نوافِل شکرانہ

عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ہو سکے تو صلوٰۃِ شکر کا اہتمام کریں کہ سانحہ ماڈل ٹائون پر بننے والی جے آئی ٹی نے سولہ سترہ افراد کی شہادت کا ذمہ دار ایس پی علی سلمان اور ان کے ماتحت اہلکاروں کو ٹھہرایا‘ سارا ملبہ منہاج القرآن اور تحریک پر نہیں ڈال دیا۔؎
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
سانحہ ماڈل ٹائون حالیہ سیاسی تاریخ کا المناک اور شرمناک باب تھا۔ ریاستی طاقت ایک سیاسی اور مذہبی جماعت کے پرامن کارکنوں کے خلاف استعمال ہوئی۔ پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ سو فیصد درست تسلیم کر لیا جائے کہ اس نے ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ادارے پر کریک ڈائون کی ہدایت کی تھی نہ وزیر اعلیٰ یا ان کے کسی قریبی ساتھی نے پولیس و انتظامیہ کے غیر قانونی غیر تحریری احکامات کی مزاحمت کرنے والے ہجوم پر گولی چلانے کا حکم دیا‘ تب بھی یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پولیس نے رات گئے دھاوا بولا‘ انتظامیہ کے تحریری احکامات طلب کرنے پر دھونس جمائی اور کئی گھنٹے تک بحث مباحثے کے بعد بھی واپسی کی راہ لینے کے بجائے اس وقت کا انتظار کیا جب ہجوم بڑھے‘ اشتعال پھیلے ‘ بے قابو کارکن پاکستانی مزاج کے مطابق پولیس سے ہاتھا پائی پر اتریں اور اسے گولی چلانے‘ لاشیں گرانے کا نادر موقع ملے۔
سانحہ ماڈل ٹائون کا پورا منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کیا۔ عوامی تحریک کے کتنے کارکن مسلح تھے؟ کس کس نے پولیس پر گولی چلائی ؟ اور کتنے پولیس اہلکار کارکنوں کی گولی سے زخمی یا شہید ہوئے؟ آج تک حکومت اور پولیس کی طرف سے کوئی شہادت پیش نہیں کی جا سکی۔ البتہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے احکامات پر قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن نے اس سانحہ کا ذمہ دار حکومت پنجاب‘ سرکاری انتظامیہ اور پولیس کو ٹھہرایا تھا۔ لیکن یہ رپورٹ آج تک باضابطہ طور پر منظر عام پر نہیں آئی‘ البتہ جے آئی ٹی نے جسٹس نجفی کی رپورٹ کے بالکل برعکس رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں ایس پی علی سلمان اور اس کے آٹھ دیگر ساتھیوں کو گولی چلانے کا مرتکب قرار دیا گیا مگر قصور وار علی سلمان بھی نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عوامی تحریک کے کارکنوں کے ہاتھوں ایک پولیس اہلکار کی شہادت کی اطلاع پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا۔
کسی بھی انصاف پسند اور غیر جانبدار شخص کی یہ رائے ہے‘ نہ اس پر اصرار کہ گولی چلانے کا حکم لازماً میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف نے دیا تھا۔ دونوں بھائیوں کی عمومی شہرت ایسی نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پولیس کے ایس پی‘ایس ایچ او اور اس سے بھی نچلے درجے کے ملازمین کو ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے کارکنوں سے کیا پرخاش تھی۔ انہیں اچانک رات اڑھائی بجے کیا سوجھی کہ وہ لائو لشکر لے کر ماڈل ٹائون میں ایک مذہبی تنظیم کے سیکرٹریٹ کے سامنے موجود تجاوزات ہٹانے چل پڑے۔ جبکہ یہ ذمہ داری ایل ڈی اے کی ہے اور اس نے یہ کام کبھی رات گئے انجام نہیں دیا۔شاد باغ میں گھر جلتا رہا‘ چھ بچے چیختے چلاتے رہے‘ پولیس‘ فائربریگیڈ‘ ریسکیو 1122کوئی مدد کو نہیں آیا۔ یہ سرکاری اداروں کا عمومی رویہ ہے مگر ماڈل ٹائون؟
ایل ڈی اے کے اہلکار جب کبھی مارکیٹوں اور محلوں میں تجاوزات ہٹانے جاتے ہیں تو مزاحمت پر کبھی پولیس گولی چلانے پر بضد نہیں ہوتی۔ واپس آ کر نئے احکامات کا انتظار کرتی ہے مورچہ لگا کرنہیں بیٹھ جاتی۔ عموماً مارکیٹ کی تنظیم اور محلے کے بااثر افراد کا تعاون حاصل کیا جاتا ہے اور پُرامن انداز میں یہ کارروائی پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔ مقصد تجاوزات کا خاتمہ ہوتا ہے کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں۔ پولیس بھی پاگلوں کا ٹولہ نہیں کہ موقع ملتے ہی فائر کھول دے اور کسی بے گناہ کو خواہ وہ آمادۂ مزاحمت ہی کیوں نہ ہو‘ جان سے مار کر اپنی آتش انتقام بجھائے۔
ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے سامنے رکاوٹیں عرصہ دراز سے موجود تھیں اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھیوں نے جو دستاویزات صحافیوں کو دکھائیں ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ماڈل ٹائون پولیس کی اجازت سے یہ حفاظتی انتظامات کیے گئے مقامی پولیس و انتظامیہ کے اہلکار ان رکاوٹوں کو ہٹانے پہنچے تو منہاج القرآن انتظامیہ نے تحریری احکامات طلب کئے اور اپنے پاس موجود قانونی احکامات دکھائے مگر اصرار یہ تھا کہ اوپر کے حکم پر یہ تجاوزات ہٹا کر ہی ہم واپس جائیں گے۔یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے محض دو روز گزرے تھے اور ڈاکٹر طاہر القادری پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق کینیڈا سے لاہور واپس آنے والے تھے۔ اس بناء پر تاثر پھیلا کہ وفاقی اور پنجاب حکومت طاہر القادری کی وطن واپسی سے خائف ہے اور اس تاثر کو تقویت سانحہ ماڈل ٹائون کے علاوہ 23مئی کو ان کا جہاز ڈائیورٹ کر کے خود حکومت نے پہنچائی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق سترہ افراد کی شہادت کے سانحہ میں آئی جی‘ ڈی آئی جی اور دیگر پولیس افسران ملوث ہیں نہ ان کے سیاسی باس اور نہ یہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی کو دوران سماعت ان حقائق تک رسائی نہ ملی ہو جو جے آئی ٹی کے علم میں آئے مگر سوال یہ ہے کہ ایس پی علی سلمان اور ان کے ساتھی ایک پولیس اہلکار کی شہادت کی خبر پر اس قدر بے قابو کیسے ہو گئے کہ ایک نہ دو سولہ سترہ افراد کو شہید کر ڈالا اور زخمیوں کی تعداد پچاسی سے بڑھ گئی جن میں سے کئی اپاہج ہیں۔کیا ایس پی سطح کے افسر اور اس کے ساتھ آٹھ اہلکاروں کو لامحدود اختیارات ہوتے ہیں اور جب وہ گولی چلانا شروع کریں تو انہیں کوئی افسر قتل عام سے روک نہیں سکتا۔ کیا پہلی گولی چلنے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز اور دیگر افسران بھنگ پی کر سو گئے اور کسی کو ہوش نہ رہی کہ جیتے جاگتے انسانوں پر گولی چل رہی ہے وہ اپنے ماتحتوں کو روکیں یا وہ بھی طاہر القادری کے پیرو کاروں کو یاد گار سبق سکھانے میں علی سلمان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔
وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے دس سوا دس بجے پولیس کو پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیا اور یہ حکم ڈی آئی جی آپریشنز تک پہنچا ‘ مگر ساڑھے دس گیارہ بجے کے درمیان گولی چل گئی وزیر اعلیٰ اور ان کے معتمد وزیر کے احکامات سے روگردانی کس نے کیوں کی؟ اور انہیں روگردانی پر آمادہ کرنے کا جذبہ محرکہ کس نے بیدار کیا؟۔ نجفی کمشن رپورٹ میں ان سوالات کا جواب موجود ہے مگر جے آئی ٹی رپورٹ نے حکومتی عہدیداروں کے علاوہ پولیس افسران کو بھی کلین چٹ دیدی ہے اور پھندا نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کے گلے میں فٹ کر دیا ہے۔ علی سلمان بھی اگر مفرور نہ ہوتے تو شاید جے آئی ٹی رپورٹ میں بے قصور ٹھہرائے جاتے۔
بھٹو کیس سے سبق حاصل کرتے ہوئے پنجاب کے حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹائون پر جے آئی ٹی بنائی اور دوران اقتدار کلین چٹ حاصل کر لی۔طاہر القادری اور ان کے خوش فہم ساتھیوں نے بھی ان کی مدد کی کہ ایف آئی آر میں وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت کے نصف درجن سے زائد عہدیداروں کا نام شامل کر دیا۔ یہ تک نہیں سوچا کہ ملزموں کی تعداد میں اضافہ کیس کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مگر وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ‘ وفاقی اور صوبائی وزراء کے ساتھ پولیس و انتظامیہ کے بااختیار افسروں کو بھی مکھن سے بال کی طرح نکال کرجوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سارا معاملہ مشکوک کر دیا ہے۔ حکومت اورپولیس کو بری الذمہ قرار دینا تقاضائے مصلحت تھا تو یہ سترہ بے گناہوں کے قتل کا ملبہ طاہر القادری اور ان کے قریبی ساتھیوں پر ڈال دیتے کم از کم لواحقین کو اپنے پیاروں کے اصل قاتلوں کا پتہ تو چل جاتا اور یارلوگوں کو سازشی تھیوری پروان چڑھانے کا موقع ملتا۔
اس سانحہ کے دوسرے دن گورنر ہائوس میں اتفاقیہ ملاقات کے دوران چودھری محمد سرورکا ردعمل معلوم کیا تو بولے''شہباز صاحب اس واقعہ سے لاعلمی کا حلفیہ دعویٰ کرتے ہیں‘‘ کل رانا ثناء اللہ نے بھی یہی کہا ہے''اللہ گواہ ہے کہ شہباز شریف اور مجھے کوئی خبر نہ تھی‘‘ مگر کیا یہ گڈ گورننس کی نفی اور انتہا درجے کی غفلت و بے حسی نہیں کہ پولیس آٹھ نو گھنٹے سے مورچہ زن ہے‘ الیکٹرانک میڈیا لمحہ بہ لمحہ آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہے ۔ آنسو گیس کے بعد سیدھی فائرنگ جاری ہے مگر فیصلہ سازوں کو کچھ علم ہی نہیں ؎
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
طاہر القادری اور ان کے ساتھی شکرانے کے نوافل ادا کریں قتل عمد‘ بلوہ اور ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب قرار نہیں پائے ع
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں