ایک تیر سے دو شکار

''مقبولیت بے معنی چیز ہے اور بالکل ناپائیدار۔ انسان کا مؤقف مضبوط اور مقصد سے لگائو شک و شبہ سے بالاتر ہونا چاہیے‘‘۔ پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان کے ظہرانے میں یہ بات عمران خان نے کھانے کے دوران ایاز خان کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ ''شادی کے بعد آپ کی Following اور Rating متاثر ہوئی یا نہیں؟‘‘
عمران خان نے قذافی سٹیڈیم میں ہونے والے اس کرکٹ میچ کا واقعہ سنایا جب ''عمران خان زندہ باد‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے‘ ''شیر لاہور‘‘ کا خطاب مل رہا تھا مگر جونہی میں آئوٹ ہوا وہی لوگ دشنام طرازی پر اتر آئے‘ ساری مقبولیت ہوا ہو گئی۔ شادی کے بعد عمران خان پہلی بار لاہور آئے تو چیدہ چیدہ اخبار نویسوں کو ملنا نہ بھولے‘ یہ ان کے نئے ترجمان عمر سرفراز چیمہ اور سابق گورنر چودھری محمد سرور کی تحریک انصاف کی طرف سے رونمائی بھی تھی جبکہ مخدوم شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین‘ شفقت محمود‘ عارف علوی‘ اسد عمر اورمیاںاسلم اقبال بھی وہاں موجود تھے۔
آغاز گفتگو سینیٹ کے انتخابات سے ہوا‘ انتخابات کے دوران ارکان اسمبلی پر ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی کے جو الزامات لگے‘ عوام کے منتخب نمائندوں کا جس طرح میڈیا ٹرائل ہوا اور جس طرح ہر جگہ موضوع سخن وفاداریوں کی خرید و فروخت رہی‘ اس سے موجودہ انتخابی نظام کے بارے میں عمران خان کے مؤقف کو تقویت ملی اور اس کے پیروکاروں کے حوصلے بلند ہوئے کہ مئی 2013ء سے دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلیوںکے بارے میں وہ جو کہہ رہے تھے سو فیصد نہیں‘ ایک سو دس فیصد درست ثابت ہوا۔ خیبر پختونخوا‘ سندھ‘ پنجاب اور بلوچستان میں جس کو موقع ملا اس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے‘ بلکہ خوب اشنان کیا۔
جوڈیشل کمشن کی تشکیل اور حلقہ 122 کا نادرا آڈٹ اب بھی عمران خان کی ترجیحات میں اولیت رکھتا ہے۔ چودھری غلام حسین نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا: ''بات کو ادھر اُدھر گھمانے کے بجائے آپ سیدھے سبھائو کیوں نہیں کہتے کہ نئے الیکشن کرائو‘‘۔ ''میرا مطالبہ فی الحال نئے الیکشن کا نہیں‘ اگر نادرا کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین‘ حامد خان‘ حامد زمان اور میرے حلقے میں بڑے پیمانے پر بوگس ووٹوں کا ثبوت ملتا ہے تو پھر ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر 1977ء میں دھاندلی کے مرتکب سزایاب ہوتے تو دوبارہ کسی کو یہ جرات نہ ہوتی‘ سینیٹ کے انتخابات میں ارکان اسمبلی کی منڈی لگتی نہ مالدار لوگ بریف کیس لے کر ارکان اسمبلی کا مول تول کرتے‘‘۔
سوال یہ تھا کہ اگر حکومت جوڈیشل کمشن نہیں بناتی‘ حلقہ 122 کے بارے میں ٹربیونل کے فیصلے پر عمل نہیں ہوتا اور حکومتی رویے میں تبدیلی نہیں آتی‘ تو تحریک انصاف کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ جواب دو ٹوک تھا: ''ہم سڑکوں پر ہوں گے کیونکہ اگر ملک میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار نہ ہوئی تو قوم کو اچھی حکمرانی ملے گی نہ ملک میں پائیدار اور عوام دوست جمہوریت کی راہ ہموار ہو گی۔ نیشنل ایکشن پلان میں طے ہوا تھا کہ ملک میں ہتھیار صرف فوج اور پولیس کے پاس رہیں گے‘ تمام عسکری دھڑے ختم کر دیے جائیں گے مگر حکومت اب سیاسی مصلحتوں کے تحت پیچھے ہٹ رہی ہے اور عسکری گروہ بدستور سرگرم عمل ہیں‘‘۔
عمران خان سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق‘ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہارس ٹریڈنگ کے سامنے بند اس اکل کھرے سیاستدان نے باندھا‘ جس کے بارے میں مخالفین کا خیال ہے کہ دھرنے کے بعد اس کی پارٹی پر گرفت کمزور پڑی ہے اور پرویز خٹک جیسے سینئر رہنمائوں سے اپنے فیصلے منوانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپنے پارلیمانی تناسب سے زیادہ امیدوار کھڑے کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عمار خان و وقار خان کی سوچ یہی تھی کہ وہ بوریوں کے منہ کھول کر تحریک انصاف کے ان ارکان کی وفاداریاں خرید لیں گے جو پہلی بار منتخب ہوئے اور ابھی تک ترقیاتی فنڈز اور دیگر مراعات سے محروم ہیں۔
وفاداریاں خریدنے کا کاروبار اس قدر منظم اور مؤثر انداز میں شروع ہوا کہ میاں نواز شریف تک گھبرا گئے جو وفاقی حکومت کے وسائل‘ ملک کے بڑے صنعت کاروں کی مالی کمک اور جوڑ توڑ کے تجربے سے مالامال تھے، حتیٰ کہ انہوں نے آئین میں 22ویں ترمیم کے لیے اے پی سی بلا لی جو سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے اونٹ کا ہونٹ گرنے کی آس میں ناکام بنا دی۔ میاں صاحب کے خدشات درست تھے‘ انہیں بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنے درجنوں ارکان کی بے وفائی کا صدمہ سہنا پڑا؛ تاہم عمران خان ڈٹ گئے اور انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کی دھمکی دے کر اپنے متذبذب ارکان کو استقامت پر مجبور کر دیا۔
اگر عمران خان شور نہ مچاتے، میڈیا ان کے مؤقف کی تائید نہ کرتا‘ اس بھائو تائو کو جمہوریت کا حسن قرار دے کر ''گھوڑوں‘‘ کی تعریف و تحسین کی جاتی جو ہمارے بعض دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی عادت ہے اور تحریک انصاف کے کارکن آزاد امیدوار وقار خان کے کاغذات نامزدگی پر دستخط کرنے والے ایم پی اے جاوید نسیم کے گھر کے باہر مظاہرہ نہ کرتے تو ہمیشہ دھن دولت کے زور پر ایوان بالا میں پہنچنے والے خاندان کے دو افراد نو منتخب سینیٹ کی زینت ہوتے اور مسلم لیگ (ن) کے جنرل صلاح الدین ترمذی کے علاوہ جاوید عباسی، یعقوب ناصر کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ؎
آ عندلیب کریں مل کے آہ و زاریاں 
تو ہائے گُل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب سیاسی جماعتوں کی بصیرت و دانش کا امتحان ہے۔ فاٹا کے حوالے سے حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کر کے جو جھک ماری، اس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہوا۔ فاٹا ارکان سے سودے بازی کے لیے درپردہ کوششیں جاری ہیں‘ اگر چھ ارکان کا گروپ حکومت کو اکثریت دلانے کی یقین دہانی کرا دے، حکومت کے نامزد چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ ہو تو صدارتی آرڈیننس فوراً واپس ہو سکتا ہے اور حکومت اپنی اصول پسندی کے علاوہ فتح و نصرت کا ڈنکا بجا سکتی ہے۔ مگر تاحال؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ارکان فاٹا نے ہار نہیں مانی‘ اس لیے چیئرمین سینیٹ کے طور پر حاصل بزنجو کا پتہ پھینکا گیا ہے۔ بلوچستان سے تعلق، نواز شریف سے دیرینہ ربط و ضبط اور چھوٹے صوبے کی نمائندگی بزنجو صاحب کا اور چھور ہے‘ مگر یہ ہاتھی کے دانت ہیں، کھانے کے اور، دکھانے کے اور۔ کون نہیں جانتا کہ حاصل بزنجو کی نامزدگی حکومت کی مجبوری ہے۔ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی تدبیر۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک کی جگہ ثناء اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ بنانے کا کوئی دوسرا قابل عمل طریقہ نہیں تاکہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن انتشار سے بچ جائے‘ اتحادی ناراض نہ ہوں اور اپنی مرضی کا، جی ہاں میاں صاحب کا من پسند اور وفادار چیئرمین سینیٹ بھی منتخب کرا لیا جائے۔ چھوٹے صوبے اتنا ہی عزیز ہیں تو سندھ سے رضا ربانی میں کیا حرج ہے؟ جمہوریت پسند، دیانتدار، باکردار اور سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کا نمائندہ، آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔
سینئر اینکر عمران خان کو شرارت سوجھی، اس نے عمران خان سے کہا: ''میرے پروگرام میں چار پانچ سینئر تجزیہ کاروں اور صحافیوں کی رائے تھی کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کے ارکان اسمبلی وفاداریاں تبدیل کریں گے اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اسمبلی نہیں توڑیں گے‘ عمران خان کو یہاں بھی ہزیمت ہو گی مگر ارشاد عارف واحد شخص تھے جن کی رائے تھی کہ تحریک انصاف کے ارکان ثابت قدم رہیں گے‘ لیکن اگر ایک بھی رکن نے کسی آزاد یا پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا تو عمران خان اسمبلی توڑ دیں گے۔ ہم آپس میں اس کا مذاق اڑاتے رہے مگر بعدازاں نتیجہ ہماری توقع کے برعکس نکلا ‘‘۔ عمران خان بولے: ''ان کا مبنی بر اطلاع اندازہ درست تھا‘ میں یہی فیصلہ کر کے پشاور گیا تھا‘‘ میں نے عمران اوّل اور عمران ثانی کا شکریہ ادا کیا۔
گیند اب حکومت کی کورٹ میں ہے۔ سینیٹ میں اکثریت؟ پیپلز پارٹی سے مفاہمت؟ اور دھن، دھونس، دھاندلی پر مبنی موجودہ فرسودہ اور بے ہودہ نظام کا تسلسل؟ یا دنیا بھر میں رائج حقیقی جمہوری نظام کی بحالی؟ جس میں ووٹ چرانا، بیچنا، خریدنا اور گول مال جرم ہے اور مجرم کی سزا کم از کم سیاست بدری۔ سینیٹ انتخابات نے ہماری مقبول‘ تجربہ کار اور ہر فن مولا قیادت کا صرف سیاسی نہیں اخلاقی دیوالیہ پن ظاہر کیا۔ کیا ہم اس سیاسی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ میاں شہباز شریف عرصہ دراز سے پکار رہے ہیں؎
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے
سیاست اور انتخابات کو تماشہ اور ارکان اسمبلی کو جنس بازار بنانے والے اس نظام زر کو برباد کرنے کی جدوجہد کبھی کامیاب نہیں ہو گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں