مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟

دہشت گردی کے خطرہ سے نمٹنے کے لیے حکومت اور سیاسی و مذہبی قیادت کی اٹھک بیٹھک سے یہ تاثر تو ابھرتا ہے کہ اسے معاملے کی سنگینی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں فوجی قیادت نے جو کہا اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے‘ کہیں یہ سول قیادت کی سہل پسندی‘غفلت شعاری اور ناقص کارگزاری کا نوحہ تو نہیں۔
فوجی قیادت نے شرکاء اجلاس کو بریف کیا ہے کہ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے اینٹی ٹیررازم قوانین میں ترمیم اور نیکٹا کوآپریشنل کرنے کی ضرورت ہے اور جو ممالک دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں انہیں بے نقاب کیا جائے‘ ان سے کھل کر بات ہونی چاہیے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں بریفنگ جاری ہے اور ابھی تک ان ممالک کا نام سامنے نہیں آیا جو مبینہ و ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں لیکن گزشتہ روز ایساف اور افغان کمانڈرو ں کی آرمی چیف سے ملاقات اس سلسلے کی کڑی لگتی ہے۔
پشتو میں کہتے ہیں کہ بازار میں تنور گرم ہو تو ہر کوئی اپنی روٹی لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا تنور کیسے گرم ہوا؟ کس نے گرم کیا؟ اور کیوں اب تک بجھنے میں نہیں آ رہا؟ اس پر بحث اب یوں عبث ہے کہ ہر ایک نے روٹی لگائی اور دوسروں کو روٹیاں لگانے کا موقع دیا۔کسی سویلین اور فوجی حکمران کا دامن صاف ہے نہ کوئی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے ؎ 
کون ہے جس نے مئے نہیں چکھی‘ کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
میکدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
ہمارے گرم تنور سے روٹیاں لگانے والوں میں سے ایک بھارت بھی ہے جس نے 1971ء میں مکتی باہنی کے ڈیڑ ھ لاکھ عسکریت پسندوں کو تربیت ‘ اسلحہ اور نوٹ دے کر مشرقی پاکستان میں داخل کیا اور سرحد پار دہشت گردی کی بنیاد رکھی۔بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت مصر کے شہر شرم الشیخ میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کو دیے تھے اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں بھارتی اسلحہ‘ کرنسی اور روز مرہ استعمال کی اشیاء ہماری فورسز برآمد کر چکی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کئی بار تذکرہ کر چکے اور موجودہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی نجی محفلوں میں انکشاف کرتے ہیں۔
جنوری 2013ء میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ نے ایک خبر ریلیز کی جس میں بتایا گیا تھا کہ ''مقبوضہ کشمیر میں حکام نے مقامی شہریوں کو ممکنہ ایٹمی جنگ کی وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بم پروف گھر بنائیں‘دو ہفتوں کا پانی‘ کھانے پینے کی اشیاء ‘ موم بتیاں‘ آپریٹڈ لائٹس اور ریڈیو وغیرہ رکھ لیں‘ چھوٹا گھر ہے تو باہر یہ انتظام کر لیں وغیرہ وغیرہ‘‘۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاک بھارت سرحدی جھڑپیں جاری تھیں اور بھارتی وزیر داخلہ شنیل کمارشندے نے راشٹریہ سیوک سنگھ اور بی جے پی کی طرف سے قائم کئے گئے دہشت گردی کیمپوں کا انکشاف کیا۔
2013ء میں شنیل کمار شندے کے بقول دہشت گردی کے کیمپ قائم کرنے والی بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ ان دنوں بھارت میں برسر اقتدار ہے‘ وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دے چکے ہیں‘ مشرقی سرحدوں پر صورت حال خراب ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر نے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ خوش قسمتی سے پاک فوج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہونے کے باوجود مشرقی سرحد سے غافل نہیں اور فوجی قیادت محض حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے سفارتی محاذ پر بھی سرگرم ہے۔ آرمی چیف کا دورہ چین‘سعودی عرب‘ امریکہ اور ہنگامی دورہ افغانستان اس سلسلے کی کڑی ہے۔
ہر ذی شعور جانتا ہے کہ افغانستان اپنی کمزوریوں اور امریکہ و بھارت پر انحصار کے سبب پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد و عسکریت پسند گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے نہیں روک سکتا۔بعض علاقوں پر اس کا کنٹرول نہیں اور بعض گروپوں کے سرپرست انہیں وہاں رکھنے پر مصر ہیں مگر مالی امداد اور اسلحہ انہیں کوئی دوسرا ملک ہی فراہم کرتا ہے۔ محض اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں اور منشیات کی فروخت سے سٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیار خریدے جا سکتے ہیں نہ موسٹ ماڈرن کمیونی کیشن نیٹ ورک کا قیام ممکن ہے۔ یہ کوئی اور ہے جو مکتی باہنی کی طرح انہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے؛ تاہم استعمال ہونے والے ہمارے اپنے باغی اور دہشت گرد ہیں جن کا قلع قمع اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے بیرونی سرپرستوں اور پشت پناہوں کو بے نقاب نہیں کیا جاتا۔
برسوں قبل2000ء اور 2005ء میں واشنگٹن پوسٹ‘ بھارتی جریدے آئوٹ لک اور امریکی پالیسی دستاویز میں چند پیش گوئیاں کی گئی تھیںجن میں سے ایک یہ تھی: ''حکومت پاکستان کو اسلام پسند جہادیوں پر کوئی کنٹرول نہیں رہے گا جو ملک پر اختیار حاصل کرکے کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے‘‘... ''بھارتی فوجیں موجودہ لائن آف کنٹرول کو پار کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں داخل ہو جائیں گی۔یہ خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستان پہلے حملے (First Strike)کا آپشن استعمال کر سکتا ہے‘ بھارت اس کے ایٹمی اثاثوں اور حساس تنصیبات کو روائتی ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کی کوشش کرے گا مگر کامیاب نہ ہو گا‘‘۔ 
مزید ''بدلے میں جیو یا مرو کی صورت حال کا شکار پاکستان اپنے سے زیادہ بڑی حملہ آور بھارتی افواج کے خلاف First Strikeپر مجبور ہوگا‘‘۔ اس سٹوری میں امریکہ کے دوہرے کردار‘ پاکستان کی بلقانائزیشن اور آزاد بلوچستان‘ پختونستان ‘ متحدہ کشمیر اور متحدہ پنجاب کا تذکرہ ہے۔ یہ سٹوری میں ایک آدھ بار پہلے بھی اپنے کالموں میں تفصیل سے درج اور بیان کر چکا ہوں۔
سانحہ پشاور کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں اور کنٹر میں آپریشن کے دوران افغان فورسز کو کیا کیا شواہد ملے؟ اس کا علم حساس اداروں کے سوا کسی کو نہیں‘ ممکن ہے کل جماعتی کانفرنس میں فوجی قیادت نے بعض کلاسیفائڈ معلومات سے سیاسی و مذہبی قیادت کو آگاہ کیا ہو مگر ملک بھر میں فوج نے جس سرچ آپریشن کا آغاز کیا ہے ‘آپریشن ضرب عضب کا دائرہ ملک بھر کے شہر و دیہات تک پھیلایا ہے اور فوجی عدالتوں کا قیام‘ نیکٹا کی فعالیت اور اینٹی ٹیررازم قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ ہونے لگا ہے۔اس سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاملہ اب صرف طالبان تک محدود نہیں‘ پانی سرسے گزر چکا ہے اور پاکستان کو آل آئوٹ وار کی طرف دھکیلنے والوں کے علاوہ ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کا وقت آ گیا ہے۔مگر کیا ہماری سیاسی قیادت اس کے لیے تیار ہے؟خطے کو بھارتی عزائم اور ایٹمی جنگ سے بچانے کے لیے مستعد و متحد ہے؟ 
غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلوں کا وقت آ چکا۔بھاگ دوڑ اور اٹھک بیٹھک کے بجائے اب جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے فوجی عدالتیں مفید ہیں تو محض اس بنا پر ان کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ سول بالادستی کی نفی اور موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد ہے۔اگر سول بالادستی کے علمبردار وقت ضائع نہ کرتے‘ ان کی سستی‘ کاہلی اور نااہلی کے سبب دہشت گردوں کے حوصلے بلند نہ ہوتے اور سول عدالتیں خوف کا شکار نہ ہوتیں تو کسی کو یہ مطالبہ کرنے کی آخر ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ کوئی کرتا تو کون سنتا؟ خود کردہ راعلاجے نیست۔ جس سول نظام کو اجلاس بلانے‘ سزا یافتہ مجرموں کو لٹکانے‘ نیکٹا کوآپریشنل اور دہشت گردوں کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کا مشورہ بھی فوجی قیادت سے درکار ہو اور وہ جی ایچ کیو کی ہلہ شیری کے بغیر زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر بنا برسوں تک مزید چلنے کے قابل موٹر وے کی تعمیر نو پر دو سو ارب روپے خرچ کرنے کی تدبیریں سوچنے میں مصروف ہو‘ اس کی بالادستی سے قوم کو کتنے نفل کا ثواب اور وہ کیوں یہ بھاشن سنے۔
قوم طورخم سے چمن اور کراچی سے آزادی کشمیر تک ہر جگہ‘ ہر نوع‘نسل‘ زبان اور مذہب و مسلک کے دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتی ہے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کی خواہاں ہے۔ یہ فوجی آپریشن کے ذریعے ہو یا فوجی عدالتوں کے قیام‘ دہشت گردوں کو سرعام لٹکانے اور نیکٹا کی فعالیت کے باعث؛ یہ نیک کام فوجی قیادت کے ہاتھوں انجام پائے یا سیاسی قیادت کے‘ قوم کو آم کھانے سے غرض ہے پیڑ گننے سے نہیں جو ہمار ے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ اگر ڈیڑھ سال میں بسیار خور جمہوریت نے قوم کو حقیقی امن فراہم کیا ہوتا اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پا لیتی تو عوام آج حکومت کی بجائے فوج کی طرف نہ دیکھ رہے ہوتے اور قائداعظم ثانی کے سیاسی قلعہ لاہور میں مسلم لیگ ہائوس کے سامنے یہ بینر آویزاں نظر نہ آتا ؎ 
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
اور وزیراعظم ہائوس میں حکومت کے حلیف فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت بڑھ چڑھ کر نہ کرتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں