خیرات کا آغاز گھر سے

احتساب کے بغیر چارہ ہے نہ گزارا مگر احتساب کا ذکر ہو تو ہماری پیاری جمہوریت کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان آگے بڑھے تو کیسے؟چین کا سکیورٹی چیف اور سابق ایرانی صدر رفسنجانی کا صاحبزادہ سزا یاب ہو سکتا ہے تو پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں؟
ڈی جی رینجرز کے پیش کردہ اعداد و شمار سر آنکھوں پر۔ بھتے ‘ قبضے‘ آب فروشی اور ایرانی ڈیزل کی غیر قانونی سمگلنگ کے ذریعے ممکن ہے230ارب روپے سے بھی کہیں زیادہ رقم بٹور کر قاتلوں‘ تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی مالی مدد کی جاتی ہو۔ پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں باڑ ہی کھیت کو چر رہی ہے ، دودھ کی رکھوالی پر باگڑ بلّے مامور ہیں مگر اصل ایشو کرپشن اور لوٹ مار کی نشاندہی اور اعداد و شمار کا افشا نہیں مجرموں اور ان کے سرپرستوں کی سرکوبی ہے جس میں رینجرز اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے ذمہ دار دیگر ادارے تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔
ہماری فوجی قیادت اور کراچی میں آپریشن کی ذمہ دار رینجرز تلخ تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ جب تک دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مالی آکسیجن فراہم کرنے والے افراد‘ گروہوں اور ان کے سرپرستوں کا قلع قمع نہیں ہوتا نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی مشکوک ہے جبکہ عام شہری روز اول سے یہ بات جانتا تھا اوراس بناء پر پاکستان میں ہمیشہ یہ مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ چور نہیں چور کی ماں کومارو۔مگر یہاں ہر فائیو سٹار چور اور وائٹ کالرمجرم جیل میں بیٹھ کر بھی ان مراعات کا مستحق ٹھہرا جو کسی شریف‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ محب وطن اور قانون پسند شہری کو برسوں کی محنت اور ریاضت کے بعد بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہیں۔
نام کیا لینا ‘اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ سرکاری ملازمتوں کی فروخت‘ قومی خزانے کی لوٹ مار‘ کمشن ‘کک بیکس کے ذریعے اربوں روپے ہتھیانے والے مجرم اڈیالہ جیل‘ کوٹ لکھپت جیل‘ اور سنٹرل جیل میں جس سج دھج سے رہے اور سرکاری وسائل سے ان کی جو خدمت تواضع ہوتی رہی، اس کا خواب ملک کی کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر اور شاید محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی کبھی نہ دیکھا ہو۔ جتنی دولت لوٹنے کے عوض ایسے لوگوں نے جیل کاٹی اس کا ایک چوتھائی لے کر ہر شخص ساری عمر جیل میں گزارنے پر تیار ہے۔
ان مجرموں کو یہ سہولت صرف اس لیے حاصل رہی کہ انہوں نے سیاست کی آڑ میں جرم کا بازار گرم کئے رکھا اور جب پکڑے گئے تو ان کے چمچے کڑچھے‘ وظیفہ خوار‘ اور ہر بدی ‘ برائی کا کوئی نہ کوئی عقلی جواز پیش کرنے والے دانشور‘ تجزیہ نگار اور قلمکار میدان میں اترے اور اتنی زیادہ سینہ کوبی کی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پسپائی پر مجبور ہو گئے۔اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کے احکامات پر کوئی باشعور شخص اس وقت تک اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں جب تک نامزد بیس اہم شخصیات کے علاوہ ان کے مددگار و معاون بھی دوسرے مجرموں کی طرح فوجی عدالتوں سے سزا یاب نہیں ہوتے۔
پاکستانی عوام دودھ کے جلے ہیں، چھاچھ بھی پھونک پھونک کرپینے پر مجبور۔ 1990ئسے وہ ایسے آپریشن‘ ایکشن اور پھر معافی تلافی و مفاہمت کا نظارہ کر رہے ہیں۔ اب بھی فوجی قیادت کی نیک نیتی ‘ پختہ عزم اور جمہوری حکومت کی یکسوئی کے بارے میں بدگماں نہ ہونے کے باوجود انہیں شک ہے کہ جس طرح سندھ کے حکمرانوں اور مرکز میں ان کے سرپرستوں کی نرمی‘ اندرونی خوف‘ شک و شبے کی بنا پر مجرم دندنا رہے ہیں اور آپریشن میں شریک پولیس ورینجرز کے اہلکاروں‘ افسروں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس طرح آئندہ بھی شایدفریب کار اپنے گماشتوں کی حفاظت میں کامیاب رہیں اور سیاست و جرم کو الگ الگ کرنے کی خواہش محض معصوم خواہش ہی رہے، حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔
اس بدگمانی کا سبب یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے جو خود ناقابل معافی سنگین جرائم میں پولیس اور رینجرز کو مطلوب ہیں۔ 1988ئسے اب تک خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے،اس کے ذمہ داروں کا ہر ایک کو علم ہے۔ اس عرصے میںیہی لوگ اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے اور اپنے اپنے مجرموں کے ذریعے لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم رکھا۔ یہ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک منتقل ہوتی رہی مگر مجال ہے کہ کسی نے ان سے تعرض کیا ہو۔ اب بھی ایان علی محض اس بنا پر جیل میں نخرے دکھا رہی ہے کہ اس کے سرپرست طاقتور ہیں ۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والا ایک اعلیٰ پائے کا وکیل جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر بھی رہ چکا ہے، ماتحت عدالت میں ایان علی کا دفاع کر رہا ہے تو کیا یہ محض اچھی فیس کا کرشمہ ہے ؟اور پیپلز پارٹی میں مالی لحاظ سے صاف ستھرے کردار کا شخص اعتزاز احسن مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر 230کے عدد پر اعتراض کرتا ہے تو یہ قانونی موشگافی ہے؟ اعتراض برائے اعتراض ؟یا اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کے سرپرستوںکو بچانے کی تدبیر جن کے نام ڈی جی رینجرز نے حکومت کے سامنے رکھے تو اسلام آباد سے لے کر کراچی تک ہاہا کار مچ گئی۔
پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن اس وقت تک سوفیصد کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتا جب تک دہشت گردی کے ساتھ کرپشن اورقانون شکنی کا قلع قمع ترجیح قرار نہیں پاتا۔ یہ تینوںایک دوسرے کی جڑواں بہنیں ہیں، انہیں ایک ہی لاٹھی سے ہانکے بغیر کسی سطح پر قیام امن ممکن ہے نہ دہشت گردی کاکا مل خاتمہ ۔رینجرز نے جڑ تلاش کر لی ہے، اب اسے تلف کرنا فوجی قیادت اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دہشت گردوں کے سرپرست پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، حکومت میں یا کسی سرکاری ادارے میں پناہ گزین جب تک انہیں مکوڑوں کی طرح بلوں سے نکال کر اس بے رحمی سے کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا جس طرح یہ بے گناہ اور معصوم شہریوں، بچوں اور عورتوں سے پیش آتے ہیں کراچی آپریشن کی کامیابی مشکوک ہے۔مکمل کامیابی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا‘ ایمرجنسی کا نفاذ‘ گورنر راج یا شاید اس سے بھی بڑھ کر۔ یہ ملک بچانے کا سوال ہے۔
چودھری نثار علی خان کا اللہ بھلا کرے انہوں نے ایسی ملک دشمن این جی اوز پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کیا ہے جو غیر ملکی‘ پاکستان دشمن ایجنڈے کے تحت ایسے تمام جرائم اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتی اور پروپیگنڈے کا طوفان اٹھاتی ہیں جن کی وجہ سے ایک پرامن ریاست وحشیوں کا باڑہ بن چکی ہے اور جہاں کسی کی جان و مال محفوظ ہے نہ عزت و حرمت‘ اگر کراچی اور بلوچستان میں طاقتور مجرموں اور ان کے سرپرستوں کی سرکوبی سے پہلے ان پروپیگنڈا بازوں کی زبان بندی نہ ہوئی اور پاکستان اور فوج کے ہر اچھے اقدام کی مخالفت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھنے والے سوڈو انٹلیکچوئلز کو اپنا فرض حب الوطنی کے جذبے سے ادا کرنے پر مجبور نہ کیا گیا تو وہ شام غریباں برپا ہو گی کہ ریاست اور اس کے اداروں کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
اسلام آباد‘ کراچی اورکوئٹہ کے اعلیٰ ایوانو ں میں براجمان وہ عناصر جواب تک دہشت گردوں کوآکسیجن فراہم کرتے اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں ڈی جی رینجرزکے بیان سے پریشان ضرور ہیں مگر ہراساں ہرگزنہیں ۔اب بھی وہ مفاہمتی سیاست کو اپنی ڈھال سمجھتے ہیں اور بچنے کی پوری امید رکھتے ہیں۔ اگر موجودہ فوجی قیادت واقعی بلا امتیاز احتساب چاہتی ہے جس کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں تو پھر اسے آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہیے۔ اصغر خان کیس‘ ریلوے‘ این ایل سی اورلوٹ مار کے دیگر مقدمات میں ملوث سابق جرنیلوںکو اگر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سیاست کے نام پر سنگین جرائم کے مرتکب افراد پر ہاتھ ڈالا جائے تو پوری قوم اس بلا امتیازاحتسابی کارروائی کی پشت پر ہو گی اور کسی کو منفی پروپیگنڈے کی جرأت شاید نہ ہو۔جنرل راحیل شریف یہ کر سکتے ہیں۔
چار چھ بندگان خاکی کی قربانی دے کر اگر ملک و قوم کو سیاست کے ان مگرمچھوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے، جنہیں لوٹ مار‘ قانون شکنی‘ دہشت گردوں‘ قاتلوں کی سرپرستی اور اندرون و بیرون اثاثوں و اکائونٹس میں اضافے کے سوا کوئی کام آتا ہے نہ کبھی اس مظلوم و بے بس دھرتی اور اس پر بسنے والے کیڑے مکوڑوں المعروف عوام پر رحم ‘تو یہ احسان عظیم ہو گا۔ بیس افراد کے ساتھ یہ چھ سات لوگ بھی ہتھکڑیوں میں قوم کے سامنے لائے جائیں تو سمجھو قوم کی تقدیر بدل گئی ؎
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں