اے پی سی ڈرامہ

اقتصادی راہداری پر ایک اور آل پارٹیزکانفرنس میں سیاسی پارٹیوں نے روٹ پر اتفاق رائے کیا ہے‘ مگر کیا وہ اس یقین دہانی پر قائم بھی رہتی ہیں‘ کچھ کہنا مشکل اور قبل از وقت ہے۔
ملک میں آل پارٹیز کانفرنس کی بدعت جونیجو دور میں شروع ہوئی۔ سوویت یونین سے گٹھ جوڑ کے بعد امریکہ افغان جنگ کا خاتمہ اس انداز میں چاہتا تھا کہ مدمقابل سپر پاور کو باعزت پسپائی کا موقع ملے‘ امریکہ کی جیت کا تاثر ابھرے اور جنگ زدہ افغانستان میں اس کے طویل المدت مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم ہو‘ جو اس کے اشاروں پر ناچے۔ اس جنگ کے ایک فریق کے طور پر افغان مجاہدین اور پاک فوج و آئی ایس آئی کی قیادت کا اصرار تھا کہ پہلے افغانستان میں وسیع البنیاد اور مضبوط حکومت قائم ہو پھر روسی فوج کا انخلا اور بالآخر عام انتخابات کے ذریعے نمائندہ حکومت کا قیام‘ تاکہ افغان عوام کے مصائب ختم ہوں اور ایک مستحکم و پائیدار نظام حکومت وجود میں آ سکے۔
امریکہ نے پاکستان کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور ان کے بعض ساتھیوں کو قائل کیا اور جنیوا کانفرنس میں طے پانے والے معاملات پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپی۔ جونیجو صاحب نے جب دیکھا کہ جنرل ضیاء الحق جنیوا معاہدے پر عملدرآمد میں رکاٹ بن رہے ہیں‘ تو انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور دیگر جماعتوں کے اتفاق رائے سے جنیوا معاہدے پر عملدرآمد کا مینڈیٹ حاصل کر لیا۔ یہ اے پی سی جونیجو صاحب کی حکومت اور افغانستان میں پائیدار قیام امن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے دور حکمرانی میں اتنی زیادہ آل پارٹیز کانفرنسیں ہوئیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے کسی اے پی سی میں اتفاق رائے کے بعد صدق دل سے فیصلوں کی پاسداری کی ہو۔ سانحہ پشاور کے بعد ہونے والی اے پی سی کی روشنی میں نیشنل ایکشن پلان بنا‘ آپریشن ضرب عضب کا دائرہ وسیع ہوا اور یوں نظر آنے لگا کہ پوری قوم یک جان دو قالب ہے۔ مگر اس وقت قومی اتفاق رائے کی کیا کیفیت ہے؟ اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کس خوش اسلوبی سے جاری ہے؟ دل کے خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
نیکٹا کی عدم فعالیت اور فنڈز کی فراہمی میں رکاوٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن تو درکنار خود حکومت بھی اس معاملے میں یکسو اور سنجیدہ نہیں‘ ورنہ سکول سانحہ کے حوالے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے فوری بعد وزیر اعظم نواز شریف اپنے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے ساتھ بول چال بند نہ کرتے اور وزیر داخلہ کو اپنی ہی حکومت اور اپنے وزیر اعظم سے شکایت پیدا نہ ہوتی کہ ہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کے ضمن میں ان کی سنی جاتی ہے‘ نہ انہیں فری ہینڈ دیا جاتا ہے۔
اکنامک کاریڈور کا منصوبہ آزمودہ دوست چین کا برین چائلڈ ہے۔ وہی پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے اور مغربی راہداری اس کی رضامندی سے تعمیر ہو گی مگر ہماری اے این پی جیسی قوم پرست جماعتوں نے اسے متنازع بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجاب کی ترقی و خوشحالی اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کو پسماندہ رکھنے کے لیے موجودہ حکومت اپنی مرضی کی جی ٹی روڈ تعمیر کرنا چاہتی ہے‘ جو چھوٹے صوبوں کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ اسفند یار ولی خان اور ان کے سندھی و بلوچی ہمنوائوں نے اس منصوبے کو کالا باغ ڈیم بنانے کی دھمکیاں دے کر حکومت پر دبائو بڑھا دیا اور حکومت نے اپنے اتحادیوں کو راضی کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا سہارا لیا جو اس کی کمزوری کو آشکار کرتا ہے۔
کسی قومی اور بین الاقوامی ایشو پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنے میں حرج ہے نہ مختلف الخیال قوتوں کو ایک میز پر بٹھا کر تبادلہ خیال میں کوئی مضائقہ‘ لیکن سرمایہ کاری کے ایک ایسے منصوبے پر اے پی سی بلانا‘ جس میں کوئی دوست ملک شریک ہو اور جس سے ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کو فیض پہنچ سکتا ہے‘ پرلے درجے کی بے تدبیری ہے۔ یمن مسئلہ پر پارلیمنٹ کی قرارداد سے حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر ہر اہم فیصلہ سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر کرنا ہے تو انتخاب‘ پارلیمنٹ‘ حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کی کیا ضرورت ہے۔ عوام سے نمائندگی کی سند حاصل کرنے اور پارلیمنٹ‘ وفاقی و صوبائی حکومتوں پر قومی وسائل ضائع کرنا کتنے نوافل کا ثواب ہے۔ ہر معاملہ قومی‘ صوبائی‘ ضلع اور تحصیل کی سطح پر کل جماعتی کانفرنس بلا کر بآسانی طے کیا جا سکتا ہے وقت بھی کم ضائع ہو گا اور وسائل کی بچت بھی ہو گی۔
افغانستان اور اس طرح کے دیگر ممالک میں وارڈ لارڈز اور مافیاز اچانک راتوں رات وجود میں نہیں آئے۔ حکومت کی رٹ کمزور ہوتی گئی۔ قوت فیصلہ کی کمی کی وجہ سے حکمران‘ طاقتور طبقات کے سامنے دبتے چلے گئے‘ ہر قومی معاملہ متنازع ہوتا چلا گیا اور حکومت ملکی مفاد کے معاملات اپنے مینڈیٹ اور ریاستی طاقت و اختیار کے بل بوتے پر طے کرنے کے بجائے ان طاقتور گروہوں کی مرضی اور منشا کے مطابق نمٹانے پر مجبور نظر آنے لگی‘ ایک وقت ایسا آیا کہ منت سماجت اور سیاسی رشوت کا حربہ بھی ناکام ہو گیا اور طاقتور گروہ من مانی کرنے لگے۔ عوام نے حکومت کو بے بس پایا تو ان گروہوں کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔
دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ڈیموں اور شاہراہوں کی تعمیر‘ توانائی کے منصوبے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو پارلیمنٹ سے باہر بلا کر اتفاق رائے حاصل نہیں کیا جاتا۔ پارلیمنٹ میں حکومت اپنا موقف اور منصوبہ پیش کرتی ہے اپوزیشن حسب عادت مخالفت کرتی ہے رائے شماری کی نوبت آتی ہے‘ اکثریت کی بنیاد پر حکومت رائے شماری میں اپنا موقف منوا لیتی ہے اور اپوزیشن کو پھر بھی تحفظات ہوں تو وہ واک آئوٹ کر جاتی ہے مگر حکومت پارلیمنٹ سے مینڈیٹ حاصل کر کے اپنا کام جاری رکھتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت نے اپوزیشن کے ویٹو یا اس کی مخالفت کی بنا پر قومی مفاد کا کوئی منصوبہ اور فیصلہ واپس لیا ہو۔
یہ تو خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ روز اے پی سی میں تمام جماعتوں نے اقتصادی راہداری کے منصوبے پر صاد کر دیا۔ پیپلز پارٹی، اے این پی، پیپلز پارٹی اور سندھ، بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے کوئی کھنڈت نہیں ڈالی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ اتفاق رائے کی نوبت نہ آتی بعض جماعتیں اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹی رہتیں تو کیا حکومت یہ منصوبہ ترک کر دیتی یا ان کی مرضی کے مطابق روٹ تبدیل کر دیا جاتا؟ چین سے ہونے والی مفاہمت کو پس پشت ڈال دیا جاتا؟ کیا یہ عقلمندی ہوتی اور تقاضائے حب الوطنی؟ اب بھی اگر کسی نے اپنا موقف بدل لیا نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز کا نعرہ لگا دیا تو کیا نئی اے پی سی بلائی جائے گی؟
واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک نے خان عبدالولی خان مرحوم اور ان کے ساتھیوں کو کالا باغ ڈیم پر مربوط و مضبوط بریفنگ دی ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا حتیٰ کہ کسی کے پاس کوئی سوال نہ رہا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور شمس الملک خوش کہ اب اے این پی کالا باغ ڈیم کی مخالفت ترک کر دے گی مگر بریفنگ کے اختتام پر مرحوم ولی خان نے کہا شمس الملک صاحب کالا باغ ڈیم واقعی پاکستان اور خیبر پختونخوا کے مفاد میں ہے اور ہمارے تحفظات آپ نے دور کر دیے مگر باہر جا کر ہم پھر بھی مخالفت ہی کریں گے کیونکہ ہمارا سیاسی مفاد اسی میں ہے۔ سب ماہرین اس پر متفق ہیں کہ کالا باغ ڈیم بن جاتا تو 2010ء کا سیلاب خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں ہرگز تباہی نہ مچاتا۔
میاں نواز شریف نے بار بار اے پی سی بلا کر اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں کی سودے بازی پوزیشن مضبوط اور اپنی حکومت کمزور کر لی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ حقیقی اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کی تو کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں مگر قومی مفاد کے منصوبوں میں روڑے اٹکانے اور پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان کرنے والی اپوزیشن کے نخرے اٹھاتے ہیں جو جمہوریت نہیں شاہانہ انداز ہے۔ گاہے بہ سلامے برنجند و گاہے بہ دشنامے خلعت بہ بخشند (کبھی سلام کہنے پر بھی ناراض اور کبھی تلخ ترش سن کر بخششیں دینے پر تیار) ۔
سب جانتے ہیں کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر‘ اقتصادی راہداری اور چینی سرمایہ کاری پر کون ناراض ہے؟ اور کس انداز میں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا کیا سازشیں جاری ہیں۔ اے پی سی کے باوجود یہ ریشہ دوانیاں جاری رہیں گی۔ فاروق ستار نے کراچی کے لیے دو ارب ڈالر مانگ لیے ہیں جو عجیب مطالبہ ہے۔ چین کے حکمران اور سرمایہ کار ڈالر بانٹنے نہیں بعض منصوبے مکمل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ڈالر یوں بٹنے لگے تو کہاں کے بجلی گھر اور کہاں کا اقتصادی روٹ۔ بس بندر بانٹ ہی ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں