سلامت آگے بڑھتے،ان کے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ رکھتے، تالیاں بجتیں، تصویریں بنتیں، لائیو کوریج ہوتی اور یہ دوسرے بھکاریوں کی طرح سربخت کو دعائیں دیتے رخصت ہوجاتے مگر ان ڈیڑھ دو سو لوگوں نے خیرات کے بجائے حق مانگا اور آسمانی مخلوق کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جس کی سزا پولیس کی لاٹھیاں ، دھکے اور گولیاں ہیں۔ حکمران کوئی اور ہوتا اور پولیس دیگر شہر یا صوبے کی ہوتی‘ نابینا مظاہرین سے سلوک یہی ہونا تھا کہ ہمارے معاشرے کا چلن ہے اور پولیس ، انتظامیہ ، حکمرانوں کا انداز بندہ پروری۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد ماہر قانون جسٹس امیر علی ماجد امیگریشن جج ہیں اور لندن میٹرو پولیٹن یونیورسٹی کے قابل احترام استاد‘ ایک بار جنرل پرویز مشرف سے ملے تو سابق صدر نے ان کی خود اعتمادی‘ استقامت اور قابلیت پر داد دی۔ امیر علی بولے ،اگر میں پاکستان میں ہوتا تو کوئی پرائمری سکول میں معمولی ٹیچر بھی نہ لگاتا۔ ماجد صاحب اپنے آبائی گائوں غالباً گوجرخان میں خیراتی شفاخانہ بنانا چاہتے ہیں ۔صدر آصف علی زرداری‘ گورنر خالد مقبول اور گورنر سرور کو درخواستیں دے چکے ۔آج تک منظوری نہیں ملی۔ خالد مقبول کے سوا کسی نے ملنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی‘ نابینا ہونے کے علاوہ کوئی نقص ہے نہ کمزوری۔ کسی گورے برطانوی شہری کی خواہش ہوتی تو ہمارے حکمران دست بستہ حاضری دیتے اور منظوری کا پروانہ پیش کرتے۔ خواہ گورا بہادر جسٹس امیر علی ماجد کے دفتر میں جونیئر کلرک ہی کیوں نہ ہوتا۔
حد سے زیادہ دانا وبینا لوگوں کے اس معاشرے میں کمزوری ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ کمزور خواہ کوئی بچہ ہو ، بوڑھا، عورت یا معذور و مجبور، اسے کمزوری کی سزا ہر صورت میں ملتی ہے۔ ان نابینائوں کو نہ ملتی تو حیرت ہوتی۔ ملی ہے تو واویلا عبث ہے۔ تھر میں سینکڑوں بچے غذائی قلت، طبی سہولتوں کے فقدان اور ماں باپ کی غربت کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے، کسی مرکزی و صوبائی حکمران کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ سرگودھا اور وہاڑی میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے معصوم بچے رزق خاک ہوئے۔ حرام ہے کہ کسی ذمہ دار کے ماتھے پر شرمندگی اور ندامت کا ایک قطرہ نمودار ہوا ہو اور ہر دوسرے چوتھے ہفتے کسی نہ کسی وین اور بس کے حادثے میں درجنوں انسان لقمہ اجل بنتے ہیں ،کسی کو سزا ملتی ہے نہ کوئی فرائض میں غفلت ، پیشہ ورانہ لاپروائی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدہ و منصب سے مستعفی ہونے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ آنکھوں سے معذور افراد کو دھکے دینے والے پولیس افسران اور اہلکاروں سے باز پرس کون اور کیوں کرے۔ ہوئی بھی تو فریب کاری ہوگی ،معذورں کی اشک شوئی اور بس۔
لاہور کے ہولناک واقعہ پر تاسف کا اظہار ان کی طرف سے بھی ہوا جن کی رہنمائی‘ پشت پناہی اور حوصلہ افزائی سے یہ صوبہ اور ملک پولیس سٹیٹ بنا۔ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم بی بی نے یہ کہہ کر ان معذوروں کے آنسو پونچھے کہ اگر ابو میاں نوازشریف اور انکل میاں شہباز شریف ملک میں ہوتے تو کسی پولیس والے کو یہ جرأت نہ ہوتی۔ گویا غلطی پھر بھی ان معذوروں کی تھی کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی غیر حاضری میں یوم معذوراں منا ڈالا۔ آئندہ سارے حافظ جی اس کا خیال رکھیں ورنہ پولیس ان سے جو سلوک کرے گی اس کے ذمہ دار حکمران اور ان کے اہلخانہ ہرگز نہیں ہوں گے۔
بلھے شاہ بہت پہلے‘ صدیوں قبل اس دنیا سے کوچ کرگئے ورنہ لاہور پولیس انہیں بتاتی کہ صرف اندھے نہیں، قانون کے محافظ بھی اپنے افسروں اور حکمرانوں کے سوا کسی کی ذات پہچانتے ہیں،نہ کسی کی سنتے اور مانتے ہیں ۔کسی کمزور اور معذور سے نرمی اور خوش خلقی کا سلوک؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آخر میں ایک نابینا شاعر تیمور حسن کے چند اشعار :
حاکمِ وقت نے سچ کی مجھے قیمت دی ہے
انگلیاں کاٹ کے لکھنے کی اجازت دی ہے
اپنے اللہ کی تقسیم پہ خوش ہوں کہ مجھے
دی بصیرت، مرے دشمن کو بصارت دی ہے
شکر ہے مجھ کو دو عالم کے خدا نے تیمور
اس زمانے میں بھی احساس کی دولت دی ہے