تھپڑ

قصور سلطان محمود ہنجرا کا تھانہ شیخ روحیل اصغر کا ہے‘ وزیراعظم نوازشریف سے مصافحہ اور سرگوشی کا شوق وجہ نزاع بنا۔ لاہوری خون جوش میں آیا اور مظفر گڑھ کے رکن اسمبلی کو تھپڑ پڑ گیا۔ اگر سلطان محمود ہنجرا شیخ روحیل اصغر کا حق فائق جانتے‘ وزیراعظم کے سامنے اپنی چہرہ نمائی پر اصرار نہ کرتے تو ان کے کولیگ کا پارہ چڑھتا نہ بدمزگی ہوتی۔ 
بے جا خوشامد‘ چاپلوسی اور حکمرانوں کی مدح و ستائش کے علاوہ کورنش بجا لانے اور حاضری لگوانے کا شوق ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے اور ترقی درجات کا تیر بہدف نسخہ۔ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ 1999ء میں مسلم لیگ کے ایک نائب صدر نے جو بعدازاں مسلم لیگ ہم خیال گروپ سے وابستہ رہے پارلیمانی پارٹی میں ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا تھا جو آج بھی یادداشت میں محفوظ اور تازہ ہے۔ 
ایک رکن اسمبلی نے وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ''جناب والا جس طرح کمال اتاترک نے یورپ کے مردِ بیمار ترکی کو نئی زندگی بخشی اسی طرح آپ نے بھی پاکستان کو ولولۂ تازہ سے ہمکنار کیا ہے‘‘ 
دوسرا بولا ''حضور یہ ہیوی مینڈیٹ نہیں‘ خون کا قطرہ بہائے بغیر انقلاب ہے جو آپ نے برپا کر دیا‘‘ پھر چل سو چل کسی نے ڈیگال اور چرچل کو وزیراعظم سے پستہ قد ثابت کیا اور کسی نے لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں اپنے قائد کی بے مثل کامرانی کا قصیدہ پڑھا۔ 
مخدوم شہاب الدین 1996ء میں پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کے بعد بلائے گئے پارٹی لیڈروں اور معزول کابینہ کے ارکان کے اجلاس کی روداد سنایا کرتے ہیں۔ مدعوئین ابھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد کے منتظر تھے اور غیر رسمی گپ شپ چل رہی تھی۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز میں حکومت کی غلطیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کر رہا تھا۔ سردار فاروق لغاری اور آصف علی زرداری کے مابین شخصی تصادم پر سب متاسف تھے اور حکومت کی تحلیل میں اہم فیکٹر قرار دے رہے تھے۔ 
ایک بڑبولے رکن اسمبلی نے مخدوم صاحب سے کہا ''آج آپ ہمارے نمائندے اور لیڈر ہیں بی بی کے سامنے اصل صورتحال رکھنا ضروری ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت ہونے والی گفتگو سے بی بی کو آگاہ کریں تاکہ بہتر اور حقیقت پسندانہ حکمت عملی وضع کی جا سکے‘‘ مخدوم شہاب الدین نے سینے پر ہاتھ رکھا‘ سر کو جنبش دی اور گویا ہوئے ''بجا مگر یہ اجازت دیجیے کہ میں ایک ایک کا نام لے کر اس کے جذبات و احساسات سے بی بی کو آگاہ کروں تاکہ کسی کو گلہ نہ ہو کہ میں نے ان کی بات پوری طرح بی بی کے گوش گزار نہیں کی‘‘۔ یہ سنتے ہی سب بیک زبان بولے ''مخدوم صاحب ہمیں مروانا چاہتے ہیں آپ! ہمارا خیال تو یہ ہے کہ آپ دبنگ ہیں اور بی بی آپ کا احترام کرتی ہیں جو بات ہم نہیں کہہ پاتے آپ کہہ دیں مگر آپ تو ہمیں پارٹی سے نکلوانے پر تُل گئے ہیں‘‘۔ محترمہ تشریف لائیں تو قصیدہ خوانی شروع ہو گئی۔ سب نے اس اقدام کو فاروق لغاری کی کم ظرفی‘ بزدلی اور اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دے کر بی بی‘ آصف علی زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں کو معصوم عن الخطا بتلایا: 
یا اللہ یا رسولؐ، بے نظیر بے قصور 
ایک بار ایس ایس پی گوجرانوالہ نے حافظ آباد میں کچہری لگائی اور مقامی پولیس کے بارے میں حاضرین سے تاثرات معلوم کیے۔ عمائدین شہر میں سے ایک نے جو جنرل ضیاء الحق کی صوبائی مجلس شوریٰ کے رکن رہے تھے گفتگو کا آغاز یوں کیا ''جناب والا یہاں کی پولیس کے کیا کہنے‘ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اگر ایسی ہی پولیس کربلا میں ہوتی تو تاریخی سانحہ ہرگز رونما نہ ہونے دیتی۔ مقامی ڈی ایس پی ضبط سخن نہ کر سکے اور کہنے لگے چودھری صاحب کچھ خدا کا خوف کیجیے ہم گناہگار لوگ اور حکم کے بندے ہیں اگر ہم میں سے کوئی کربلا کے میدان میں ڈیوٹی پر ہوتا تو کوئی مرد و زن زندہ نہ چھوڑتا۔ مجمع کھلکھلا اٹھا اور چودھری صاحب بل کھا کر بیٹھ رہے۔ 
ہمارے لیڈر یا حکمران دراصل گوشت پوست کے انسان نہیں عقیدت کے مرکز اور پیر خانے ہیں‘ ان کے پیروکار کارکن نہیں عقیدت مند اور زیارت کے مشتاق۔ انہی زائرین کی خوشامد اور چاپلوسی سے مرعوب ہو کر ہمارے سول اور فوجی حکمران خبط عظمت میں مبتلا ہوتے اور ذہین‘ دانا‘ معاملہ فہم اور دوراندیش مشیروں‘ ساتھیوں سے کنارہ کشی کر لیتے ہیں۔ ایوب خان کو ڈیگال‘ بھٹو کو فخر ایشیا اور ضیاء الحق کو صلاح الدین ایوبی قرار دینے والوں نے تو من کی مراد پائی مگر ملک کا بُرا کیا۔ 
سینئر بیوروکریٹ م ب خالد نے اپنی کتاب ''ایوان صدر میں سولہ سال‘‘ میں سندھ کے ایک زمیندار پیر صاحب کا قصہ لکھا ہے جو گورنر جنرل ملک غلام محمد کے دورۂ سکھر کے دوران مہمانداری اور خاطر تواضع کے لیے ساتھ تھے۔ یہ صوبائی وزیر تھے اور بعدازاں وفاقی وزیر اور سفیر کبیر بنے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے سلیم شاہی جوتا پہن رکھا تھا جو ان کا ذاتی ملازم قاسم خان سنبھالتا مگر مجال ہے کہ ان پیر صاحب نے ایک بار بھی قاسم خان کو جوتا سنبھالنے کا موقع دیا ہو۔ ہر بار وہ گورنر جنرل کا جوتا سنبھالتے‘ پہناتے اور پھر اپنی انگلیوں کو بوسہ دیتے۔ غلام محمد نے مگر ان کی اس خدمت و تواضع کی کوئی قدر نہ کی‘ انہیں خوشامدیوں اور خوشامد سے نفرت تھی۔ پیر صاحب کو وفاقی وزیر بننے کے لیے غلام محمد کی رخصتی اور سکندر مرزا کی آمد کا انتظار کرنا پڑا۔ ایوب دور میں یہ سفیر کے منصب پر فائز ہوئے اور بھٹو نے ان کی ''خدمات‘‘ سے استفادہ کیا۔ 
ان دنوں ایسے بہت سے لوگ میاں نوازشریف کے اردگرد نظر آتے ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں نعرہ لگایا کرتے تھے ''قوم کی یہ مجبوری ہے پرویز مشرف ضروری ہے‘‘ لاہور کی مال روڈ پر ایک بینر کافی عرصہ تک آویزاں رہا جس پر درج تھا ؎
غریبانِ وطن کا اب یہی منشور ہے 
جو کہے پرویز مشرف وہ ہمیں منظور ہے 
رہتی دنیا تک مرے مولا یہی ایکٹو رہے 
زندگی بھر مسکراتا‘ چیف ایگزیکٹو رہے 
ایسی بے سروپا دعا تو خیر کیا قبول ہونی تھی بینر آویزاں کرنے والے کو پرویز مشرف کے بعد میاں صاحب کا دعا گو بننے کا موقع مل گیا اور ان دنوں مزے میں ہے۔ 
سیاسی اجتماعات میں اکثر لڑائی جھگڑا اس بات پر ہوتا ہے کہ ہر کارکن‘ رکن اسمبلی اور وزیر مشیر بادشاہ سلامت سے ہاتھ ملانے‘ تصویر کھنچوانے یا دور سے سلام کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لیڈر ناقابل رسائی ہو تو یہ خواہش مزید بڑھ جاتی ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس میں بھی روحیل اصغر اور سلطان محمود ہنجرا کے مابین دھکم پیل کی نوبت یوں آئی ورنہ دونوں عزت دار اور معقول ارکان اسمبلی ہیں‘ اس حد تک کیوں جاتے؟ میاں صاحب اگر وقتاً فوقتاً ارکان اسمبلی سے ملتے ملاتے رہیں‘ ان کے سلام کا جواب دے دیا اور ان سے سرگوشی کر لیا کریں تو انہیں لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے کو تھپڑ رسید کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 
اس مزاج اور عادت نے ملک میں جمہوری روایات کو پنپنے دیا نہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے سے بہتر و برتر ذہنی‘ علمی اور اخلاقی سطح کے افراد کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے اخلاق و کردار‘ علم و استعداد سے استفادہ کرنے پر آمادہ کیا۔ مطالعہ اور کتاب سے ہمارے سیاستدان ویسے ہی بھاگتے ہیں‘ مہنگی گاڑیوں کی کیٹلاگ اور پانچ چھ ستارہ ہوٹلوں کی مینو بُک البتہ یہ آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ کسی سیاستدان اور حکمران سے بات کرو تو جواب ملے گا ہم کتابوں کو نہیں انسانوں کو پڑھتے ہیں اور انسان سے مراد وہ ضرورت مند ہوتے ہیں جو ان کے سامنے ہاتھ پھیلائے عرض مدعا کرتے نظر آتے ہیں۔ 
پارلیمنٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کی تشکیل کی منظوری کے بعد وزیراعظم اپنی نشست سے اُٹھ کر باہر جانے لگے تو اس ''تاریخی‘‘ کامیابی پر مبارکباد دینے والوں کا ہجوم تھا اور یوں لگتا تھا کہ منتخب پارلیمنٹ اور وزیراعظم نے کشمیر فتح کر لیا ہے۔ جبکہ اسی پارلیمنٹ میں رضاربانی کی آنکھوں میں آنسو اور ماتھے پر عرق انفعال کے قطرے تھے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے ووٹ دینے کے عمل کو اپنی موت قرار دیا مگر صرف مسلم لیگی ارکان ہی نہیں دیگر جماعتوں کے ارکان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور وہ اس موقع کو بھی چہرہ نمائی اور چاپلوسی کے لیے غنیمت گردان رہے تھے۔ 
نوابزادہ نصراللہ خان اس بات پر فخر محسوس کیا کرتے تھے کہ فوج میں کسی کو دل کی بات زبان پر لانے کا موقع نہیں ملتا۔ ایک ہی اشارے پر سب الٹے پائوں گھوم جاتے ہیں مگر سیاستدان آزاد منش اور آزاد فکر ہوتا ہے حالانکہ فوج میں کوئی افسر یا اہلکار اپنے کمانڈر یا سپہ سالار کو شکل دکھانے اور نمبر بنانے کے لیے دھکم پیل کرتا ہے نہ دوسرے کے گلے پڑتا ہے۔ ہمارے موجودہ سیاستدان اور سویلین حکمران اپنی ادائوں پہ خود ہی غور کریں ع 
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں