جوڈیشل کمیشن

اتفاق رائے سے 2013ء کے انتخابات کی چھان بین کا معاہدہ کسی کی ہار ہے نہ جیت مگر اس کی ضرورت اب کیوں پیش آئی؟ بظاہر میاں نواز شریف پر کوئی دبائو نہیں۔ عمران خان تین ماہ ہوئے دھرناختم کر چکے ، احتجاجی جلسے وہ کر نہیں رہے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے سے حکومت عوام کو ریلیف دینے لگی ہے۔ زرداری صاحب سے وزیراعظم کی مفاہمت کا باب بند نہیں ہوا اور سول حکومت و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقات کے حوالے سے مسلم لیگی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ جتنے مثالی اب ہیں پہلے کبھی نہ تھے ۔ بقول شخصے وزیراعظم اور آرمی چیف میں گاڑھی چھنتی ہے‘ پھر بھی وزیراعظم نے 2013ء کے انتخابات کو متنازعہ مان کر چھان بین کا فیصلہ کرلیا؟
کیا وزیراعظم اور حکومت پر اندرون خانہ کوئی دبائو ہے؟ پچھلے سال احتجاجی تحریک کے مقابلے میںوزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہونے والی قوتوں سے کئے گئے وعدے کی تکمیل؟ یا حکومت پُراعتماد ہے کہ جوڈیشل کمشن کی تحقیق و تفتیش میں دھاندلی کا کوئی ثبوت ملے گا نہ وزیراعظم کو اسمبلی برخاست کرنی پڑے گی اور وہ اطمینان سے اپنی ٹرم پوری کرلے گی لہٰذا عمران خان کی بات مان لی جائے ؟ بعض واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ اگر دھاندلی ، بے ضابطگی کے چند شواہد تھے بھی تو پونے دو سالہ دور اقتدار میں ان کا کریاکرم ہوگیا، نکل گیا ہے سانپ اب لکیر پیٹاکر۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ جوڈیشل کمشن عمران خان کے بعض ساتھیوںکی منت سماجت پر تشکیل دیا گیا ہے جو اسمبلیوںمیںواپسی کیلئے بے تاب ہیں مگر عمران خان سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔ حکومت بھی چاہتی ہے کہ اگر زرداری صاحب ایم کیو ایم کا ساتھ دینے کے فیصلے پر قائم رہتے ہیں تو اسے قدم قدم پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بالخصوص کراچی میں عمران خان کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے تحریک انصاف اسمبلیوں میںواپس آئے تاکہ دونوںجماعتیں مل کر اس دبائو کا مقابلہ کرسکیںجو سندھ کی شہری اور دیہی قیادت کی طرف سے متوقع ہے۔ یہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں کی فرمائش پر حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے لئے فیس سیونگ ہے۔ ایک ایسا لالی پاپ جسے مزے سے چوستے ہوئے تحریک انصاف اسمبلیوں میں داخل ہو گی۔
جیسا کہ مسلم لیگ کے حامی اور بعض تجزیہ کار و دانشور دعویٰ کرتے ہیں پچھلے سال کا لانگ مارچ اور دھرنا عمران خان کا ذاتی یا جماعتی فیصلہ نہیں، شریف برادران سے پنجاب ہتھیانے کی سازش تھی جو جنرل راحیل شریف کی جمہوریت پسندی اور عمران خان و ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی ناپختگی کی بنا پر ناکام ہوگئی۔ عمران خان دس لاکھ افراد جمع کرسکے نہ اسٹیبلشمنٹ کو عدلیہ سے مل کر جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع ملا۔ تو کیا اب جوڈیشل کمشن بھی محض شلجموں سے مٹی جھاڑنے کی کارروائی ہے؟یا پچھلے سال ناکام رہنے والی اسٹیبلشمنٹ جوڈیشل کمشن کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان جوڈیشل کمشن کے قیام پر اتنے خوش کیوں ہیں؟ اور وہ اسے جمہوریت اور تحریک انصاف کی بہت بڑی فتح کیوں قرار دے رہے ہیں؟
کہا یہ جا رہا ہے کہ ضرب عضب اور کراچی آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے میاں نواز شریف اور عمران خان کے مابین محاذ آرائی ختم کر ادی گئی ہے اور پنجاب کو مزید کسی احتجاجی تحریک سے بچانے کے لیے جوڈیشل کمشن تشکیل دیا جا رہا ہے، تاہم جوڈیشل کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس اس تاثر کی تائید نہیںکرتیں۔ اس کمشن کو نہ صرف سزائوں کا اختیار دیا گیا ہے بلکہ اسے ملٹری انٹیلی جنس ، آئی ایس آئی سمیت خفیہ ایجنسیوں اور تمام ریاستی اداروں سے مدد حاصل کرنے، جملہ قسم کی دستاویزات طلب کرنے کا استحقاق ہے اور آئین کے آرٹیکل 218/3 کو ٹرمز آف ریفرنس کا حصہ بنا کر اس کا دائرہ اختیار وسیع کر دیا گیا ہے۔ اگر تحریک انصاف یہ ثابت کرنے میںکامیاب رہی کہ الیکشن کمشن Fairly، Justly،Honestly انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے اور Corrupt Practices کو روک نہیں سکا تو صرف انتخابات کالعدم قرار نہیں پائیں گے بلکہ اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے جبکہ تحریک انصاف کے رہنما ہی نہیں، انتخابی عمل میں اہم کردار ادا کرنے والے بعض واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ 2013ء میں دھاندلی نہیں دھاندلہ ہوا ۔بس پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!
نظر بظاہر موجودہ ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن‘ عوام دشمن نظام اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو برخود غلط سوڈوانٹیکچول سادہ لوح عوام کو یہ کہہ کر بہلانے پھسلانے کی کوشش کرتے ہیںکہ سسٹم چلتا رہے تو بہتری خودبخود آنے لگتی ہے اور عوام کو بھی ٹرکل ڈائون ایفیکٹ کے فوائد ملتے ہیں‘ وہ اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتے ہیںکہ 2007ء میں یہاںخط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والوں کا تناسب کل آبادی کا 37 فیصد تھا مگر مفاہمتی سیاست اوربسیار خور جمہوریت کے طفیل اب یہ تناسب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 59 فیصد ہے۔ یعنی اٹھارہ کروڑ میں سے دس کروڑ عوام غربت کے انتہائی نچلے درجے میں زندگی بسر کرتے ہیں‘ فقط ایک وقت کا کھانا کھانے پر مجبور۔ یہ جمہوریت کے نام پر آدم خور جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ اور خاندانی ، وراثتی نظام کا ٹرکل ڈائون ایفیکٹ ہے۔ روک تھام نہ کی گئی تو اگلے دو تین برسوں میں غربت بڑھے گی اور اس تناسب سے دہشت گردی ، بدامنی، ڈاکہ زنی ، چوری چکاری، رہزنی اور بدامنی بھی۔
ہر عوام دوست اور ذی شعور فرد، گروہ اور ادارے کو نظر آ رہا ہے کہ آپریشن کلین اپ کے بغیر ملک چل سکتا ہے نہ آزادی و خودمختاری برقرار رکھنا آسان ۔ دہشت گردوں، اغوا کاروں، بھتہ خوروں، قبضہ گروپوں، قرضہ خوروں، ووٹ چوروں کا ایک اتحاد ہے جس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکل بگاڑ دی ہے۔ ان کی ہوس زر، ناانصافی اور قانون شکنی نے دہشت گرد اور جرائم پیشہ گروہ پیدا کیے اور ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں احساس محرومی کو جنم دیا۔ شمالی وزیرستان سے لیکر کراچی اور کوئٹہ تک دہشت گرد گروہ اور جرائم پیشہ عناصر کو سیاسی چھتری میسر نہ ہوتی تو یہ ریاست کیلئے خطرہ بنتے نہ آپریشن ضرب عضب کی ضرورت پیش آتی۔
اب بھی کراچی میںآپریشن کو ناکام بنانے کیلئے ایک غیر مریٔ اتحاد وجود میں آ چکا ہے جس کو توڑنے کیلئے آپریشن کا دائرہ وسیع کرنا ضروری ہے۔ کسی تمیز و تفریق کے بغیر قانون کا ہر شہر، علاقے اور صوبے میں نفاذ اور کسی رنگ، شکل ، زبان اور فرقے کے بغیر سزا و جزا کا اہتمام کیے بغیر پرامن اور قانون پسند معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے نہ ملکی سلامتی کی ضمانت مل سکتی ہے،اس لئے گند کو صاف کرنے کی کوششیں ہر سطح پر جاری ہیں اور جوڈیشل کمشن کا قیام بھی بظاہر اس سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے، تاہم اس کی کامیابی کا دارومدار جوڈیشل کمشن اور تحریک انصاف پر ہے کیونکہ دوسرا کوئی ان کی مدد کو آئے گا نہ کامیاب ہونے دے گا۔ روڑے اٹکانے والے البتہ بہت ہوں گے۔ دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اور تحریک انصاف اس معاملے سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے۔ موقع قدرت نے فراہم کردیا ہے اور حالات بھی سازگار ہیں۔
عمران خان نے دھاندلی کا شور مچایا تو ہر ایک نے مذاق اڑایا، پھر اسمبلی کے فلور پر سب نے دھاندلی کے الزام کو سچ بتلایا مگر دھاندلی زدہ انتخاب اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے عمرانی فلسفے سے اختلاف کیا۔ اب عمران خان نے ان جمہوریت پسندوں کی خواہش کے مطابق جوڈیشل کمشن بنوالیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اعتزاز احسن سے لے کر غوث علی شاہ تک کشتگان الیکشن کمشن جوڈیشل کمشن سے تعاون کریں، دھاندلی کے ثبوت پیش کریں تاکہ ووٹ چوروں کو سزا ملے اور یہ جرأت کوئی دوسرا نہ کرسکے ۔اب بھی اگر سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسندوں نے ضبط سے کام لیا اور مصلحت و منافقت کی چادر اوڑھ لی تو پھر کبھی شفاف انتخاب کی نوبت نہیں آئے گی ؎
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ ''بولے‘‘ گا تو مر جائے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں