سپر پاورز کا قبرستان

عجب اتفاق ہے پینتیس سال قبل 27دسمبر 1979ء کو سوویت یونین کی فوج افغانستان میں داخل ہو ئی اور 28دسمبر(2014ء )کو امریکہ کی زیر کمان نیٹو افواج نے 13سالہ جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔نیٹومشن کا جھنڈا اتارا گیا اور ملک کے سکیورٹی معاملات افغان فوج کو سونپ دیئے گئے۔
سوویت یونین نے افغانستان سے بوریا بستر لپیٹا تو اس وقت تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 533روسی فوجی اور غیر سرکاری دعوئوں کے مطابق 1200روسی فوجی جان ہار چکے تھے جبکہ تیرہ سالہ جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے 3500فوجی ہلاک ہوئے جن میں 2300امریکی شامل ہیں۔واشنگٹن پوسٹ‘اے بی سی نیوز‘این بی سی نیوز اور دیگر امریکی اداروں کی سروے رپورٹوں کے مطابق پچاس سے ستر فیصد عوام نے افغان مشن ختم کرنے کے صدارتی فیصلے کو درست قرار دیا اور اس جنگ کو بے مقصد‘نقصان دہ اور بے نتیجہ بتایا۔
9/11کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں فوجیں اتارنے کا اعلان کیا تو اس وقت تک صرف افغانستان شورش زدہ ملک تھا جہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بقول دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تھیں مگر آج دہشت گردی کا عفریت پورے عالم عرب‘پاکستان اور مشرق بعید کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے‘اس وقت صرف القاعدہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے ،اب القاعدہ کے ساتھ داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا نام بھی ان تنظیموں میں شامل ہے جن کا عالمی ایجنڈا ہے اور جو دنیا بھر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں کوئی دوسرا9/11برپا نہیں ہوا اور واحد سپر پاور پہلے سے زیادہ محفوظ ہے لیکن عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا بھوت اب دنیا بھر میں امریکہ کے اتحادیوں کو صرف خوابوں میں نہیں بلکہ جیتے جاگتے ڈراتا ہے اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک کے علاوہ پاکستان کی آزادی‘اتحاد اور سلامتی کو سنگین خطرات درپیش ہیں۔افغانستان سے سوویت یونین کی فوج کے انخلاء کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت برقرار رہی اور جنرل ضیاء الحق کی طرف سے وسیع البنیاد حکومت تشکیل دینے کی تجویز کسی نے قبول نہیں کی، اب ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کے سوا باقی تمام سٹیک ہولڈرز اس پر متفق ہیں اور بالآخر طالبان کو بھی ان کے ساتھ معاملات طے کرنے پڑیں گے کیونکہ اب وہ اپنے طور پر افغانستان پر قبضہ کرنے اور اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں شاید نہ ہوں۔
امریکہ اور نیٹو افغانستان کو ساڑھے تین لاکھ افغان فوجیوں کے حوالے کر کے واپس جا رہے ہیں۔ ان فوجیوں کی تربیت تو امریکی اور یورپی فوجی ماہرین نے کی‘معاوضہ بھی پرکشش دیا جا رہا ہے اور انہیں تیرہ ہزار امریکی فوجیوں کی مدد بھی حاصل ہے جو مزید ایک سال تک افغانستان میں مقیم رہیں گے۔یہ فوجی نہ صرف مزید تربیت دیں گے بلکہ آپریشنل معاملات میں افغان فوج کی مدد بھی کریں گے لیکن یہ تاثر عام ہے کہ جدید اسلحہ‘تربیت اور تکنیکی مہارت سے لیس یہ افغان فوج مٹھی بھر طالبان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔اب تک افغان فوج کے بھگوڑوںنے اس تاثر کو پختہ کیا ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران افغان فوجیوں کی اموات سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ساڑھے تین لاکھ افراد پر مشتمل فوج کا بوجھ غریب‘کمزور اور جنگ زدہ افغانستان کی معیشت و اقتصادیات اٹھانے کے قابل ہے۔اگلے چار سال تک تو امریکہ اور اس کے اتحادی چار ارب ڈالرسالانہ کی امداد فراہم کریں گے جو کہ کرپشن میں لت پت افغانستان کے لیے مونگ پھلی کے برابر ہے مگر جب غیر ملکی امداد بند ہو گی تو پورس کے ان ہاتھیوں کا خرچہ کیسے پورا ہو گا۔ فوج کا غالب حصہ غیر پختونوں پر مشتمل ہے ۔مقابلے میں طالبان ہیں جو پختون نمائندگی کے دعویدار ہیں اور غیر ملکی استعمار کے خلاف جہا دکے علاوہ اس عصبیت نے انہیں ایساف کا مقابلہ کرنے میں مدد دی۔غیر پختون فوج کی کارروائیاں نسلی تعصبات اور منافرتوں پر مبنی پختون معاشرے میں کیا ردعمل پیدا کریں گی؟ اس پر سنجیدگی سے سوچا گیا نہ علاج تجویز ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی دانشور افغان فوج کی اہلیت اورصلاحیت کے بارے میں پر امید ہیں نہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے عزم سے مطمئن۔ یہ خدشہ ہر جگہ موجود ہے کہ اپنے آہنی کیمپوں میں محصور تیرہ ہزار امریکی فوجی ساڑھے تین لاکھ افغان فوج کی مدد کر سکیں گے نہ عراق میں تربیت پانے والی فوج سے مختلف انجام کو روک پائیں گے ۔نیٹو مشن ختم ہونے کے بعد فوجی بھگوڑوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے اور اس کے اثرات اشرف غنی کی حکومت کے علاوہ موجودہ افغا ن سیاسی و فوجی ڈھانچے پر پڑیں گے اور شاید افغانستان میں ایک بار پھر 1990-91ء کی تاریخ دہرائی جائے۔
جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان اس وقت ہوا جب افغانستان میں طالبان حملوں کی تعداد اور سنگینی بڑھ چکی ہے‘ امریکہ اور یورپ کی توجہ کا مرکز اب افغانستان کے بجائے عراق‘شام اور شرق اوسط ہے جہاں داعش نے اتحادیوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور داعش القاعدہ سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آ چکی ہے۔داعش کی وجہ سے مختلف النوع مذہبی‘مسلکی ‘نسلی ‘لسانی تنازعات جنم لے چکے ہیں جبکہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی وج سے عربوں کی نوجوان نسل داعش کی طرف راغب ہے۔
جنگی مشن کا خاتمہ صدر اوباما کے اس وعدے کی تکمیل ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں امریکہ 31دسمبر 2014ء سے قبل افغانستان میں اپنے فوجی آپریشنز بند کر دیگا اور معاہدہ کی رو سے صرف تیرہ ہزار فوجی ایک سال کے لیے افغان سرزمین پر موجود رہیں گے‘پہلے یہ تعداد دس ہزار بتائی گئی تھی۔افغانستان سے اتحادیوں کا انخلاء تدبیراتی اور تزویراتی اعتبار سے ناکامی کا مظہر ہے ۔امریکی دفاعی تجزیہ کار بھی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے سوا امریکہ نے افغان جنگ سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا ۔کم و بیش ڈیڑھ کھرب ڈالر لاگت کی اس جنگ کا خاتمہ جھنجھلاہٹ ‘تشویش اور تھکاوٹ کی صورت میں ہو رہا ہے ۔طالبان بدستور افغانستان کی عسکری قوت ہیں‘طالبان سے سیاسی تصفیے کی کوششیں بوجوہ کامیاب نہیں ہوئیں‘ملا عمر زندہ سلامت طالبان کی قیادت کر رہے ہیں‘اسامہ بن لادن کی جگہ ایمن الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھال ر کھی ہے اور ڈرون حملے انہیں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اشرف غنی حکومت کا انحصار امریکہ‘پاکستان اور شمالی اتحاد کے بچے کھچے عناصر پر ہے جو کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ فکر مند پاکستان کو ہونا چاہیے کیونکہ وہ 1989ء میں پائیدار سمجھوتے کے بغیر سوویت یونین کے انخلا کا مزہ چکھ چکا ہے جبکہ پاکستان اندرونی طور پر زیادہ مستحکم اور مضبوط تھا ۔پاک فوج وسیع الجہات آپریشن میں مصروف تھی نہ اندرون ملک دہشت گردی کی وارداتوں نے اس کی آزادی ،سلامتی اور دفاع کے لیے سنگین خطرات پیدا کئے تھے۔ 1989ء میں سوویت یونین کے آخری فوجی(سوویت فوج کے مقامی کمانڈر جنرل بورس گروموف) کے انخلا کے بعد مجاہدین کے پاس لڑائی جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہا تھا جبکہ تیرہ ہزار امریکی فوجی اہلکاروں کی موجودگی پختونوں اور طالبان کو برسر پیکار رکھنے کا بہانہ فراہم کریگی۔
ڈاکٹر اشرف غنی گرچہ پختون ہیں مگر بیرون ملک قیام‘غیر ملکی اہلیہ‘ اور امریکہ پر انحصار کے علاوہ امن معاہدہ کی بنا پر پختون حلقے میں متنازعہ ہیں اور ان کی زیر کمان افغان فوج میں بھی غیر پختونوں کی اکثریت ہے اس لیے اگر طالبان اور حکومت میں پائیدار اور آبرو مندانہ معاہدہ نہ ہوا تو معاملات ایک بار پھر بگڑ کر عراق کی سی صورت حال پیداکر سکتے ہیں اور یہ پاکستان پر بُری طرح اثر انداز ہوں گے جس نے حالیہ دنوں میں کسی تفریق اور امتیاز کے بغیر طالبان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر کے حقانی گروپ ،ملا نذیر اور حافظ گل بہادر گروپ کو بھی ناراض پختونوں کی صف میں دھکیل دیا ہے ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے تو ڈیڑھ کھرب ڈالر کا نقصان کر کے افغانستان کی دلدل سے نکلنے میں عافیت سمجھی ہے مگر ہم اس سے کب نکل پائیں گے یہ اہم ترین سوال ہے۔
1989ء میں سوویت یونین کا انخلا اور بالآخر ایک کمیونسٹ سپر پاور کا انہدام پاکستان کے مصائب میں اضافے کا سبب بناوسطیٰ ایشیا تک رسائی کی خواہش پوری ہوئی نہ افغانستان میں دوست حکومت کے قیام کی کوششیں کامیاب۔اب ایک دوسری سپر پاور بصدسامان رسوائی افغانستان سے پسپا ہوئی ہے ۔اس نے پاکستان کو اپنے علاوہ افغانستان کی سلامتی اور دفاع کی ذمہ داریاں سونپ کر افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی امریکہ میں تحسین کی جا رہی ہے مگر ہم عجیب دوراہے پر کھڑے ہیں امریکہ کے فیصلے کی تحسین کریں؟اپنے بارے میں سوچیں یا چشم تصور سے 1990ء کا منظر دیکھ کر سر پیٹیں؟ کہ تب ہم افغانستان میں دوست حکومت نہ لاسکے اور اب افغانستان میں دوست عوام کی تلاش مشکل ہے۔پہلے برطانیہ ‘ پھر سوویت یونین اور اب ریاست ہائے متحدہ امریکہ؟افغانستان سپر پاورز کا قبرستان ‘امریکی دانشور پال کنڈیں نے اپنی کتاب the rise and fall of great powersمیں سکندر کے یونان سے برزنیف کے سوویت یونین تک سپر پاورز کے زوال کے جو اسباب لکھے ان کا اطلاق امریکہ پر ہوتا ہے یا نہیں؟امریکی انخلا کے بعد ہی پتہ چلے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں