بہاولپور کے قریب قائد اعظم سولر پارک میں سرائیکی لوک گلوکار جمیل پروانہ‘ نصیر مستانہ نے خواجہ فریدؒ کی مشہور زمانہ‘ مقبول عام کافی اپنے مخصوص لہجے اور دلپذیر دھن میں گانا شروع کی تو سخن فہم و سرائیکی شناس سامعین کے دل کے تار بج اٹھے ؎
آ چنُوں رل یار
پیلوں پکیاں نی وے
بار تھئی ہے رشک ارم دی
سُک سڑ گئی جڑھ ڈکھ تے غم دی
ہر جا باغ بہار
ساکھاں چکھیاں نی وے
(اے ہمدم ‘ اے دوست آئو مل کر پیلو چنیں جو پک چکی ہیں‘ جنگل اور ویرانہ رشک اِرم بن چکا ہے۔ دکھ اور غم کی جڑیں سوکھ چکی ہیں‘ جا بجا باغ و بہار کی کیفیت ہے اور پیلو کے تحفے چکھے جا رہے ہیں۔)
روہی میں ابھی پیلو پکیاں ہیں نہ دکھ اور غم کی جڑیں سوکھی ہیں البتہ گزشتہ روز قائد اعظم سولر پارک‘ جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہا تھا۔ اونٹوں کا رقص‘ مقامی لباس میں جھومر پیش کرنے والی ٹولیاں اور چاروں صوبوں سے اکٹھے ہونے والے آسودہ حال مہمانوں کو حیرت و استعجاب سے دیکھتی نازک نازو جٹیاں ؎
رکھدے ناز حسن پروردے
ابر و تیغ تے تیر نظر دے
تیر تکھے ہتھیار
دلیاں پھٹیاں نی وے
وفاق کے تعاون سے پنجاب حکومت نے شمسی توانائی کا سب سے بڑا تجرباتی پارک بنایا ہے جس سے فی الحال سو میگاواٹ بجلی دستیاب ہو گی۔ اگلے تین سال میں مزید نو سو میگاواٹ بجلی اس سولر پارک سے حاصل ہو سکے گی جس پر وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف پھولے نہیں سما رہے تھے۔ وزیر اعظم نے تو اس خوشی میں منصوبے کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے کارکنوں کے لیے دو کروڑ روپے نقد انعام کے علاوہ کمشنر ملتان سمیت اہم افراد کو ''تغمے‘‘ دینے کا اعلان بھی کیا۔ کس کس کو کون سا ''تغمہ‘‘ ملے گا یہ فیصلہ بعد میں ہو گا۔
قائد اعظم سولر پارک کی اختتامی تقریب سے ایک روز قبل الیکشن ٹربیونل نے این اے 125 لاہور کا فیصلہ سنایا جس کی وجہ سے تقریب میں شریک لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کے صحافیوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) سے وابستہ ارکان اسمبلی و وفاقی و صوبائی وزراء انتخابی دھاندلی کے لذیذ موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔ کچھ ستم ظریفوں کے خیال میں خواجہ سعد رفیق محض تحریک انصاف اور الیکشن ٹربیونل کے کشتۂ ستم نہیں‘ کوئی اور معشوق بھی ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ باقی عذرداریوں کی تفتیش میں روڑے اٹکانے اور کبھی نادرا‘ کبھی الیکشن کمیشن کو تاخیری حربوں پر مجبور کرنے والوں نے خواجہ صاحب کے معاملے میں دلچسپی کیوں نہ لی؟
بجا کہ ٹربیونل کا فیصلہ خواجہ سعد رفیق اور میاں نصیر کے بجائے ریٹرننگ آفیسر‘ پریذائیڈنگ افسر اور دیگر انتخابی عملے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ مگر دھاندلی کا اعتراف تو ٹربیونل نے کیا ہے اور یہ بھی کہ قینچی اور چاقو سے تھیلے کھولے گئے۔ فارم 14 اور 15 غائب ہیں اور سنگین نوعیت کی بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ الزام اگر براہ راست خواجہ سعد رفیق پر لگتا تو یہ انفرادی کارنامہ قرار پاتا مگر انتخابات کرانے والوں پر الزام سے تو عمران خان کا موقف درست ثابت ہوتا ہے کہ دھاندلی کے ثبوت تھیلوں میں بند ہیں‘ ایک مخصوص پیٹرن کے ذریعے وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی جس میں ریٹرننگ افسروں اور انتخابی اہلکاروں کا کردار تھا‘ انہیں یہ کردار کس نے سونپا؟ انتخابی عملہ بدترین بے ضابطگیوں کا مرتکب کیوں ہوا؟ اور انتخابی نتائج کے ردوبدل سے کس کا مفاد وابستہ تھا؟ انتخابی ڈیوٹی انجام دینے والے محکمہ تعلیم‘ ایل ڈی اے اور پی ایچ اے کے عملے اور ریٹرننگ افسر کو بھلا حامد خان سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی۔ اور خواجہ سعد رفیق سے کس بنا پر ہمدردی؟
خواجہ سعد رفیق پختہ کار سیاسی کارکن ہیں‘ حلقہ جاتی سیاست کے اسرار و رموز سے واقف اور ووٹروں کی نفسیات سے آگاہ۔ حامد خان بہت زیادہ سوشل ہیں نہ کل وقتی سیاستدان مگر 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کو ملنے والا اٹھہتر لاکھ ووٹ محض امیدواروں کی محنت کا ثمر ہے نہ قیمے کے نان اور کسی چھوٹے موٹے جائز و ناجائز کام کے وعدے پر اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کرنے والے ''باشعور عوام‘‘ کی والہانہ محبت کا اظہار۔ یہ ان پڑھے لکھے‘ کھاتے پیتے اور پرجوش نوجوانوں‘ بڑوں‘ بوڑھوں اور خواتین کے جذبہ جنوں کا نتیجہ ہے جو بیک وقت ووٹر تھے اور پُرعزم کارکن بھی۔ یہی حلقہ 125 میں بھی متحرک تھے اور صبح صبح قطاروں میں لگ کر ان لوگوں نے مسلم لیگ (ن) کو پریشان کر دیا۔ بعدازاں جو کچھ ہوا وہ اس پریشانی بلکہ سراسیمگی پر قابو پانے کی مسلم لیگی کاوش تھی اور اس کاوش نے مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ میں مینگنیاں ڈال دیں ع
اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
این اے 125 کے بارے میں فیصلہ سنانے والے ٹربیونل نے کسی پر سازش کا الزام عائد کیا نہ بے ضابطگیوں پر کسی کو سزا سنائی کہ جج کو اس کا اختیار نہیں مگر ایک پیٹرن کی نشاندہی کی اور اس بات کی تصدیق کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس حلقے میں آئین کے آرٹیکل 218 کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہا۔ آرٹیکل (3) 218 کے مطابق الیکشن کمشن کا فرض ہے کہ وہ ایسے انتظامات کرے جس کے نتیجے میں To ensure That the election is Conducted honestly' Justly' fairly and in accordance with law ,and that Corrupt Practices are guarded against.
ٹربیونل نے کرپٹ پریکٹسز کی نشاندہی کر دی‘ الیکشن کے ''دیانتدارانہ‘‘، ''آزادانہ‘‘ ، ''منصفانہ‘‘ اور ''قانون کے مطابق انعقاد‘‘ کے بارے میں جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔
حلقہ این اے 125 کے بعد لوگوں کی سپیکر قومی اسمبلی ایازصادق‘ خواجہ آصف اور جہانگیر ترین کے حلقوں سے دلچسپی بڑھ گئی ہے اور جو لوگ جوڈیشل کمشن کے بارے میں یہ تاثر دے رہے تھے کہ محض تحریک انصاف کی اشک شوئی ہے وہ اس سارے معاملے کو باندازِ دگر دیکھنے لگے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے خلاف فیصلے کا رشتہ لندن پلان سے جوڑا ہے جس کے بارے میں میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور ان کے دیگر ساتھی بار بار یہ کہتے رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور بعض سینئر جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ جاوید ہاشمی صاحب کی رائے بھی یہی ہے مگر وفاقی وزیر اور میاں نواز شریف کے قریبی و قابل اعتماد ساتھی کے طور پر خواجہ صاحب نے ایک بار پھر لندن پلان کا ذکر کر کے حکومت اور مقتدر اداروں کے درمیان بہترین تعلقات کار اور گہرے رشتوں کی قلعی کھول دی ہے۔ سازشی کہانیاں اسی طرح کے بیانات سے جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ یہ جنرل راحیل شریف اور ان کے قابل اعتماد ساتھیوں سے بھی زیادتی ہے جو سیاست اور جرم کی طرح فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کی راہ پر پامردی سے گامزن ہیں۔
بہاولپور میں قائد اعظم سولر انرجی پارک کے فوائد سے اگر مقامی آبادی بھی مستفید ہو سکی تو محرومی اور مایوسی کا شکار سرائیکی وسیب اپنے شکوے بھول کر فراخدلی سے تخت لاہور سے اظہار تشکر کرے گا۔ بہاولپور کے عوام کی فراخدلی‘ کشادہ ظرفی اور اعتدال پسندی کا ایک زمانہ معترف ہے۔ سرائیکی زبان کی طرح سرائیکی عوام میں مٹھاس بہت ہے کڑواہٹ نام کو نہیں ورنہ 1955ء سے لے کر اب تک باشندگان ریاست کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ سرائیکی قومی موومنٹ اور دیگر قوم پرست تحریکوں کی کامیابی کے لیے بہت تھا اور یہاں کسی وفاقی اور قومی جماعت کا داخلہ کراچی کی طرح ممنوع ہوتا۔
نواب صاحب بہاولپور صادق محمد خان عباسی نے ریاست کا پاکستان سے الحاق کیا‘ قائد اعظم کی کراچی آمد پر اپنی رولز رائس کار گورنر جنرل کو استعمال کے لیے پیش کی اور اپنی ایک کوٹھی الشمس دان کی‘ مگر صلے میں آج تک کوئی بڑی شاہراہ‘ عمارت اور بیراج تک نواب صاحب سے منسوب نہیں ہوئی جبکہ لاہور میں سڑکیں‘ پل اور عمارتیں بعض ایسے ٹٹ پونجیوں سے موسوم ہیں جن کی قومی خدمات سے افراد خانہ واقف نہ محلے دار۔
قائد اعظم سولر انرجی پارک کی پیداوار سے مقامی ترقی و خوشحالی میں اضافے کے لیے وزیر اعلیٰ نے انڈسٹریل سٹیٹ کے قیام کا اعلان کیا جس کو نواب صاحب بہاولپور سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ دو صوبے قائم کرنے کا وعدہ نہیں ہونا چاہیے جسے الیکشن 2013ء کے بعد کسی نے دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ سرائیکی وسیب کے گونگے ارکان اسمبلی اور وزراء بھی خاموش ہیں جیسے اس معاملے سے ان کا لینا دینا کچھ نہیں۔ بہرحال سولر انرجی پارک اچھا آغاز ہے اور فریدؒ نگری کے باسیوں کے لیے حوصلہ افزا پیش رفت ؎
خوش تھی فریدا شاد ول
ڈکھڑیں کوں نہ کر یاد ول
اجھو تھیم جھوک آباد ول
ایہا نیں نہ وہسی ہِک منٹری