اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

اقبالؒ کے پیر رومیؒ کی شہرہ آفاق کتاب مثنوی کے بارے میں کہا جاتا ہے 'ہست قرآں درزبانِ پہلوی‘۔ اقبال نے پیر رومیؒ کو رفیق و راہ ساز بنانے کی تلقین کی:
گر نیابی صحبت مرد خبیر
از اب و جدّ آنچہ من دارم بگیر
پیر رومی را رفیق و راہ ساز
تا خدا بخشد تُرا سوز و گداز
(اگر تجھے کسی باخبر مرد حق کی صحبت میّسر نہ آئے تو پھر میں نے جو کچھ اپنے آبائو اجداد سے حاصل کیا ہے تو بھی لے لے۔تو پیر رومیؒ کو اپنے راستے کا ساتھی بنا لے تاکہ تجھے خدا سوزوگداز عطا فرمائے۔)
یہی مولانا روم تمثیلی انداز میں کہتے ہیں: ''کسی علاقے میں چوروں کا ایک ٹولہ تھا جس کا ہر فرد اپنے فن میں یکتا اور ہنر میں طاق تھا۔ کوتوال شہر اسے پکڑنے میں ناکام رہا تو سلطان محمود غزنوی نے بھیس بدلا اور گشت پر نکل گیا تاکہ اس عیّار ٹولے کا سراغ لگا سکے۔ حسن اتفاق سے پہلی ہی رات وہ اس گروہ تک جا پہنچا جہاں یہ لوگ نقب زنی کا منصوبہ بنا رہے تھے‘‘۔
''ایک اجنبی کو اپنے پاس دیکھ کر وہ چونکے مگر محمود نے انہیں بتایا کہ میں حالات کا مارا کسی دھندے کی تلاش میں ہوں۔ایک خوبی مجھ میں ایسی ہے کہ جو آپ کے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے لیکن یہ خوبی میں تب بتائوں گا کہ آپ لوگ بھی اپنا کمال ہنر بیان کریں۔لیکن جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ رات باتوں میں ڈھل جائے اور کوتوال شہر جاگ جائے۔ ہر ایک نے باری باری اپنی مہارت بیان کی‘‘۔
ایک بولا: ''مجھ میں یہ خوبی ہے کہ میں مٹی سونگھ کر بتا سکتا ہوں یہاں کیا مدفون ہے؟ سونا چاندی یا درہم و دینار‘‘دوسرے نے بتایا کہ'' کسی اوزار کے بغیر نقب لگا لیتا ہوں اور آواز تک پیدا نہیں ہوتی‘‘۔ تیسرا بولا: '' میں بھونکنے والے کُتے کی بولی سمجھ لیتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے‘‘۔ چوتھے نے بتایا: ''اگر میں کسی کو گھپ اندھیرے میں دیکھ لوں تو دن کے اجالے میں آسانی سے پہچان لیتا ہوں اور کوئی مجھ سے چھپ نہیں سکتا‘‘۔اب محمود کی باری تھی۔ ساتھیوں نے پوچھا: اجنبی تم اپنا کمال بیان کرو۔محمود بولا: ''میرا وصف یہ ہے کہ اگر میں داڑھی ہلا دوں تو چوری ڈکیتی کیا‘ قتل کے مجرم بھی چھوٹ جاتے ہیں‘‘۔سب خوش ہوئے کہ چلو ہمارے ساتھ کوئی ایسا بھی ہے جو پکڑے جانے کی صورت میں ہمیں آسانی سے چھڑا لے گا۔چوروں کی یہ برات اپنے ٹھکانے سے نکلی‘ایک گھر کے سامنے پہنچی اور مٹی سونگھ کر خزانے کا کھوج لگانے والے ماہر سے پوچھا‘ بتائو یہاں کچھ مال و اسباب ہے یا نہیں۔اس نے بتایا کہ یہ ایک مالدار بیوہ کا گھر ہے اور اس کے فلاں کونے میں خزینہ دفن ہے۔ہاتھ سے نقب لگانے کے ماہر نے نقب لگا لی تو کہیں سے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ساتھیوں نے کتے کی آواز پہنچاننے کے ماہر سے پوچھا: ''کتا کیا بولا؟‘‘ اس نے تھوڑی دیر کتے کی آواز سنی‘ غور کیا اور کہا: ''کتا ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ ڈاکہ ڈالتے ہوئے سوچ لو کہ وقت کا بادشاہ تمہارے درمیان موجود ہے۔ساتھیوں نے مذاق اڑایا کہ کیا بکتے ہو۔بادشاہ کا اس وقت یہاں کیا کام اور ہم کنگلوں میں سے کون بادشاہ ہو سکتا ہے؟وغیرہ وغیرہ ۔ قصّہ مختصر واردات کے بعد سب نے اپنا اپنا حصہ سمیٹا اوریہ جا وہ جا‘‘۔
''دوسرے دن بادشاہ نے کارندے بھیج کر سب کو گرفتار کرا لیا اور دربار میں پیش کرنے کو کہا۔ جب چار وں نقب زن دربار میں پیش ہو ئے تو رات کو ملنے والے شخص کی پہچان کا دعویٰ کرنے والا ساتھی بولا: ''تخت نشین رات ہمارے ساتھ شریک جرم تھا اور جس ساتھی نے کُتے کی آواز سن کر ہمیں خبردار کیا تھا وہ درست تھا‘‘۔بادشاہ نے مجرموں سے استفسار کیا‘ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔چاروں ایک ساتھ بولے: ''بادشاہ سلامت! رات ہم نے اپنے اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا جس کی ہمیں داد ملنی چاہیے کہ کہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی‘ واردات کامیاب رہی اور ہر ایک نے اپنے حصہ کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیا‘ اب آپ کی باری ہے‘ آپ داڑھی ہلا دیں تو سب چھوٹ جائیں گے‘‘۔ مگر سلطان محمود نے داڑھی ہلانے کے بجائے سر نفی میں ہلا کر انہیں جیل بھیج دیا‘‘۔
جامیؒ نے مولانا روم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ؎
من چہ گویم وصف ایں عالیجناب
نیست پیمبر ولے دارد کتاب
واقعی کتاب اور صاحبِ کتاب دونوں لاجواب۔ 
اس حکایت میں صاحب کتاب‘ پیر رومیؒ نے سبق یہ دیا ہے کہ مجرم کسی بھی شعبے کے ہوں باتدبیر و باکمال ہوتے ہیں‘ اپنے فن میں طاق۔ مگر ان کا سراغ اس وقت مل سکتا ہے اور انہیں کیفر کردار تک تب پہنچایا جا سکتا ہے جب کوتوال شہر اور حاکم وقت پل پل کی خبر رکھے‘ ان کے ساتھ ملا نہ ہو‘ ان سے کوئی رو رعایت نہ کرے اور ان کی چرب زبانی‘ چاپلوسی اور فنی مہارت سے متاثر ہونے کے بجائے جرم کے مطابق سزا دینے کا روادار ہو۔
پاکستان میں نقب زنوں‘ ٹھگوں‘ لٹیروں اور ڈاکوئوں کی کمی نہیں‘یہاں کا ہر مجرم غزنوی دور کے نقب زنوں سے زیادہ ماہر ہے۔ یہ کرسی سونگھ کر پتہ چلا لیتا ہے کہ اس کے پائے میں کتنا خزانہ دبا ہے۔ ہاتھ اس قدر پختہ کہ قومی خزانے میں نقب لگاتے وقت کسی کو پتہ چلے نہ آواز آئے ۔ عدالت ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی شور مچائے بھی تو یہ اس بنا پر نہیں گھبراتے کہ حاکم وقت ان کے ساتھ ہے‘ اگر پکڑے بھی گئے تو اونچی کرسی پر بیٹھا شخص داڑھی ہلا کر انہیں بچا لے گا‘ اس لیے کسی کو فکر نہ پریشانی۔ ''وائٹ کالر ‘‘ جرم کا سراغ لگانا مشکل ہے‘ ناممکن نہیں‘ ہر جرم کا کلر ''بلیک‘‘ ہی ہوتا ہے؛ تاہم سیاہ کو سفید کرنے کا اختیار ایسے مجرموں پر آنچ نہیں آنے دیتا۔
چنگیر خان نے ایک بار ساتھیوں سے پوچھا: ''کیا میرا نام تاریخ میں زندہ رہے گا؟‘‘ سب خاموش رہے‘ ایک بندہ گستاخ مگر بول پڑا: ''آپ کسی کو زندہ چھوڑیں گے تو کوئی آپ کو یاد کرے گا‘‘۔ ہمار ے حکمرانوں کو خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین‘ شہرت(پاپولیریٹی) کا متعدی مرض سب کو لاحق ہے۔ یہ ہرگز نہیں سوچتے کہ شہرت اور عزت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شہرت تو کسی ظالم اور قاتل کو بھی مل سکتی ہے مگر عزت صرف رحم دل اور عادل کو ملتی ہے۔ آپ عوام کو کوئی سہولت دیں گے تو عزت پائیں گے اور کوئی آپ کو یاد بھی رکھے گا۔ورنہ ''مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے‘‘۔
پٹرول کے بحران پر طویل اجلاس کرنے اور کمیٹیاں بنا کر ذمہ داروں کا کھوج لگانے کے بجائے وزیر اعظم اگر اپنے طرز حکمرانی پر غور فرماتے تو بحران کے اسباب و عوامل کا بآسانی پتہ چل جاتا۔ جہاں کسی باز پرس‘مواخذہ و احتساب کارواج نہ ہو اوراِدھر اُدھر کی کہانیاں سنا کر صاف بچ نکلنے کی رسم زندہ و پائندہ ہو‘ وہاں کسی واردات کا سراغ مل بھی بجائے تو سزا کا امکان کہاں؟ جب وزیر اعظم کو اتنے بڑے بحران کا علم پانچ چھ روز بعد ہوا تو ذمہ داروں کا تعین دو چار دن میں کیسے ممکن ہے‘ دو چار ماہ کیا شائد دو چار سال میں بھی نہیں۔
شام کے سفر میں حضرت عمرؓ گائوں میں رکے اور ایک بیوہ سے پوچھا: بی بی آپ کو معلوم ہے اس وقت عمر بن الخطاب ؓ کہاں ہے؟ بیوہ بے زاری سے بولی مجھے کیا معلوم؟ سنا ہے شام سے چل پڑا ہے۔ آپؓ نے کہا: امّاں امیر المومنین سے اتنی بے رخی اور بے خبری۔بڑھیا بولی: امیر المومنین کو ہماری خبر نہیں تو ہمیں اس کے حالات سے کیا غرض؟ آپؓ نے اپنے رفقا کو اس کی خبر گیری اور ضروریات پوری کرنے کی ہدایت کی تو بولی: '' کاش عمرؓ کی جگہ تم امیر المومنین ہوتے‘‘۔ 
اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ فرمایا کرتے: ''خلافت کا مفہوم مجھے شام کی بڑھیا نے سمجھایا کہ جو سربراہِ حکومت اپنے شہریوں کے حالات سے بے خبر ہے‘ اسے حکمرانی کا حق حاصل نہیں‘‘۔ وقت شہادت آیا تو عمرؓ کے رفقا نے اصرار کیا کہ اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓؓبن عمرؓؓ کو جانشین نامزد کر دیں مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہا: ''اگر خلافت نعمت تھی تو عمرؓاور اس کے خاندان نے وافر مقدار میں حصہ پا لیا‘ اگر آزمائش ہے تو میں اپنی اولاد کو اس میں کیوں ڈالوں؟‘‘ مگر یہ گزرے وقتوں کے قصّے ہیں۔ 
اب حکمرانی غلبہ‘ رعب و دبدبہ ‘ نمود و نمائش‘ اختیارات و وسائل پر قبضہ‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی‘ عیش و عشرت اور شاہانہ بودوباش کا نام ہے اور ملک کے باشندے شہری نہیں رعایا ہیں۔ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ہو‘ پٹرول کی قلت یا مہنگائی و بے روزگاری کا طوفانِ بلا خیز‘ حکمرانوں کی بلا سے۔وہ کسی سے کیوں پوچھیں اور پوچھنے پر اگر اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی تو ان سے بازپرس کی تاب و تواں کس کو۔ ہر ایک کو سزا ملنے لگے تو ایک ایک کر کے سارے دوست احباب فارغ۔ یہ رسک بھلا کون لے۔ کمالِ فن کی داد ہی کافی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں