چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ذہانت اور چابکدستی کا پروپیگنڈا اس قدر تواتر اور تکنیک سے ہوا کہ مخدوم جاوید ہاشمی جیسا جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ سیاست دان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور سابق صدر کو سیاست میں پی ایچ ڈی سمجھ بیٹھا۔ طویل جیل یاترا پر بزرگ صحافی مجید نظامی مرحوم نے بھی زرداری کو مرد حُر قرار دیا تھا۔
نظامی صاحب نے آخری دنوں میں خطاب یہ کہہ کر واپس لے لیا تھا کہ میں نے بہادری سے جیل کاٹنے پر مرد حر سمجھا تھا‘ کرپشن اور نا اہلی کے ریکارڈ قائم کرنے پر نہیں۔ فوج کے خلاف تازہ ترین اعلانِ جنگ پر ہاشمی صاحب یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ کہیں پی ایچ ڈی کی یہ ڈگری بھی ایگزیکٹ ٹائپ کسی ادارے کی عطا تو نہیں ورنہ بقائمی ہوش و حواس کوئی سیاستدان دہشت گردی کے خلاف حتمی جنگ لڑنے والی اپنی فوج کے خلاف کبھی یوں بولتا ہے۔
پاکستان میں سیاستدان اپنی جمہوری جدوجہد‘ لیاقت ‘ علم و دانش اور قابل رشک ذاتی کردار کی وجہ سے مرجع عقیدت نہیں بنتے بلکہ درحقیقت یہ مذہبی اورروحانی پیشوا ہیں جن کے کارکن اندھے مرید و معتقدین ہیں اور عہدیدار مجاور۔ ان پیر خانوں سے اختلاف کی گنجائش ہے نہ عہد جدید کے پیران ِ تسمہ پا کے روبرو کسی کو درست اور معقول بات کہنے کا یارا۔
ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے لیڈر کو خودکش جیکٹ پہنتے اور پاک فوج‘ رینجرز اور جنرل راحیل شریف پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر کسی نے روکا نہ بعدازاں اس بیان سے اظہار برأت کیا۔ الٹا سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اس بیان کی توثیق کر دی۔ اب پیپلز پارٹی کے مرد معقول قمر الزمان کائرہ کہتے ہیں کہ ''آصف علی زرداری کے ایک بیان پر طوفان برپا کر دیا گیا۔ نثار علی خان کو اپنی ادائوں پر غور کرنا چاہیے کہ مسلم لیگیوں نے کیا کیا نہیں کہا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ
گویا قصور وار مایوس کن اور جارحانہ بیان پر تنقید کرنے والے میاں نواز شریف سے لے کر چودھری شجاعت حسین اور نثار علی خان سے لے کر زرداری صاحب کے دوست خواجہ آصف تک‘ پیپلز پارٹی کے قائد معصوم عن الخطا ہیں کوئی غلطی ان سے سرزد ہو سکتی ہے نہ ان کی زبان پھسلنے کا کوئی اندیشہ ہے۔ سیاست اور پیری مریدی میں اتنا ہی فرق ہے کہ سیاستدان کی بات پر ان کے پیرو کار سوچ سمجھ کر، نفع نقصان کا اندازہ لگا کر سر دھنتے ہیں جبکہ پیری مریدی میں صرف آمنّا و صدّقنا چلتی ہے ؎
بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود ز راہ ورسم منزلہا
اگر پیر مغاں کہے تو جائے نماز شراب سے تر اور رنگین کر دو‘ کیونکہ پیشوا کبھی سلوک کی منزلوں کے رموز اور رسموں سے بے خبر نہیں ہو سکتا۔
قمر الزمان کائرہ نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو آئینہ دکھایا‘ بجا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کو فوجی آمروں کے ہاتھوں دکھ اٹھانے پڑے‘ کسی کو شک نہیں اور کرپشن سندھ و دیگر چھوٹے صوبوں کی طرح ‘ پنجاب میں بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب کیسے نکلا کہ زرداری صاحب نے ایان علی‘ ممتاز زرداری‘ سلطان قمر اور محمد علی شیخ کی گرفتاری‘ ترک خاتون اول کے ہار کی گمشدگی پرایکشن‘ کراچی میں سرکاری دفتروں پر چھاپوں اور بعض افسران کی گرفتاری اور دہشت گردوں کے مالی سہولت کاروں کے خلاف کریک ڈائون پر رینجرز کی تعریف کرنے کی بجائے اسے موردِ الزام ٹھہرانے اور فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنانے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی درست ہے۔
کوئی مانے نہ مانے مگر حقیقت یہ ہے کہ زرداری صاحب مایوسی کا شکار ہیں۔ اور تو اور بلاول بھٹو بھی ان کے اندازِ فکر سے متفق ہیں نہ ان کی پالیسیوں پر کاربند رہنے کے لیے تیار۔ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو انہیں انکلز کی مخالفت کا سامنا تھا۔ یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ زرداری صاحب اور اپنے انکلز کو نوجوان بلاول بھٹو چیلنج کر رہے ہیں اور بزرگوں کے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں۔ پانچ سالہ بے عملی‘ نالائقی اور کرپشن کا آخر کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ بھٹو کی مقبول عام پارٹی کی عام انتخابات کے علاوہ ضمنی انتخابات اور گلگت و بلتستان میں بدترین شکست پر کیسے پردہ ڈالا جا سکتا ہے؟ اور کراچی کی سونے کے بھائو بکنے کے قابل زمینوں کی کوڑیوں کے مول الاٹ منٹ اور فروخت کو بھلا کس طرح قانونی اور ریاستی مفاد میں قرار دیا جا سکتا ہے۔؟
کئی سال پیشتر سپریم کورٹ نے نعمت اللہ خان اور اردشیر کائوس جی کی درخواست پر پارکوں‘ کمیونٹی سنٹرز اور دیگر پبلک مقامات کی زمین من پسند افراد کو الاٹ کرنے کی کارروائی کو خلاف قانون قرار دیا۔ یہی رقبے فروخت ہو کر پیسے لیاری گینگ اور دیگر دہشت گرد و عسکری گروہوں کے کام آئے مگر 2008ء سے قائم علی شاہ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کسی کی الاٹ منٹ منسوخ کی نہ کوئی دوسری کارروائی ہوئی۔ البتہ چند ماہ پیشتر شرجیل میمن نے اس کورٹ آرڈر کا سہارا لے کر ایم کیو ایم کے لیڈروں کی ملکیت شادی گھر ضرور مسمار کیے جو دوبارہ تعمیر ہونے لگے ہیں۔
آپریشن کرنے والے اداروں کو احساس ہو گیا ہے کہ اگر اوپر سے نیچے تک ہر فرد‘ ادارے ‘ جماعت اور گروہ کا بلا امتیاز و تفریق احتساب نہ ہوا‘ دہشت گردوں اور دوسرے جرائم پیشہ عناصر کی مالی سپلائی لائن نہ کاٹی گئی تو کامیابی کی منزل دور سے دور ہوتی چلی جائے گی‘ اسی بناء پر اپیکس کمیٹی کی منظوری سے آپریشن کا دائرہ وسیع ہوا مگر پہلے ایم کیو ایم اور اب پیپلز پارٹی نے اس آپریشن کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے۔ زردای صاحب چاہتے یہ ہیں کہ الطاف حسین اور اسفند یار ولی خان کی طرح میاں نواز شریف بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور فوج کو اپنی حدود میں رہنے کی نصیحت کریں تاکہ وہ بدترین کرپشن اور لوٹ مار کی روک تھام کا معاملہ سیاستدانوں کے سپرد کر کے اس وقت کا انتظار کرے جب عوام الناس میں آپریشن ضرب عضب کی ناکامی کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور سیاستدانوں کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ ''ہم تو پہلے ہی کہتے تھے فوج کا یہ کام نہیں‘‘
اگر میاں صاحب اس پر تیار نہ ہوں اور میری ناقص رائے میں وہ تیار نہ ہوں گے ‘ کیونکہ وہ بھولے سہی مگر اتنے بھی نہیں کہ زرداری صاحب انہیں بہلا پھسلا کر بم کو لات مارنے پر مجبور کر سکیں تو پھر ''ہم تو ڈوبے ہیںصنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق اپوزیشن کی بعض جماعتوں کو ملا کر بلدیاتی انتخابات سے پہلے پہلے سیاسی محاذ آرائی کا بازار گرم کر دیا جائے تاکہ پیپلز پارٹی مزید کسی خفت سے بچ جائے ۔ فوج ایک بار پھر سیاست کی دلدل میں پھنس کر رہ جائے اور احتساب و مواخذہ کو سیاسی انتقام قراردے کر اپنے باقی ماندہ پیروکاروں بہ الفاظ دیگر مریدان با صفا اور سندھ کے باشعور ووٹروں کی نظروں میں ''شہید جمہوریت‘‘ کا مقام و مرتبہ حاصل کر لیا جائے۔ ع
رند کے رند رہے‘ ہاتھ سے جنت نہ گئی
کھایا پیا ہضم کرنے کے بعد عوام کی ناقص اور کمزوریادداشت کے طفیل ایک بار پھر اپنی جدوجہد‘ قربانیوں اور خدمات کا ڈھنڈورا پیٹ کر کسی تازہ دم جرنیل کی مہربانی سے اقتدار کے ایوانوں میں گھسنے کی واحد صورت یہی رہ گئی ہے لیکن کیا پیپلز پارٹی کے باقی سینئر رہنما اور نوجوان کارکن بھی اسے قابل عمل سمجھتے ہیں؟ اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا۔ اگر کلین سویپ کے خواہش مندوں نے ٹھوس اور موثر ہوم ورک کیا ہے تو وہ بلیک میلنگ کا شکار ہوئے بغیر آپریشن مزید تیز کریں گے‘ موجودہ اور سابق وزیروں کی گرفتاری میں تاخیر نہیں ہو گی جو کرپشن کے کوہ ہمالیہ اور اقتصادی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جمہوریت کبھی اور کہیں نالائقی ‘ نااہلی‘ لوٹ مار اور عوام دشمنی کا نام ہے نہ قومی اداروں کو بلیک کرنے کا موثر ہتھیار‘ یہ گڈ گورننس ‘ شفافیت ‘ قانون کی حکمرانی اور عوامی حقوق کی پاسداری کا فیض رساں نظام ہے جسے ''پاکستان برانڈ‘‘ جمہوریت میں محدب عدسے سے تلاش کرنا مشکل ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور ظلم و ناانصافی کا یہ نظام فائنل رائونڈ میں اپنی بقا کی جدوجہد کر رہا ہے مگر اس کے محافظوں کو عصری تقاضوں کا ادراک ہے نہ نوجوان نسل کی خواہشات و جذبات کا احساس‘ تبھی مایوس و مضطرب ہیں۔
لکھ رکھیے دیگر صوبوں اور جماعتوں کے لٹیروں اور وسائل خوروں کی باری بھی آنے والی ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور پاکستان میں بھی یکطرفہ احتساب کے دن لد گئے۔ اب شاید مواخذہ سے کوئی نہ بچ سکے کہ اسی میں ملک و قوم اور جمہوریت کی بقا ہے؎
میں آج زد پہ ہوں اگر تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے‘ ہوا کسی کی نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں