صولت مرزا کے اعترافی بیان پر متحدہ قومی موومنٹ کا موقف تو قابل فہم ہے‘ جنہاں کھادیاں گاجراں ڈڈھ انہاں دے پیڑ۔مگر ہمارے بعض تجزیہ کار اور دانشور کس تکلیف میں مبتلا ہیں اور مظلوموں سے زیادہ ظالموں سے انہیں ہمدردی کیوں ہے؟
سب سے زیادہ شور اس بات پر برپا ہے کہ سزائے موت کے ایک قیدی کا اعترافی بیان کیسے ریکارڈ ہوا اورکس طرح منظر عام پر آیا۔ یہ قانون سے لاعلمی ہے یا بات کا بتنگڑ بنانے کی عادت۔ورنہ سزائے موت کے ہر قیدی کو تختہ دار پر کھینچنے سے قبل یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ سے ملے اور آخری وصیت اور خواہش لکھے یا بیان کرے۔ ایک فوجی آمر ضیاء الحق نے یہ سہولت اپنے بدترین سیاسی مخالف ذوالفقار علی بھٹو تک کو بھی فراہم کی۔
بھٹو صاحب کو قلم کاغذ فراہم کیا گیا انہوں نے کچھ لکھا بھی مگر پھر اپنے لائٹر سے اس نوشتے کو جلا دیا ‘ کسی نے آج تک یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ بھٹو صاحب کو یہ سہولت فراہم کیوں کی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ بھٹو صاحب کی اپنی تحریر کو فوجی حکومت ان کے ورثا کے سپرد کرتی یا نہیں؟ عام خیال یہی ہے کہ بھٹو صاحب کی تحریری وصیت یا آخری خواہش کبھی ورثا کو ملتی نہ منظر عام پر آتی اس لیے بھٹو صاحب نے خود ہی یہ کاغذات جلا دیے۔
صولت مرزا ہائی پروفائل قیدی ہے۔ اور اس نے کسی فوری اشتعال یا ذاتی و خاندانی دشمنی کی بنا پر اتنے زیادہ قتل نہیں کئے ۔اس کا بیان ریکارڈ ہوا اور اس کی اپنی خواہش پر میڈیا کے حوالے بھی کیا گیا۔ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ سزائے موت کا قیدی جو بیان دے گا اسے افشا نہیں کیا جائیگا اور یہ بیان لازماً کسی مجسٹریٹ کے سامنے قلمبند ہونا چاہیے۔ البتہ یہ بیان شاہد حامد کیس میں صولت مرزا کے کام آ سکتا ہے نہ کسی دوسرے کو مجرم ٹھہرا سکتا ہے۔ تفتیش البتہ ہو سکتی ہے۔ جسے تمام قانونی ماہرین درست مانتے ہیں۔
صولت مرزا کے بیان‘ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے اور اس اعترافی بیان کی روشنی میں ہونے والی کارروائیوں پر زیادہ تر وہ لوگ انگلیاں اٹھا رہے ہیں جنہیں فوج اور رینجرز سے پرخاش ہے یا وہ آپریشن ضرب عضب کا دائرہ صرف طالبان اور ان کے سہولت کاروں تک محدود رکھنا چاہتے تھے اور ان کی خواہش یہ نظر آتی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کا فائدہ اٹھا کر جنرل راحیل شریف کمال اتاترک بن جائیں مدارس‘ مساجد پر تالے لگائیں ‘ ہر مذہبی شخص اور گروہ کا قلع قمع کریں۔1973ء کے متفقہ آئین کی تمام اسلامی شقیں نکالکر جگہ جگہ سیکولرازم کا پیوند لگا دیں اور گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے ۔یہی وجہ ہے کہ جب تک فاٹا میں آپریشن ہوتا رہا اور کراچی میں بھی ایک مخصوص شکل و صورت اورشناخت کے لوگ گرفت میں آئے یہ لوگ لڈیاں ڈالتے اور پاک فوج کے علاوہ رینجرز کی بلائیں لیتے رہے مگر جونہی انصاف کے تقاضوں کے مطابق رینجرز نے پاکستان کی معاشی شہ رگ کو مافیا سے چھڑانے کا آغاز کیا‘ صف ماتم بچھ گئی اورصدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔
صولت مرزا‘ عمیرصدیقی‘ عبید کے ٹو‘ فیصل موٹا اور علی رضا اگر مجرم ہیں تو ایک سیاسی جماعت کو ان سے ہمدردی کیوں؟ اگر مجرم گرفتار ہوئے ہیں تو اس گرفتاری پر نالہ وشیون کا کیا جواز ؟اوراگر یہ واقعی ایم کیو ایم کے بے گناہ کارکن ہیں تو بھلا فوج یا رینجرز کو ان سے کیا پرخاش ہو سکتی ہے ؟کیا رینجرز کے موجودہ سربراہ کراچی سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں ؟یا ایم کیو ایم سے ان کا شریکا ہے؟ اگر الطاف بھائی کی بات مان لی جائے کہ ایسٹیبلشمنٹ ‘ فوج‘ آئی ایس آئی اور رینجرز کو ایم کیو ایم سے خدا واسطے کا بیر ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ 1988سے اب تک یہ جماعت پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف کی ساختہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟مسلم لیگ (ق) کی حکومتوں میں شامل کیسے ہوتی رہی اور ایک فوجی سربراہ(پرویز مشرف) نے اسے ناک کا بال کیوں بنائے رکھا ۔ اس وقت یہ مائنڈ سیٹ کیوں بروئے کار نہ آیا؟
اکیلی ایم کیو ایم نہیں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے والی ہر تنظیم کو یہی تجزیہ کار اور دانشور گمراہ کرتے ہیں اور جرم و سیاست کو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دیتے۔ صولت مرزا کے اعترافی بیان ،صحافی ولی خان بابر اور دیگر بے گناہوں کے قاتلوں کی گرفتاری اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف رینجرز کی کارروائی پرسوال اٹھانے کے بجائے یہ افلاطون ایم کیو ایم سے اپیل کیوں نہیں کرتے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کا ادراک کرے۔ کراچی اور حیدر آباد کے عوام کی خواہشات اور مفادات کو مدنظر رکھے اور اپنے اندر گھسے قاتلوں سے پیچھا چھڑا کر اپنا پرامن سیاسی و جمہوری کردار ادا کرے‘ اپنے دشمنوں اور مخالفین کو منفی پروپیگنڈے کا موقع نہ دے کہ باقی سیاسی جماعتوں کے محدود عسکری ونگ ہیں جنہیں بآسانی الگ کیا جا سکتا ہے مگر ایم کیو ایم پر سیکٹر کمانڈروں کا غلبہ ہے جن کے سامنے فاروق ستار‘ ڈاکٹر عشرت العباد ‘ حیدر عباس رضوی اور خالد مقبول صدیقی بھی بے بس اور عاجز ہیں۔
میاں نواز شریف کھل کر اس آپریشن کی پشت پناہی کر رہے ہیں پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کس مجبوری کے تحت کیا کوئی جانتا نہیں۔ ممکن ہے زرداری صاحب سندھی مہاجر کی تقسیم نہ چاہتے ہوں اور ایم کیو ایم کو بطور ایک سیاسی جماعت سہارا دینا چاہتے ہوں تاکہ وہ عسکریت پسندوں سے اپنا دائیں چھڑا سکے مگر وفاق اور فوج کو غلط سگنل ملا چنانچہ میاں صاحب نے تحریک انصاف سے بدمزگی ختم اور جوڈیشل کمشن قائم کرنے کو ترجیح دی۔ یہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کے لیے پیغام ہے کہ ؎
تم نہیں اور سہی‘اور نہیں‘ اور سہی۔ جس کا مطلب ہے کہ بلیک میلنگ کی سیاست دم توڑ رہی ہے اور معاملات اصلاح پذیر ہیں۔
ایم کیو ایم اگر محاذ آرائی اور دبائو کی سیاست ترک کر کے اپنی صفوں کا جائزہ لے اور تنظیم میں گھسے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کر کے رینجرز کا کام آسان کرے تو اس میں کراچی کے عوام اور متوسط طبقے کی اس جماعت کا فائدہ ہے۔ پھر اسے ہر بار نہ تو صوبائی حکومت میں شمولیت کی مجبوری لاحق ہو گی نہ صبح‘ دوپہر شام اپنی صفائیاں پیش کرنی پڑیں گی۔ کراچی میں امن کا سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو ہو گا اور وہ قومی سطح پر بھر پور سیاست کرنے کی پوزیشن میں ہو گی‘ ایک منظم‘ پرعزم اور پرجوش جماعت کے طور پر ایم کیو ایم آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اگر اس نے طرز عمل نہ بدلا‘ تبدیل شدہ حالات کا ادراک نہ کیااور ٹارگٹڈ آپریشن کو متنازعہ بنانے میں لگی رہی تو اس بار شائد نتیجہ مختلف نکلے۔
وفاقی حکومت ‘عمران خان اور فوج مل کر ایم کیو ایم کے لیے نہ صرف کراچی بلکہ لندن میں بھی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی بھی شائد زیادہ دیر تک اس کی مدد نہ کر سکے ۔ امریکہ‘ برطانیہ اوراس کے حلیف بھی اب جنرل راحیل شریف کی سنتے اور پاکستان کی بات مانتے ہیں۔ بلوچ قوم پرست ‘ علیحدگی پسند رہنمائوں کا افغانستان‘ متحدہ عرب امارات اور لندن سے اخراج اس کا ثبوت ہے اور کوئی دن جاتا ہے جب عزیز بلوچ کی طرح میر حیر بیار مری اوربراہمداغ بگتی بھی وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھ رہے ہوں گے اور مولوی فضل اللہ بھی۔ برا وقت آنے پر ایران کے رضا شاہ پہلوی کو امریکہ اور یورپ میں دو گز زمین دفن کے لیے دستیاب نہ تھی تو یہ بے چارے کس باغ کی مولی ہیں۔
حکومت اعترافی بیان کی روشنی میں تفتیش کا عمل تیز کرے اور ہر مشتبہ و مشکوک کو قانون کے شکنجے میں کسے مگر کسی سطح پر یہ تاثر پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ سے سزایافتہ ایک شخص کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ریاست کو کسی قاتل‘ٹارگٹ کلر اور ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہونے والے شخص سے ہمدردی ہونی چاہیے نہ ریاستی اداروں کو اپنی ساکھ تباہ کرنے کی ضرورت ہے رہے جرم اور سیاست‘ کرپشن اور سیاست اور سینہ زوری اور سیاست کو ایک دوسرے کی جڑواں بہنیں قرار دینے والے نابغے ‘یہ مرفوع القلم ہیں ‘ دور کی کوڑیاں لانے اورظالموں کے حق میں دلائل گھڑنے کے عادی‘ کشمیر اور فلسطین کے حریت پسند انہیں دہشت گرد لگتے ہیں اور پاکستان کے علیحدگی پسندوں‘ پاکستان دشمنوں اور دفاع وطن میں مصروف سرفروشوں پر تبّرا کرنے والوں کے یہ ہمدردہیں ان سے بھلا کون کہے ؎
ہرآن آ مجھی کو ستاتے ہو ناصحو!
سمجھاکے تم اسے بھی تو اک بار کچھ کہو