بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے

سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے یہ توقع نہ تھی۔ بجلی چور اور کروڑوں کے نادہندگان قومی مجرم ہیں۔ ان بے شرم نادہندگان کی وجہ سے پوری قوم لوڈشیڈنگ کی اذیت میں مبتلا ہے مگر سردار ایاز صادق نے وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف کو ان کے نام افشا کرنے سے روک دیا۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ یہ معززین ''باشعور عوام‘‘ کے منتخب نمائندے ہیں اور ناموں کے افشا سے ان کا استحقاق مجروح ہو گا ‘ یہ شور شرابے سے ایوان کا ماحول خراب کر دیں گے۔
پاکستان میں چھوٹے جرائم قابل گرفت ہیں۔ بینکوں‘ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ پانی‘ بجلی‘ گیس‘ انکم ٹیکس کے محکموں اور دوسرے چھوٹے موٹے اداروں کے نادہندگان گردن زدنی ہیں۔ جون کے اختتام پر ان کاشتکاروں کی کم بختی آ جائے گی جنہوں نے زرعی ترقیاتی بنک سے دس بیس ہزار روپے کا قرضہ لیا ہو گا یا جن کے ذمے آبیانے تقاوی کے واجبات ہوں گے‘ انہیں تھوک کے حساب سے پکڑ کر تحصیلدار کی جیل اور تھانوں میں بند کر دیا جائے گا بسا اوقات ایسے بے گناہ کسان بھی گرفتار ہو جاتے ہیں جو بروقت ادائیگی تو کر چکے ہوتے ہیں مگر بنک اور محکمے کے کسی بدعنوان و نااہل اہلکار نے اندراج میں ہیرا پھیری یا غفلت کی ہوتی ہے۔
چند روز قبل میں ایک سرکاری ادارے کی طرف سے اخبار میں شائع شدہ نادہندگان کی فہرست پڑھ رہا تھا جن میں سے بعض لاکھوں نہیں ہزاروں روپے کے نادہندہ تھے۔ کوئی کلرک‘ نائب قاصد یا چھوٹا اہلکار طویل غیر حاضری‘ بے ضابطگی یا مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پایا جائے تو اظہار وجوہ کا نوٹس تصویر کے ساتھ اخبارات میں شائع کرایا جاتا ہے مگر حکمرانوں کے چہیتے سیکرٹری‘ ڈائریکٹر اور دیگر اعلیٰ افسر کروڑوں روپے غبن کر لیں‘ بے ضابطگی اور اعانت مجرمانہ کے مرتکب ہوں‘ این جی اوز میں نوکریاں کر لیں‘یا ملک گیر شہرت کے سیاستدان‘ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر سرکاری خزانے کے اربوں روپے ہڑپ کر جائیں‘ محکمہ بجلی‘ گیس اور قومی بنکوں کو کنگال کر دیں‘ کروڑوں روپے کی بجلی چوری کریں اور نادہندگی کے مرتکب ہوں تو ان کا نام کسی اشتہار میں نہیں چھپتا۔ خواجہ آصف اگر اپنی اور اپنی وزارت کی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ایوان کو نام بتانا بھی چاہیں تو سپیکر روک دیتے ہیں۔
پاکستان میں مار دھاڑ ‘ لوٹ مار اور قومی اداروں کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ بڑے مجرموں کو ہمیشہ معزز‘ قابل احترام اور قانون کے لیے ناقابل رسائی سمجھا گیا۔ بکری چور کی پہلے گرفتاری کے وقت بوڑھے ماں باپ‘ بہن بھائیوں کے سامنے ‘ پھر حوالات میں چھترول ہوتی ہے مگر مہران بنک کو دیوالیہ اور کمرشل‘ زرعی و صنعتی بنکوں اور قومی مالیاتی اداروں کو کنگال کرنے والوں کی ہر جگہ آئو بھگت کا رواج ہے یہ اگر پکڑے بھی جائیں تو ان کو جیلوں میں سرکار کا داماد سمجھ کر شاہی پروٹوکول ملتا ہے اور جیلر ان کے قدموں میں بیٹھ کر فخر محسوس کرتا ہے۔
جس طرح کسی زمانے میں اٹلی اور میکسیکو مافیاز کے لیے جنت تھا اب پاکستان بھی شوگر مافیا‘ لینڈ مافیا‘ بھتہ مافیا‘ اغوا مافیا‘ سمگلنگ مافیا اور منشیات مافیا کے علاوہ نادہند مافیا کے لیے جنت ہے۔ کوئی بھی طاقتور شخص کسی سرکاری ادارے اور قومی بنک لوٹ کر یا غیر قانونی کاروبار سے کروڑوں اربوں کما کر کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہوتا‘ حرام کی کمائی پارٹی فنڈ اور قائد محترم کی جیب میں انڈیلتا اور ٹکٹ خرید کر کسی منتخب ایوان کا رکن بن جاتا ہے‘ اس کے بعد وہ کروڑوں کا نادہندہ ہو‘ کسی اغوا کار گروہ کا سرپرست یا بھتہ خوری میں ملوث اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا۔حتیٰ کہ بھارت سے مالی مدد اور تربیت کا الزام لگنے پر بھی کوئی پوچھ نہیں ہوتی۔
یہ صرف آج کی بات نہیں عرصہ دراز سے یہ تماشا جاری ہے۔ مہران بنک سکینڈل میں جو عزت مآب ملوث تھے ان کے نام سپریم کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ بنے۔ عدالت عظمیٰ نے اصغر خان کیس میں ان کے خلاف مقدمہ چلانے اور رقوم واپس لینے کی ہدایت کی مگر اڑھائی تین سال گزر گئے مقدمہ چلانا تو درکار ایف آئی اے نے تفتیش کا آغاز تک نہ کیا۔ ایک ماتحت ادارہ بھلا اپنے آقائوں کے خلاف تفتیش کر بھی کیسے سکتا ہے۔ نگران وزیر اعظم معین قریشی نے نادہندگان کی ایک ڈائریکٹری شائع کرائی تھی۔1997ء کے الیکشن میں بہت سے ڈیفالٹر آئینی و قانونی طور پر امیدوار بننے اور انتخاب لڑنے کے اہل نہ تھے مگر سردار فاروق احمد خان لغاری نے آرڈی نینس کے ذریعے یہ آئینی و قانونی رکاوٹ دور کر دی اور اس ''نیکی‘‘ کے عوض ایوان صدر سے بصد سامان رسوائی نکل آئے۔
یہ بجلی چور و نادہندگان اور ان کے سرپرست اپنی جگہ سچے ہیں؛ جب سٹیل ملز‘ ریلوے‘ پی آئی اے ‘ این آئی سی ایل سے اربوں بلکہ کھربوں روپے لوٹنے والوں کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا‘ کراچی کا لینڈ مافیا اب تک احتساب و مواخذے سے محفوظ ہے صولت مرزا کی طرح ممتاز زرداری‘ محمد علی شیخ‘ سلطان قمر صدیقی اور معظم علی کے اعترافی بیانات کی روشنی میں ایک بھی بڑے مگرمچھ پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ ایک ایک کر کے سارے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک جا رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔سانحہ ماڈل ٹائون کے کسی بڑے ملزم کو کوئی سزا ملی ہے نہ پی آئی سی میں ناقص ادویات سے قیمتوں جانوں کے ضیاع کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا تو پھر یہ معززین خواجہ آصف کے دبائو میں کیوں آئیں اور نادہندہ گرڈ سٹیشنوں کی بجلی کیوں بند کرنے دیں۔ یہ تو سراسر جمہوریت اور وفاق کے خلاف سازش اور صوبائی حقوق کی پامالی ہے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں چور اور چوکیدار مل چکے ہیں اور کوئی دوسرا اس ملی بھگت کا پردہ چاک کرے تو جمہوریت کا دشمن قرار پاتا ہے۔ خورشید شاہ اور ان کے ساتھیوں نے وفاق کو جھنجھوڑا مگر جب خواجہ آصف نے جواب دینا چاہا بلکہ بالفاظ دیگر پول کھولنا چاہا تو سپیکر آڑے آ گئے۔ اقتصادی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد و گروہوں کے خلاف موجودہ آپریشن میں رکاوٹ بھی یہی ملی بھگت ہے اور عام آدمی بھی اس آپریشن کے بارے میں تحفظات کا شکار اس بنا پر ہے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اسے ایک بار پھر کسی مُک مکا یا این آر او کا خدشہ ہے ۔
تاریخی کتابوں میں سلطان محمود غزنوی کا ایک واقعہ درج ہے جس کے مطابق دربار میں ایک اجنبی داخل ہوا اور اس نے سلطان سے ملاقات میں اپنی عرضداشت پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ سلطان نے سائل کو موقع دیا تو وہ بولا کہ آپ کا ایک بھانجا روزانہ میرے گھر آ کر زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے اور غزنی میں کوئی میری فریاد سننے والا نہیں۔ آپ سے ملنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی‘ اب کہیں جا کر رسائی ہوئی‘ انصاف کیجیے۔
بادشاہ نے سائل سے کہا کہ جب یہ نوجوان دوبارہ تمہارے گھر آئے تو مجھے خبر کرنا‘ میں خود اس نوجوان سے نمٹوں گا۔ اپنے دربان سے بھی کہہ دیا کہ جس وقت یہ سائل آئے مجھ سے ملوایا جائے۔ دو دن بعد ایک رات سائل پھر حاضر ہوا اور بتایا کہ وہ نوجوان میرے گھر میں گھس کر داد عیش دے رہا ہے۔ بادشاہ اس کے ہمراہ سائل کے گھر پہنچا‘ نوجوان بدستور موجود تھا۔ بادشاہ نے آنکھیں بند کر لیں اور کوئی سوال کیے بغیر خنجر سے اس کا سر قلم کر دیا۔ بعدازاں آنکھیں کھولیں‘ روشنی میں مقتول کا چہرہ دیکھا‘ الحمد للہ کہا اور پانی طلب کیا۔ سائل نے شکریہ ادا کرنے کے بعد باصرار پوچھا کہ بند آنکھوں سے وار کرنے‘ چہرہ دیکھ کر الحمد للہ کہنے اور پانی طلب کرنے کا مقصد کیا تھا۔ بادشاہ نے بتایا کہ میں نے آنکھیں اس لیے بند کر رکھی تھیں کہ کہیں بھانجھے کو دیکھ کر مجھے رحم نہ آئے۔ الحمد للہ اس لیے کہا کہ یہ میرا بھانجا نہ تھا اور پانی میں نے اس لیے طلب کیا کہ تمہاری شکایت سننے کے بعد میں نے اپنے اوپر کھانا پانی حرام کر رکھا تھا‘ اپنے فرض کی ادائیگی کے بعد شدید پیاس بجھائی۔
یہ واقعہ ہے یا افسانہ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر پاکستان کو اس وقت ایسے ہی کسی حکمران‘ منصف اور منتظم کی ضرورت ہے جو قانون کو واقعی اندھا سمجھے اور قانون کا کوڑا چلاتے وقت ہرگز یہ نہ دیکھے کہ ملزم اور مجرم کوئی سیاستدان ہے‘ بیورو کریٹ‘ صنعت کار ‘ سردار ‘ وڈیرہ‘ جج‘ جرنیل یا جرنلسٹ ۔ جس نے جرم کیا ہے اس کی سزا بھگتے اور محض اس بنا پر رعایت کا مستحق قرار نہ پائے کہ وہ موجودہ غریب دشمن‘ ظلم دوست نظام کی بیساکھی ہے اور یہ ٹوٹ گئی تو اسلامی جمہوریہ پاکستان اشرافیہ کی چراگاہ نہیں رہے گا۔ مظلوموں‘ بے کسوں‘ خاک نشینوں اور لاوارثوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ ع
بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے
بی بی سی کی ایم کیو ایم کے بارے میں تحقیقی خبر پر تبصرہ قرض رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں