لہو پکارے گا آستیں کا

کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا
یک نہ شد‘ دو شد میاں نواز شریف ابھی عمران خان کے جھنجھٹ سے آزاد نہیں ہو پائے کہ کراچی اُن کے گلے کی پھانس بن گیا ہے۔ سانحہ بلدیہ ٹائون اور سانحہ بارہ مئی کے مبینہ ملزموں کے اعترافی بیانات سے ایک نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا جو بالآخر وفاقی حکومت کے سر کا درد بنے گا‘ بنے گا کیا بن چکا ہے۔ ابھی یہ درد ہے‘ لادوا نہیں۔
امیر تیمور نے اپنی سوانح عمری میں طاقت اور کمزوری کا فلسفہ یہ بیان کیا ہے کہ ''میری کمزوری میرے دشمن کی طاقت ہے اور اس کی کمزوری میری طاقت ہے۔ اس چیز کا ادراک کامیابی کا زینہ ہے‘‘ یہی چیلنج میا ں نواز شریف اور عمران خان کو درپیش ہے۔
سانحہ بلدیہ ٹائون اور سانحہ 12 مئی میں ملوث ملزموں کے اعترافی بیانات پر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے موقف میں وزن ہے اور ایم کیو ایم کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ سو فیصد درست ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ مگر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور سانحہ بارہ مئی کے ملزم رفیق راجپوت کی گرفتاری سندھ پولیس کا کارنامہ ہے نہ بظاہر اس میں سندھ حکومت ملوث نظر آتی ہے تو پھر کیوں نہ دونوں واقعات کی تفتیش ایک آزاد‘ غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن کرے جسے ملٹری انٹیلی جنس کا تعاون حاصل ہو۔ الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کو بھی ملٹری انٹیلی جنس کی تفتیش پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر یہ وفاقی حکومت کے سوا کس کے کرنے کا کام ہے جس نے دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم کا خاتمہ اپنی اولین ترجیح قرار دے رکھا ہے، کراچی آپریشن اس کے احکامات پر شروع ہو اور آپریشن ضرب عضب کی اونرشپ اس نے قبول کی۔
عمران خان کی طرف سے احتجاجی تحریک کی معطلی‘ دھرنے کے اختتام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے حکومت کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کے بعد بظاہر یوں نظر آتا تھا کہ میاں نواز شریف اگست 2014ء سے جاری بحران سے کامیاب و کامران نکل آئے ہیں اور اب وہ حکومتی گاڑی کو بگٹٹ دوڑاتے 2018ء کے سنگ میل تک پہنچ جائیں گے مگر صرف ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں ان کی توجہ کا مرکز مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات بن گئے ہیں۔ سارا جوڑ توڑ اس حوالے سے ہو رہا ہے مگر ان کے مرئی اور غیر مرئی مخالفین نے نئے محاذ کھولنے شروع کر دیئے ہیں۔ ایک بار پھر حکومتی حلیف ایک دوسرے سے برگشتہ نظر آتے ہیں جبکہ مخالفین نئی صف بندی میں مصروف ہیں۔
سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی عمران خان سے ملاقات اور چودھری سرور کے ایک قریبی ساتھی چودھری سلطان محمود کی تحریک انصاف میں شمولیت معمول کی سیاسی سرگرمی نہیں اور کراچی آپریشن میں تیزی کو بھی محض حسن اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چودھری محمد سرور کی ذاتی صلاحیتوں کا اعتراف حکمران خاندان کو ہے؛ تبھی 2013ء کے انتخابات سے قبل بہتر امیدواروں کے چنائو کے سلسلے میں ان کا تعاون حاصل کیا گیا۔ اور موجودہ حکمران جماعت نے پنجاب میں ان کی جوڑ توڑ کی صلاحیت اور شخصی و خاندانی راہ و رسم سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اگر شاہ محمود قریشی یا کوئی اور رکاوٹ نہ بنا تو چودھری سرور اندرون و بیرون ملک تعلقات‘ پنجاب کے سیاسی دھڑوں اور برادریوں سے روابط اور حکمران خاندان کے سیاسی دائو و پیچ سے واقفیت کو بروئے کار لا کرتحریک انصاف کے راستے کی وہ رکاوٹیں دور کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کا سفر قدرے طویل ہوا۔ 
چودھری محمد سرور جیسا جہاندیدہ، سرد و گرم چشیدہ سیاستدان اگر تحریک انصاف کا رخ کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کی شخصی کشش کم ہوئی ہے نہ فیصلہ ساز حلقوں میں ان کی قبولیت کا دروازہ بند ہوا ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور اس کے حلیفوں کے بقول عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کسی غیر مرئی قوت کے فرستادہ تھے اور پارلیمنٹ نے متحد ہو کر ''لندن پلان‘‘ کو ناکامی سے دوچار کیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ غیر مرئی قوت عمران خان‘ کی مقروض ہے اور چودھری محمد سرور قرض وصول کرنے میں عمران خان کی مدد کر سکتے ہیں۔
کراچی میں سیاسی ہلچل' ایم کیو ایم پی پی رابطوں‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کی سرگرمیوں اور عمران خان کی پے در پے پریس کانفرنسوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) سے وابستہ بعض بزرگوں کی لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں ملاقاتوں کو اگر سازشی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں نظر آتی ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ موجودہ حکمران آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کو تختہ دار پر لٹکانے کے خواہش مند تھے مگر آئین میں اکیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد پرویز مشرف پر حملہ کرنیوالوں کا حساب چکا دیا گیا جبکہ پرویز مشرف کے شدید مخالفین ایک پریشانی سے نکلتے ہیں تو انہیں دوسری پریشانی آن گھیرتی ہے اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری کے بعض قریبی ساتھی پرویز مشرف کے در دولت پر پورے سیاسی خشوع و خضوع سے حاضری دیتے ہیں جیسے ع
''انہیں‘‘ یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا
پچھلی بار سیاسی بحران نے جنم لیا تو حکمرانوں کے پاس پارلیمنٹ کی بقا اور جمہوریت کے تسلسل کے نعرے کی صورت میں تُّرپ کا پتہ تھا اور ایک سابق آئی ایس آئی چیف کی صورت میں ولن۔ مگر اب حکمرانوں کا اثاثہ صرف ڈیڑھ پونے دو سالہ ناقابل رشک کارگزاری ہے اور مقتدر حلقوں کے علاوہ اپنے حلیفوںکو کرائی گئی یقین دہانیاں۔ اس عرصہ میں حکومت نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی‘ نہ کابینہ میں ردوبدل کیا اور نہ ہی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور طرز حکمرانی میں بہتری کے وعدے پورے کیے۔ الٹا یہ تاثر پھیلا کہ پٹرول بحران سے جیبیں بھرنے والوں کی پشت پناہی ہوئی۔ یہی حال مشکوک انرجی معاہدوں کا ہے جس میں اچانک سیف الرحمان ٹپک پڑے ہیں۔ اسی سیف الرحمان کے بارے میں میاں نواز شریف نے ایک ممتاز صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ 1999ء کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ان کی سیاسی انتقامی کارروائیوں کا اہم کردار تھا۔
سینیٹ کے انتخابات ہمیشہ میاں نواز شریف کی حکومت پر بھاری پڑے ہیں۔ میاں صاحب اس کریڈٹ کے حق دار ہیں کہ وہ حالات کو کھینچ کھانچ کر فروری کے وسط تک لے آئے ہیں اور سینیٹ کے انتخابات اب کچھ زیادہ دور نہیں۔ اگرچہ چائے کی پیالی لبوں سے کافی دور ہے اور چُسکی لینے کا مرحلہ مارچ میں آئے گا مگر راوی بظاہر چین لکھتا ہے؛ تاہم کرکٹ کی طرح پاکستان میں سیاست بائی چانس ہے اور ہر بار مارشل لاء کا ڈراوا دے کر حکومت کو بچانے کی ترکیب کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کا ادراک بھی سب کو ہے کہ اس بسیار خور جمہوریت کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پائیدار کامرانی سے ہمکنار ہو سکتی ہے‘ نہ بلا امتیاز و تفریق احتساب کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے اور نہ نسلی‘ لسانی‘ فرقہ وارانہ اور علاقائی بنیادوں پر قتل و غارت‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کا خاتمہ ممکن ہے۔ قومی معیشت کو قرضوں کی لت سے بچانے کے لیے ٹیکسوں کی وصولی‘ کرپشن اور لوٹ مار کے خاتمہ اور دوست نوازی اور اقربا پروری کے موجودہ کلچر کی روک تھام مشکل بلکہ ناممکن۔
سانحہ بلدیہ ٹائون اور سانحہ بارہ مئی کے ملزموں کی طرف سے اعترافی بیانات ایم کیو ایم کے لیے پریشان کن ہیں‘ جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کر کے ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ وہ انتخابی دھاندلی کا سراغ لگانے کے لیے جوڈیشل کمیشن نہیں بنا سکی مگر یہ بلدیہ ٹائون فیکٹری کے 290 انسانوں اور ایک بلند آہنگ وکلا برادری کے درجنوں ارکان کی بے جرم ہلاکت کا معاملہ ہے۔ 'جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔ آرمی پبلک سکول کی طرح سنگین اور روح فرسا واقعات‘ جو برسوں سے اپنے قاتلوں کا تعاقب کر رہے ہیں مگر ہر بار سیاسی مصلحتیں اور حکومتی کمزوریاں آڑے آ جاتی ہیں۔
اب چونکہ جوڈیشل کمشن کا مطالبہ ایم کیو ایم نے کیا ہے جسے ٹالنا وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کے لیے ممکن ہے، نہ ایم کیو ایم اتنا بڑا الزام اپنے سر لے سکتی ہے۔ حکمرانوں کی، خان سے جان چھڑانے میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم نے مدد کی، اب دیکھیں حکمران کون سا گُر آزماتے ہیں اور کس طرح بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالتے ہیں۔ خورشید شاہ نے سانحہ بلدیہ ٹائون کا مقدمہ فوجی عدالت میں بھیجنے کی بات کر کے میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور رحمان ملک کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ۔ ؎
غرض دوگونہ عذاب است جانِ مجنوں را
بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقت لیلیٰ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں