ایویں مار نہ شاکر قسطیں وچ

سچی بات ہے عزیز آباد میں رینجرز کے چھاپے پر سیاسی جماعتوں کے کمزور اور حکومت سندھ کے ڈھلمل یقین ردّعمل نے موجودہ جمہوری نظام کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کیا ایک سال سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن بھی بے مقصد‘ بے نتیجہ اور ناخوشگوار انجام سے دوچار ہو گا؟ یا آرمی چیف جنرل راحیل شریف ‘آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر اور ڈی جی رینجرز جنرل بلال حسین کا عزم مصمم اور بے عیب منصوبہ یقینی کامیابی کی راہ ہموار کر سکتا ہے؟
گزشتہ شب ٹی وی انٹرویو میں نبیل گبول نے ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات کی طرف اشارے کئے مگر اس وقت زیر بحث ایشو تو ایم کیو ایم ہے نہ اس کے اندرونی اختلافات‘ بلکہ سزا یافتہ مجرموں کی عزیز آباد سے گرفتاری ہے‘ جس کا کوئی جواز الطاف بھائی سمیت ایم کیو ایم کی جملہ قیادت پیش نہیں کر سکی۔ عامر خان کی موقع واردات پر موجودگی نے شکوک و شبہات کو جنم دیا اور رینجرز کا موقف مضبوط کیا۔ کراچی اور حیدر آباد کا عمومی ردعمل ماضی سے خاصا مختلف رہا اور ایم کیو ایم نے بے جا محاذ آرائی سے گریز کیا۔جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان گرفتاریوں کے بعد کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کاایک بھی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ہے نا حیرت کی بات۔
آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے نیا موڑ لیا اور قوم ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد اور یکسو نظر آئی‘ نیشنل ایکشن پلان کی تیاری اور آئین میں اکیسویں ترمیم اسی اتفاق رائے کا نتیجہ تھی مگر پھر سیاسی قیادت اپنے سابقہ معمول کی طرف لوٹ گئی‘ جوڑ توڑ‘ لوٹ کھسوٹ‘ اقربا پروری اور کھینچا تانی۔ جس دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف وزیر اعظم سے ملتے یا لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی میںکسی مشترکہ اجلاس کا حصہ بنتے ہیں کوئی مضبوط فیصلہ آ جاتا ہے ورنہ اس محاذ پر بالعموم خاموشی ہی چھائی رہتی ہے۔
رینجرز نے حالیہ ٹارگٹڈ آپریشن وفاقی اور صوبائی حکومت کی ہدایت پر شروع کیا‘ وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو آپریشن کا کپتان مقرر کیا تو ہر محب وطن کا ماتھا ٹھنکا کہ شاہ جی یہ بھاری پتھر کیسے اٹھائیں گے۔
عمر ساری تو کٹی عشق بُتاں میں مومن
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
جس آپریشن کا ٹارگٹ محض بیگانے ہی نہیں اپنے بھی ہوں گے اور مجرموں کا کُھرا صرف کٹی پہاڑی‘ سہراب گوٹھ اور عزیز آباد نہیں لیاری تک بھی جائے گا، جہاں ذوالفقار مرزا کے بقول بھتہ خوروں‘ قاتلوں اور اغوا کاروں کو اسلحہ اور مالی وسائل بعض حکومتی اکابر نے فراہم کئے، اس کی کپتانی ایک بوڑھے جیالے کے سپرد جس کا ؎ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ عُزیر بلوچ اگر کبھی دبئی بدر ہوئے اور زندہ سلامت وطن واپس آ گئے تو راز درون خانہ بیان کریں گے مگر میاں صاحب کو خربوزوں کی رکھوالی پر گیدڑ بٹھانے کا شوق ہے جو انہوں نے پورا کیا۔
حکومت اور اپیکس کمیٹی کے ایجنڈے کے تحت رینجرز نے تو بڑے آپریشن کا آغاز کر دیا ہے‘ اندازہ یا خوش گمانی یہی ہے کہ ایک ایک کر کے تمام نو گو ایریاز کلیر ہوں گے ہر طرح کے دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر‘ اغوا کار اور بھتہ خور قانون کے جال میں پھنس کر کسی قسم کی رو رعایت کے بغیر انجام سے دوچار ہوں گے‘ ان کا تعلق کسی مذہبی گروپ سے ہو‘ نسلی و لسانی دھڑے سے یا کسی سیاسی گروہ سے۔ مگر خدشہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر سیاسی مصلحتوں کے تحت مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس قومی اتفاق رائے کے بخیے ادھیڑنے اور ایک ایک کر کے نیشنل ایکشن پلان سے پیچھے ہٹنے لگیں تو انجام کار کیا ہو گا؟
باخبر حلقے چھاپے پر آصف علی زرداری کے تحفظات کی خبر سنا رہے ہیں۔ وہ سندھ میں گورنر راج کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس تاثر کو تقویت اس لیے ملتی ہے کہ تاحال حکمران پیپلز پارٹی کے کسی رہنما نے خم ٹھونک کر رینجرز کے اقدام کی حمایت نہیں کی۔ ایکشن کی مخالفت میں رضا ربانی اور رحمان ملک ضرور بولے۔ عمران خان‘ سندھ کے قوم پرستوں اور نثار علی خاں نے البتہ لگی لپٹی رکھے بغیر اقدام کو سراہا۔ رینجرز سانحہ بلدیہ ٹائون میں ملوث دو مرکزی ملزموں عمیر صدیقی اور عبدالرحمان بھولا کی گرفتاری کا دعویٰ کر رہی ہے جنہیں گزشتہ روز عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ لیا گیا، جس سے کراچی کے عوام کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ولی بابر سے لے کر سانحہ بلدیہ ٹائون کے بے گناہ مقتولوں تک ہر ایک کے قاتل بالآخر قانون کی گرفت میں آ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب سب اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
شاکر شجاعبادی کو اللہ تعالیٰ صحت و تندرستی عطا کرے‘ وہ موذی مرض سے نجات پا کر پھر اپنے دلگداز اور پُرسوز لہجے میں جرأت مندانہ شاعری کی جوت جگائیں‘ کرب کی کس کیفیت میں انہوں نے کہا تھا؎
جیویں میکوں آن روایا ای
ایویں میں وانگوں پل پل روسیں
ہک واری رو کے تھک پوسیں
بیا یا آسی تو وَل روسیں
کوئی ڈکھڑا آن ونڈیسیانہ
توں لا کندھیاں کوں گل روسیں
بس فرق میعاد دا ہے شاکر
میں اج رُناں توں کل روسیں
ولی بابر‘ سانحہ بلدیہ ٹائون کے مقتولوں اور گزشتہ پچیس سال کے دوران دہشت گردوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارنے والوں کے ورثا عرصہ دراز سے رو رہے تھے ‘اب قاتلوں‘ ان کے شریک جرم اور سرپرستوں کی باری ہے ؎
بس فرق میعاد دا ہے شاکر
میں اج رناں تو کل روسیں
ہر محب وطن شہری کی زبان پر سوال یہ ہے کہ اس ٹارگٹڈ آپریشن کی پشت پناہی کرنے کے بجائے سیاسی قیادت نے مصلحتوں کی چادر اوڑھ لی اور وہ پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہو گئے ‘انسانی حقوق کے چمپئن میدان میں کود پڑے اور کراچی کی روشنیاں لوٹانے کا عزم کرنے والوں کو تنہائی اور بے بسی کا احساس ہوا تو ماضی کی طرح یہ آپریشن بیانات‘ جوابی بیانات‘ الزامات‘ جوابی الزامات کی دھول میں گم ہو جائے گا؟ یا عوام یقین کریں کہ اب کی بار کسی سے کوئی رو رعایت نہیں ہو گی۔ ظالموں کو جیسی کرنی ویسی بھرنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہی قتل بھی کرے وہی لے ثواب الٹا کا دور ختم کراچی پر خوف کے سائے دوبارہ کبھی منڈلائیں گے نہیں؟
امریکی تھنک ٹینک یونائٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کا تجزیہ یہ ہے کہ اگر خون ریزی بند نہ ہوئی اور سیاستدانوں کا عزم کمزور پڑا تو فوج اور سپریم کورٹ کی مداخلت خارج از امکان نہیں۔ ایک ماہ قبل معروف تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے توانائی بحران حل نہ ہونے پر پاکستان میں فوجی مداخلت کے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی کیونکہ ان کے خیال میں بجلی‘ پٹرول اور گیس کا بحران پاکستان میں شدید بے چینی کو جنم دے گا اور شریف حکومت بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو عمران خان جیسے مخالفین احتجاجی تحریک کے ذریعے جو افراتفری پیدا کریں گے وہ بالآخر فوجی مداخلت پر منتج ہو سکتی ہے۔
پنجاب عرصہ دراز تک باقی تین صوبوں کے مقابلے میں امن کا جزیرہ رہا مگر اب یہاں قتل و غارت گری‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ خوردنی تیل کی قلت اور اشیائے خورونوش کی مہنگائی و ذخیرہ اندوزی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے‘ اور حکومتی رٹ کمزور پڑ رہی ہے جبکہ سانحہ ماڈل ٹائون کے مجرم اب تک گرفتار ہوئے نہ کسی کو سزا ملی جو پنجاب حکومت کی گڈ گورننس پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ سارے عوامل عوامی اضطراب اور بے چینی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کل ایک خاتون نے فون پر گلہ کیا کہ نومبر سے پورے محلے میں گیس نہیں آ رہی اور بچے ناشتہ کئے بغیر سکول جاتے ہیں‘ مگر میڈیا حکمرانوں کی ترقیاتی سکیموں کا ڈھنڈورا پیٹ رہا۔
مجبور و بے بس عوام دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ لاقانونیت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور افلاس سے تنگ آ کر خود سوزیاں کرتے ہیں یا گلی محلے میں نکل کر حکمرانوں کا سیاپا۔ سفاک اشرافیہ سے وہ اس کے سوا کہہ بھی کیا سکتے ہیں ؎
ایویں مار نہ شاکر قسطیں وچ
یک مشت مکا تیڈی جان چھٹے
مگر جن کے پاس قوت و طاقت ہے اور جن کی قوت برداشت کو ہمارے سیاستدان مسلسل آزمانے میں لگے ہیں وہ بھی بھڑک اٹھے تو؟ کیا امریکی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اور مائیکل کوگلمین کے خدشات حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں؟ 1990ء‘ 1993ء‘ 1996ء‘ 1999ء اور 2007ء کی طرح کیا کراچی ہی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرے گا ؎
قریب ہے یارو‘ روز محشر
چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں