بے دلی سے تو ابتدا نہ کرو

مقتول نیّر عباس کے ورثا سے صلح ہو جانے کے بعد سزائے موت کے قیدی اکرام الحق کی جان تو بچ گئی مگر یہ حقیقت منکشف ہونے کے بعد کہ ڈیتھ وارنٹ اس کے نہیں ،درجنوں سنگین جرائم میں ملوث اکرم لاہوری کے جاری ہوئے تھے اور صلح نہ ہوتی تو اکرام الحق کو اکرم لاہوری سمجھ کر تختہ دار پر لٹکادیا جاتا، ہمارے قانونی اور انتظامی نظام‘ محکمہ جیل خانہ جات اور عدالتی افسروں کی کارگزاری کی قلعی کھل گئی ہے۔ 
کسی انسان کو خواہ وہ معصوم ہو یا مجرم، زندگی سے محروم کرنا غیر معمولی اقدام ہے۔ اسی بنا پر احتیاط کے جملہ تقاضے ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ مختلف سطح پر اپیلوں اور پھر صلح و معافی کا حق بھی اس لیے دیا جاتا ہے کہ ایک انسان کی جان اگر بچ سکتی ہے تو بچا لی جائے۔ وہ اگر اپنے کیے پر پشیمان اور آئندہ پُرامن و قانون پسند شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے تو اسے یہ موقع دیا جائے مگر اکرام الحق کے واقعہ سے لگتا ہے کہ ہمارے ہاں جیلوں میں قیدیوں کے جرائم‘ سزائوں وغیرہ کا تفصیلی ریکارڈ رکھنے کی روایت ہے نہ سزائوں پر عملدرآمد سے پہلے ٹھوس چھان بین کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور جس کی گردن میں پھندا فٹ بیٹھتا ہو، اس کی گردن ناپ دی جاتی ہے۔ 
پاکستان میں کسی کو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے ہمدردی ہے ،نہ کوئی جنرل پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کی طرح دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور قتل و بغاوت کے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ مقدمات میں سزایافتہ افراد کی برسوں جیلوں میں خدمت مدارات کے حق میں ہے۔ یہ رحمدلی امریکہ و یورپ کے دبائو پر ہو یا اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ،روزانہ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھتے دیکھ کر آہیں بھرنے والے عوام کے خیال میں سفاکی و سنگدلی ہے۔ ہر قانون پسند شہری کو انصاف عزیز ہے اور وہ جنگل کا قانون نہیں چاہتا۔ 
اگر ہمارے ریاستی اداروں کی کارگزاری یہ ہے کہ وہ سزائے موت کے کسی قیدی کا ریکارڈ چیک کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں، نہ عدل و انصاف اور احتیاط کے دیگر تقاضوں کو روا رکھتے ہیں تو پھر مولانا فضل الرحمن کے اس مؤقف کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کا حق نہ دیا گیا تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا اور یہ عدل و انصاف کے فطری تقاضوں کے منافی ہے۔ 
پارلیمنٹ نے اکیسویں ترمیم کی منظوری دے کر یہ تو ثابت کردیا ہے کہ پے در پے ترامیم اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی بنا پر ہمارا موجودہ آئینی‘ قانونی‘ جمہوری اور عدالتی ڈھانچہ نہ تو ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے اور کسی غیر معمولی صورت حال سے نمٹنے کے قابل ہے، نہ ہماری سیاسی اشرافیہ اور منتخب پارلیمان اتنی دوراندیش‘ معاملہ فہم اور عوام دوست ہے کہ وہ اپنے مفادات اور وقتی جذبات سے بالاتر ہو کر کوئی ایسا اعتدال پسندانہ فیصلہ کر سکے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ دبائو کے تحت فیصلہ کرتے وقت یہ یکسو بھی نہیں ہوتے اور ابن الوقتی اور اصول پرستی سے بیک وقت عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
ووٹ دے رہے ہیں‘ تالیاں پیٹ رہے ہیں اور کہے جا رہے ہیں کہ یہ غیرمعمولی حالات کا تقاضا اور زہر کا پیالہ پینے کے مترادف ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ چوری کھانے والے مجنوں ہیں ،زہر کا پیالہ پینے والے سقراط نہیں۔ 
یہی پارلیمنٹ اور اس کی بالادستی کی علمبردار جماعتیں تھیں جو کل تک عام انتخابات میں دھاندلی کا تنازع حل کرنے کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور جوڈیشل کمیشن کے معاون کے طور پر خفیہ ایجنسیوں کی شمولیت کی مخالفت میں پیش پیش تھیں اور بار بار عمران خان سے پوچھا جاتا کہ آئین کی کون سی شق کے تحت انتخابات کا آڈٹ ہو سکتا ہے؟ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ممکن ہے؟ اور خفیہ ایجنسیوں سے مدد لی جا سکتی ہے؟ مگر جب وقت قیام آیا تو یہ نادان جمہوریت‘ آئین‘ سول بالادستی اور آزاد و فعال عدالتی نظام کی گردان بھول کر ''فوری انصاف‘ فوری انصاف‘‘ پکارنے لگے۔ چند ہفتے پہلے تک آئین کو وحی الٰہی اور جمہوریت کو مذہب یا عقیدہ نہ سمجھنے والے سادہ لوح جب یہی بات کرتے تھے تو جمہوریت دشمنی کا طعنہ ملتا اور عالمی و علاقائی حالات کے علاوہ زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پھبتی کسی جاتی۔ 
اسی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سیاسی جماعتیں اگست اور ستمبر میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا راگ الاپ کر فوج پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہی تھیں‘ حاصل بزنجو‘ محمود خان اچکزئی اور رضا ربانی کی تقریریں سن کر لگتا تھا کہ جمہوریت پسندوں نے فوجی قیادت کو غریب کی جورو بنا دیا ہے جو سب کی بھابھی ہوتی ہے۔ انہی دنوں خبررساں ایجنسی رائٹر کی ایک سٹوری منظرعام پر آئی جس میں بتایا گیا تھا کہ منتخب وزیراعظم نے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی قبول کرتے ہوئے اقتدار میں کمزور حصہ دار بننا منظور کر لیا ہے اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی جاری نہ رکھنے کا فیصلہ ہو گیا ہے مگر کسی نے مان کر نہ دیا اور اسے مخالفین کی شرارت قرار دیا گیا۔ اب مگر صورتحال یہ ہے کہ ملٹری کورٹس کی تشکیل سے پہلے ہی پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو تسلسل سے کیفر کردار تک پہنچایا جا رہا ہے اور سابق فوجی آمر کو آرٹیکل چھ کے تحت نشانِ عبرت بنانے کے خواہش مند حکمرانوں کے چہرے لٹکے ہوئے ہیں۔ 
حکمران اشرافیہ کی یہی تلّون مزاجی قومی مسائل کی جڑ ہے۔ اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ضرورت اس امر کی تھی کہ جن نقائص اور کمزوریوں کی نشاندہی ہوئی،انہیں دور کیا جاتا اور اس امر کو یقینی بنایا جاتا کہ پولیس‘ انتظامیہ‘ محکمہ جیل خانہ جات اور دیگر اداروں کی غفلت‘ نااہلی اور سہل پسندی کے سائے نوتشکیل ملٹری کورٹس پر پڑیں نہ قانونی موشگافیوں کی آڑ میں اس عارضی انتظام میں رخنہ اندازی ہو، مگر ایک ایک کرکے سبھی ایک بار پھر اپنے آپ کو اصلی تے وڈے جمہوریت پسند ثابت کرنے کی دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ بیس نکاتی ایکشن پلان صرف ملٹری کورٹس کی تشکیل اور دینی مدارس کی جانچ پڑتال تک محدود ہوگیا ہے اور حکومت پر یہ دبائو بڑھ گیا ہے کہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی سرکوبی میں بھی ''اچھے دہشت گردوں‘‘ اور ''برے دہشت گردوں‘‘ کی تخصیص کرے اور جس طرح دہشت گرد، عسکریت پسند، باغی اور علیحدگی پسند شناختی کارڈ چیک کرکے مخالف مسلک، نسل، زبان اور علاقے کے بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اسی طرح حکومت بھی فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیجنے کا فیصلہ آنکھیں بند کرکے ، بلاتمیز و تفریق نہیں اپنے،پرائے کی بنیاد پر کرے تاکہ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے چہیتوں کو کوئی گزند نہ پہنچے اورگلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
فوجی عدالتوں کے حوالے سے ماضی کا تجربہ یہی ہے کہ دلیرانہ فیصلے کرتیں اور فوری انصاف دیتی ہیں۔ قوم اب بھی یہی توقع کررہی ہے۔مگر اب مقدمات کے اندراج، تفتیش اور چالان بھیجنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے جس کے اداروں کی کارکردگی اکرام الحق کیس میں سامنے آچکی ہے کہ ڈیتھ وارنٹ پر عملدرآمد ہوجاتا تو کسی کو پتا بھی نہ چلتا کہ حامد کا رسہ محمود کے گلے میں فٹ ہوگیا۔ اگر خدانخواستہ فوجی عدالتیں بننے کے بعد ہمارے سول تفتیشی ، قانونی اور انتظامی اداروں کی '' مستعدی‘‘ ، چابکدستی‘‘ اور '' احتیاط پسندی‘‘ کا یہی عالم رہا اورسکندر حیات ٹائپ کیس انہیں ریفر کیے گئے تو ان کی حماقتوں ، فروگزاشتوں اور بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی عادت کا خمیازہ بھی فوری انصاف دینے والوں کو بھگتنا پڑے گا۔ خدا بدگمانی سے بچائے۔ شاید فوجی عدالتوں کی تشکیل اور اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے مرحلہ پر قومی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرنے والوں کی منشا بھی یہی ہے۔
2013ء میں ایک بریفنگ کے دوران جب کراچی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کے مطالبہ پر سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے پوچھا گیا کہ قیام امن کے لیے فوج اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتی تو فوجی سپہ سالار نے جواب دیا سوات کے تجربے کے بعد ہمیں سو بار سوچنا پڑتا ہے کیونکہ اس آپریشن کے بعد ہم واپسی چاہتے ہیں مگر سول حکومت اور انتظامیہ کلیئر ہونے والے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے پر آمادہ نہیں۔ اگر ہم کسی اور آپریشن میں الجھے تو سویلین ادارے اپنی ذمہ داری ہمارے سر ڈال کر تماشہ دیکھیں گے اور ہم اپنی توانائی کئی محاذوں پر خرچ کرتے کرتے نڈھال ہوجائیں گے۔ 
ملٹری کورٹس کے حامی اور سول اداروں کی ناقص کارگزاری کے شاکی پاکستانی انہی اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہیں کہ کہیں خدانخواستہ ہمارے حکمران فوج کو دلدل میں پھنسا کر خود خواب خرگوش کے مزے نہ لینے لگیں اقتدار ان کے لیے کانٹوں کا تاج نہیں پھولوں کی سیج ہے ؎
ہر شب‘ شبِ برأت ہے‘ ہر روز‘ روزِ عید

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں