نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

کعبۃ اللہ کے سائے میں درس قرآن دینے والے واحد پاکستانی عالم دین محمد مکی صاحب نے گلو گیر لہجے میں ایک واقعہ سنایا تو حاضرین محفل سبحان اللہ پکار اٹھے۔
مکی صاحب نے بتایا کہ معاصرین اور ناقدین کی آراء پڑھ‘ سن کر میں پیر جماعت علی شاہؒ کے بارے میں منفی رائے رکھتا تھا مگر ایک بزرگ اور دوست نے چشم دید واقعہ سنا کر میری رائے بدل دی۔ ہوا یوں کہ میرے بزرگ دوست نماز فجر سے قبل مسجد نبویؐ میں داخل ہو رہے تھے جبکہ پیر صاحب روضہ رسولؐ کے سامنے کھڑے درود و سلام پڑھ رہے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مسجد نبویؐ کی عالیشان توسیع ہوئی تھی نہ مدینہ منورہ جدید سہولتوں سے آراستہ تھا۔ حفاظتی انتظامات ہوتے نہ زائرین اور نمازیوں کا ہجوم۔ ڈنڈا بردار محافظ رات کو حرم کے اردگرد پہرہ دیتے تاکہ کتے بلّے اور دوسرے جانور احاطے میں داخل نہ ہو سکیں۔ بزرگ دوست بتاتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک کُتا احاطہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قریب آنے پر محافظ نے ڈنڈا اٹھایا اور کُتّے کو نشانہ بنایا مگر اس سے پہلے کہ کتا ڈنڈے کی زد میں آتا ایک ضعیف العمر بزرگ درمیان میں آئے اور پکارے ''کچھ خیال کرو‘ یہ مدینے کا کُتا ہے‘‘ ڈنڈا پیر صاحب کو زورسے لگا مگر انہوں نے پروا نہ کی‘ کتے کو چوٹ سے بچا کر دم لیا۔ مکی صاحب نے سوچا‘ مدینہ منورہ کے کُتوں کا خیال رکھنے والا شخص کوئی ایرا غیرا نہیں عاشق رسولؐ ہو سکتا ہے ۔ نبیؐ کا دیوانہ۔
خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں جذبۂ عشق رسول ﷺ فراواں ہے اور حجاز مقدس سے محبت پاکستانیوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔ جتنی عقیدت ہر کلمہ گو کو مدینۃ الرسول سے ہے ‘ اس سے کہیں زیادہ وابستگی حضور اکرم ﷺ کو مکہ مکرمہ اور بیت اللہ سے تھی۔ حجتہ الوداع کے بعد جب صحابہ کرامؓ نے اپنے آقاؐ کے مکہ مکرمہ سے لگائو کا نظارا کیا تو انہیں گمان گزرا اور مغموم ہوئے کہ شاید اب آپؐ یہاں مستقل قیام فرمائیں اور مدینہ منورہ واپسی نہ ہو‘ مگر طواف وداع کر کے آپؐ اپنے رفقا کے ساتھ مدینہ منورہ چل پڑے۔
ڈاکٹر خالد بن علی الغامدی کو اہل پاکستان نے عقیدت و محبت سے خوش آمدید کہا تو کچھ عجب نہ تھا۔ آل رسول ﷺ اور سونے پر سہاگہ مسجد الحرام کے امام۔ پاکستان کے عاشقان رسولؐ کی تو جیسے لاٹری نکل آئی کہ حضور اکرمﷺ کے نواسے اور مسجد الحرام کے امام و خطیب کی زیارت کریں‘ مُشکبو باتیں سنیں اور موقع ملے تو ان کی اقتدا میں نماز بھی ادا کریں۔ دست بوسی کی سعادت حاصل ہو جائے‘ یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
ڈاکٹر خالد الغامدی نے نماز جمعہ میرے محلے کی مسجد میں پڑھائی۔ شومئی قسمت کہ میں ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے محروم رہا ۔ جامعہ اشرفیہ میں حافظ فضل الرحیم اشرفی اور مجیب الرحمن انقلابی نے ملاقات کا اہتمام کیا تو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے حوالے سے میراتھن نشریات نے قدم روک لیے۔ احساس محرومی میں مزید اضافہ ہو گیا کہ کنواں پیاسے کی دسترس میں ہے مگر قسمت ہے کہ ساتھ نہیں دے رہی۔ ایک ہوک سی دل میں اٹھی اور افسردگی نے ذہن کو جکڑ لیا۔
ڈیرہ غازی خان سے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کی فون کال نے دل کے غنچے کے کھلا دیئے۔ اطلاع ملی کہ علامہ ساجد میر اور ڈاکٹر صاحب کی دعوت پر امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی مقامی ہوٹل میں تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ سے خطاب فرمائیں گے ۔ اپنے بیٹے شاہ حسن کے ساتھ ہوٹل پہنچا تو علماء کا ایک جم غفیر امام پر اپنی عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرنے کے لیے موجود پایا۔ اکثریت اگرچہ اہلحدیث علماء و اکابرین کی تھی کہ علامہ ساجد میر جمعیت اہلحدیث کے سربراہ اور ڈاکٹر حافظ عبدالکریم سیکرٹری جنرل ہیں مگر کثیر تعداد میں دوسرے مسالک کے علماء اور مسلم لیگ و جماعت اسلامی کے زعما بھی شاداں و فرحاںنظر آئے۔ پیر اعجاز ہاشمی ‘ قاری زوار بہادر‘ علامہ انتخاب نوری‘مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی‘ حافظ اسعد عبید‘ حافظ طاہر اشرفی‘ علامہ محمد حسین اکبر‘ لیاقت بلوچ ‘ خواجہ سعد رفیق‘ عابد شیر علی‘ چوہدری کاشف رندھاوا ان میں نمایاں تھے۔ کھانے کی میز پر بھی یہ سب امام کعبہ سے تبادلہ خیال کرتے رہے۔
امام کعبہ کی تقریر میں بھی اتحاد امت اور اسلامی بھائی چارے پر زور دیا گیا اور انہوں نے دہشت گردی کی طرح فرقہ واریت کو ناسور قرار دیا۔ کعبہ سب کا ہے اور حج و عمرہ کے دوران امام کعبہ کے پیچھے ہر مسلک اور مشرب کے مسلمان قلبی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے ہیں مگر پاکستان و ایران میں بہت سے اہل ایمان کو شکایت رہی کہ امام کعبہ و امام مسجد نبوی پر چند مخصوص افراد اور طبقے مسلکی بنیاد پر حق شفعہ جتلاتے اور دوسروں سے دور کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد الغامدی نے مگر گفتگو میں ایسا تاثر دیا نہ ان کے میزبانوں نے یہ طرز عمل اختیار کیا۔ رانجھا سب کا سانجھا بنا کر انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے عوام کے مابین اتحاد و یگانگت اور اسلامی بھائی چارے کو فروغ دیا۔
امام کعبہ کو پاکستان کون لایا‘ وہ کیوں آئے‘ کیا پیغام لائے اور محافل و اجتماعات میں کیا کہتے کیا سنتے رہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں ؎
اُن کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
میں اس بات پر مطمئن و مسرور ہوں کہ میں نے جاگتی آنکھوں سے اُن کی زیارت کی‘ حضور اکرم ﷺ کی پسندیدہ زبان عربی میں تقریر سنی اور میرے بیٹے شاہ حسن کو ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جس پر وہ اب تک پھولا نہیں سماتا۔ کیونکہ یہ وہ ہاتھ ہیں جو ہر روز نہیں‘ ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور کعبتہ اللہ کو چھوتے ہوں گے۔ یہ خوش عقیدہ پاکستانی پیر جماعت علی شاہ کی طرح حجاز مقدس کے کتوں کا بھی ادب کرتے ہیں۔ خواجہ فریدؒ کے الفاظ ہیں ؎
توڑیں دھکڑے دھوڑے کھانڈری ہاں
تیڈے نام توں مفت وکانڈری ہاں
تیڈی باندیاں دی میں باندری ہاں
ہے در دے کُتیاں نال ادب
اگرچہ میں جگہ جگہ دھکے کھا رہی ہوں ‘ مگر آپ کے نام پر بے مول بکتی ہوں۔ میں آپ کی کنیزوں کی کنیز‘ غلاموں کی غلام ہوں‘ آپ کے در کے کتوں کا ادب بھی میرا فرض ہے)
مگر جب کعبتہ اللہ کا امام اور رسول اللہ ﷺ سے خاندانی نسبت رکھنے والا ایک جواں سال‘ خوش خصال اور خوش کلام انسان ہمارے سامنے ہو تو ہمیں اپنی خوش بختی پر ناز کیوں نہ ہو۔ یہاں وہ لوگ بھی امام کعبہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہے تھے جنہیں بالعموم زاہد خشک سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کو پارلیمنٹ کی ایک بے مغز اور بے روح قرار داد کے ذریعے جو پیغام ملا اس کے اثرات زائل کرنے کے لیے میاں نواز شریف‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ خادم الحرمین کی حاضری بھر چکے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین پیدا ہونیوالی بدگمانی اور سرد مہری ختم کرنے میں مدد ملی۔
پاکستانی عوام البتہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ دونوں حکومتوں کی بے تدبیری اور ایک دوسرے کے بارے میں خوش گمانی کے سبب انہیں امام کعبہ کی جھلک دیکھنے اور راحت افزا باتیں سننے کا موقع ملا۔ عدو شرے برانگیزد کہ خیرما درآں باشد۔ اگر میاں صاحب پارلیمنٹ کو درمیان میں نہ لاتے‘ وہاں محمود اچکزئی جیسے سعودی عرب کی ہجو میں قلم نہ توڑتے تو امام کعبہ کو پاکستان آنے اور تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ سے مل کر اس خوش عقیدہ قوم کے جذبات و احساسات سے آگہی کیسے ملتی۔یہ شر سے خیر کا ظہور ہوا ہے۔
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست۔ خالد الغامدی کچھ عرصہ مسجد نبوی کے امام رہے‘ چہرے کی ملائمت‘ گفتگو میں شیرینی اور مزاج کی نرمی رسول اللہ ﷺ سے صلبی رشتے کا صدقہ ہے یا مدینہ منورہ کی آب و ہوا کا اثر۔ بہر صورت انہوں نے پاکستانی عوام کا دل موہ لیا ۔ اسلامی اخوت اور باہمی اتحاد و یگانگت کا جو سبق انہوں نے پاکستانی قوم کو دیا وہ سعودی عرب کے حکمرانوں اور عوام کو بھی دیں اور حکمرانوں نہیں تو کم از کم ایران و سعودی عرب کے علماء و صلحا کو آمنے سامنے بٹھا کر فرقہ بندی کی لعنت پر قابو پانے کی تلقین کریں۔ کیا عجب کہ دونوں طرف سے قبولیت کا پیغام ملے۔
ہمارے لیے وہ ہر حال میں محترم ہیں کعبہ کے امام ‘ رسول اللہ ﷺ سے نسبی تعلق‘ اللہ اور حضور اکرم ﷺ کے پسندیدہ شہر مکہ مکرمہ کے باسی۔ سرور کائنات ﷺ سے اتنی نسبتیں کتنوں کے نصیب میں ہیں۔
وہ دانائے سُبل‘ ختم الرسل ‘ مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا‘ فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یٰسیں‘ وہی طہٰ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں