ہم دیکھیں گے

جوڈیشل کمشن بن گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کمشن کے سربراہ ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اول تو جوڈیشل کمشن بننے سے رہا‘ بننا ہوتا تو جب اگست2014ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں تشکیل کا اعلان کیا تھا‘ بن جاتا۔ آئین کا آرٹیکل 225آڑے آ گیا اب کیسے بنے گا۔اگر بن گیا تو چیف جسٹس سربراہی قبول نہیں کریں گے اور پھر ماضی کے کمشنوں کی طرح یہ اگلے دو تین سال تک اپنی کارروائی جاری رکھے گا۔ عمران خان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا خوب انتظام ہوا ہے۔مگر وزارت قانون کی طرف سے سمری موصول ہوتے ہی نہ صرف کمشن بن گیا بلکہ چیف جسٹس اس کے سربراہ ہیں۔
جس تیزی سے کمشن نے پہلا اجلاس منعقد کیا اس سے اندازہ ہوا کہ شاید یہ اپنا کام اگلے ڈیڑھ دو ماہ میں مکمل بھی کرلے۔ چیف جسٹس اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل (جو اگست میں متوقع ہے) تاریخی رپورٹ پیش کر کے قوم کے سامنے سرخرو ہو نا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں نے ان پر اعتماد کیا تو وہ انہیں مایوس کیوں کریں ؟ جسٹس افتخار محمد چودھری سے مختلف نظر کیوں نہ آئیں ؟
پچھلے سال کمشن کیوں نہ بن سکا ؟اس بار کیسے بن گیا ؟یہ سوال اہم ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 13اگست2014ء کی شام نشری تقریر میں جوڈیشل کمشن بنانے کا جو اعلان کیا‘ وہ کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہیں تھا۔ عمرانی لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکالنے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی تدبیر تھی جس کا ادراک عدلیہ نے کیا۔ کمشن 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا جائزہ لینے کے لیے نہیں عمران خان کے الزامات کی صداقت جانچنے کے لیے قائم کیا جا رہا تھا۔عدلیہ اس کھکھیڑ میں کیوں پڑتی۔
اس مقصد کے لیے تحریک انصاف تو درکنار وزیر اعظم نے اپنے حلیفوں سے مشاورت کی نہ یہ واضح تھا کہ اگر الزامات درست ثابت ہوں تو اسمبلی کا مستقبل اور حکومت کا ردعمل کیا ہو گا؟اب ہر چیز طے ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان مطمئن کہ جوڈیشل کمشن کا قیام جملہ سیاسی و جمہوری قوتوں کی خواہش پر عمل میں لایا جا رہا ہے اور اگر انتخابی دھاندلی ثابت ہو گئی تو اسمبلیاں تحلیل اور حکومتیں برخاست ہوں گی۔ یہ محض سایوں کا تعاقب نہیں۔
کمشن کی تشکیل میں تاخیر بے وجہ نہ تھی۔ تاخیر ہوئی تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد پنجاب حکومت نے جسٹس باقر نجفی کی قیادت میں کمشن تشکیل دیا‘ اپنی مرضی سے ٹرمز آف ریفرنس وضع کئے اور پھر تبدیل کر دیئے۔ عوامی تحریک یعنی مدعی پارٹی نے اس کمشن کا بائیکاٹ کیا مگرع
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
کمشن نے کارروائی کا آغاز کیا تو ایسے حقائق سامنے آئے کہ جسٹس باقر نجفی انہیں نظر انداز نہ کر سکے۔سانحہ ماڈل ٹائون کے تمام کرداروں کا ساراکچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا۔
کئی ماہ بیت گئے ‘ حکومت کے اپنے ہی بنائے گئے جوڈیشل کمشن کی رپورٹ سردخانے میں پڑی اس دن کا انتظار کر رہی ہے:
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بُت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمشن کے ساتھ مگر یہ سلوک شاید کوئی نہ کر سکے‘ کیونکہ ایک تو دونوں متحارب گروہ متفق ہیں دوسرے نجفی کمیشن کی طرح یہ دانتوں اور ناخنوں سے محروم کمیشن نہیں اسے فوجداری اختیارات حاصل ہیں اور تحریک انصاف کی پوزیشن عوامی تحریک سے مختلف ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ہنگامہ اٹھانے کے ماہر ہیں اور نچلے بیٹھنے کے عادی نہیں۔ جوڈیشل کمشن بنوا لیا ہے تو اس کی رپورٹ پر عملدرآمد بھی کسی نہ کسی طور پرکرا لیں گے۔
تاہم جوڈیشل کمشن اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔ بعض حلقوں کا اصرار ہے کہ حکومت نے دھاندلی کے جملہ ثبوت مٹانے کے بعد جوڈیشل کمشن تشکیل دیا۔ نادرا‘ ایف آئی اے اور الیکشن کمشن میں باریک کام وہ کر چکی ہے اور الیکشن کمشن کو وہاں سے ازخود دھاندلی کے مضبوط شواہد ملنا ممکن نہیں۔ یہ پاکستان ہے یہاں کسی امکان کو رد کیا جا سکتا ہے نہ کسی سازشی تھیوری کو یکسر غلط قرار دینا آسان‘ مگر کیا عمران خان اور ان کے ساتھی‘ اعتزاز احسن اور دوسرے کشتگان الیکشن بھی تہی دست و تہی دامن ہیں؟ لگتا نہیں۔ عدالت کو قصے کہانیاں اور الزامات نہیں ٹھوس شواہد درکار ہیں جودھاندلیوں کے حوالے سے عمران خان‘ آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن‘ چودھری شجاعت حسین اور غوث علی شاہ کے موقف کی صداقت بیان کر سکیں۔
انتخابات میں جھرلو کا آغاز1950ء کے عشرے میں ہوا۔ عمران خان سادگی میں 1970ء کے انتخابات کو شفاف کہہ جاتے ہیں مشرقی پاکستان میں یہ انتخابات اس ماحول میں ہوئے جو کراچی کا خاصہ ہے۔ عوامی لیگ کے امیدواروں سپورٹرز اور ووٹرز کے سوا باقی سب کے لیے الیکشن بوتھ ممنوعہ علاقہ‘1977ء میں جو کچھ ہوا وہ اس قدر شرمناک تھا کہ بھٹو صاحب کے اندھے معتقدین کو بھی کچھ نشستوں پر دھاندلی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ انہی انتخابات کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے تبصرہ کیا تھا کہ'' ہم نے تو دکان سجا دی تھی ڈاکو پڑ جائیں تو ہمارا کیا قصور‘‘۔ ضیاء الحق غاصب ہوں گے مگر سیاستدانوں کو مرنے کا شوق بھی تھا۔ متحارب سیاستدانوں نے تین چار ماہ تک پوری قوم اور فوج کے صبر و تحمل اور برداشت کا خوب امتحان لیا اور معاہدے کا شور اس وقت مچایا جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔
خدا کا شکر ہے اس بار نوبت فوجی مداخلت تک نہیں پہنچی۔ اس میں سیاستدانوں کی دانش و بصیرت اور دور اندیشی کا کوئی خاص دخل عمل نہیں۔ کوشش دونوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کی مگر فوجی قیادت آپریشن ضرب عضب میں الجھی تھی اور فرینڈلی اپوزیشن کو میاں صاحب کی حکومت سازگار تھی‘ سو بات نہ بنی اور جوڈیشل کمشن کی تشکیل پر اتفاق کرنا پڑا۔ جوڈیشل کمشن سے توقعات سب کو ہیں اور یہ اگر انتخابی اصلاحات کی تدوین اور دھاندلی کی روک تھام میں کامیاب رہے‘2015ء انتخابی سال ہو یا انتخابی اصلاحات کا سال دونوں صورتوں میں غنیمت ہے۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔
فی الحال دونوں فریق مطمئن ہیں۔ تحریک انصاف کے خیال میں جوڈیشل کمشن کشتو ں کے پُشتے لگا دے گا‘ حکومت سمجھتی ہے کچھ نہ ہو گا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ارکان بالعموم قانونی موشگافیوں میں الجھ جاتے ہیں مگر باقر علی نجفی کمشن کا تجربہ عوام کے لیے حوصلہ افزا رہا جس نے بہت سوں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ اس رپورٹ کو نگلنا آسان ہے نہ اگلنا۔بعض خوش فہموں کا خیال ہے کہ جوڈیشل کمشن بھی گلے کی پھانسی بن سکتا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوئی تو پوچھیں گے کہ وہ کیا سمجھتے ہیں؟ آخر کو محرم رازدرون خانہ ہیں عمران خان محض خوش فہمی کا شکار ہیں یا دال میں کچھ کالا ہے؟ ہمیں دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں