تمہارے سینوں میں دل تو ہو گا

صبح و شام چھاپے‘ دھڑا دھڑ گرفتاریاں‘ بلا امتیاز پر سش و تفتیش اور نت نئے انکشافات ؟ کیا واقعی اس ملک کے خاک نشینوں کی سنی گئی؟ احتساب اور تبدیلی کی ہوائیں چل پڑیں ؎
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہِ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں
اہل نفس کی صبح چمن میں کھلے گی آنکھ
باد صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں
ہے دشت اب بھی دشت مگر خونِ پا سے فیض
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں
کراچی میں اب تک جو گرفتاریاں ہوئیں‘ وہ حیران کن ہیں۔ مزید گرفتاریاں شاید ہوش ربا ہوں۔ احتساب کی تپش طاقت و اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں محسوس کی جا رہی ہے‘ اسی بنا پر شور و غوغا ہے۔ نئی صف بندی کی کوشش اور بلیک میلنگ کی دھمکی۔ اگر معاملہ اویس مظفر ٹپی اور فضل اللہ پیچو ہو سے پوچھ گچھ تک پہنچ گیا ہے تو پھر نالہ و فریاد قابل فہم ہے اور ایک لحاظ سے بجا بھی۔
پاکستان میں احتساب کا غلغلہ کئی بار بلند ہوا۔ ایوب خان‘ ضیاء الحق ‘ میاں نواز شریف اور پرویز مشرف نے یہ نعرہ لگا کر قوم کے جذبات سے کھیلا؛ لاقانونیت‘ کرپشن ‘ لوٹ کھسوٹ ‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کے ستائے عوام نے بلند توقعات وابستہ کیں۔ تحسین و تائید کی مگر چند ہفتوں‘ مہینوں بعد کھلا کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سنا افسانہ تھا
حکمرانوں نے اپنے سیاسی مخالفین اور ان کے چہیتے سرکاری ملازمین کو رگڑا لگا کر وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا اور پھرنتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔بعض سیاسی گروہ پاکستان پر اپنے اور اپنے قائدین کی جدوجہد اور قربانیوں کے احسانات جتلا کر لوٹ مار کی کھلی چھٹی مانگتے ہیں تو برصغیر کی سیاسی تاریخ کے طالب اپنا سر پیٹ کررہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں مولانا مودودی ‘ مولانا عبدالستار خان نیازی کو فوجی عدالتوں نے سزائے موت سنائی۔ عبدالغفار خان ‘ نوابزادہ نصراللہ‘ عبدالولی خان‘ عطاء اللہ مینگل اور دیگر رہنمائوں پر بغاوت کے مقدمے بنے اور ایئر مارشل اصغر خان‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ سردار شیر باز مزاری ‘ حنیف رامے اور دیگر رہنمائوں نے طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ صرف فوجی آمروں کے ہاتھوں نہیں عوامی حکومت کے دور میں بھی مگر کسی نے قید و بند کی ان صعوبتوں اور پھانسی کی کوٹھڑی میں گزار ے ایام کے عوض اقتدار اور لوٹ مار کو اپنا پیدائشی حق قرار دیا نہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی اور نہ بار بار پوری قوم کو زیر بار احسان کیا کہ میں نے فلاں موقع پر پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔لوٹ مار کے الزام میں نظر بندی کا صلہ انعام و کرام ہوتا ہو تو اور بات ہے۔
ذوالفقار مرزا نے تو یہ تک کہہ ڈالا تھا کہ ہم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگانے والے تھے مگر آصف علی زرداری نے ہمیں روک دیا۔ زرداری صاحب نے اچھا کیا‘ سمجھداری کا ثبوت دیا ورنہ پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگانے والے جی ایم سید اور دیگر کی طرح ناکامی و نامرادی ان کا بھی مقدر بنتی۔ سندھ کے عوام نے جی ایم سید اور دوسرے قوم پرستوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو اس بنا پر بار بار کامیابی سے ہمکنار کیا کہ وہ محب وطن وفاقی پارٹی ہے اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے لے کر بے نظیر بھٹو شہید تک ہمیشہ باغیوں‘ علیحدگی پسندوں اور ملک دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے۔
مگر ان کے جانشینوں کا طرز عمل مختلف ہے‘ وہ دونوں رہنمائوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے عوض تاحیات اقتدار اور قومی وسائل پر غاصبانہ قبضہ چاہتے ہیں‘ صرف انہیں نہیں ان کے چمچوں کڑچھوں ‘ ہالیوں موالیوں‘ ایروں غیروں‘ نتھوخیروں اور روٹی توڑ مچھندروں کو بھی عوام کا خون نچوڑنے اور ہر سرکاری محکمے‘ کارپوریشن‘ ادارے اور نجی شعبے سے بھتہ وصول کرنے کی آزادی ہو۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہو نہ اعتراض کرنے والا۔
گرفتاریوں سے یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ اکیلی ایم کیوایم نہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں درج دیگر جماعتوں نے جرائم کی بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئے اور ہر بار اقتدار ملنے کے بعد عوامی جماعت کے وابستگان نے قومی خزانے اور اداروں کو کنگال کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔یہی حال ملک کے دوسرے صوبوں‘ حصوں اور شہروں کا ہے۔ کراچی میں پانی اور پورے ملک میں گیس اور بجلی کی قلت بھی انہی بے اعتدالیوں اور بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے۔ سارے وسائل یہ حرام خور چٹ کر گئے‘ کنگال قومی ادارے فراہمی آب‘ گیس کی تلاش اور بجلی کی پیداوار کے علاوہ سپلائی کے بہتر انتظامات کے قابل ہی نہ رہے ۔ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہمیشہ یہی ڈھنڈورا پیٹا کہ فوجی حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔
کوئی پوچھے‘ پرویز مشرف کیا جاتے جاتے کراچی کا پانی‘ ملک بھر میں گیس کے ذخائر اور بجلی کی ساری پیداوار بھی اپنے ساتھ لے گئے یا ایوب خان اور ضیاء الحق وغیرہ اپنے جمہوریت دشمن وارثوں کو کوئی منتر سکھا گئے تھے کہ ہمارے بعد پڑھتے رہنا‘ جمہوری حکومت عوام کو کوئی سہولت فراہم کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو گی۔ البتہ'' جمہوریت پسند‘‘ حکمران اوران کے فرنٹ مین سٹیل ملز‘ گیس و بجلی کے محکموں‘ پی آئی اے‘ ریلوے ‘ فشریز ‘واٹر بورڈ سے جتنا چاہیں مال پانی بنا لیں‘ یہ منتر ہرگز رکاوٹ نہیں بنے گا۔کڑوا کڑوا تھومیٹھا میٹھاہپ۔
شنید یہی ہے کہ جنرل راحیل شریف نے احتساب کا آغاز اپنے ادارے سے کیا ہے۔ اس حوالے سے کئی حاضر سروس‘ ریٹائرڈ جرنیلوں اور افسروں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ عوام پُرامید ہیں کہ ضرب عضب کی طرح دہشت گردوں کے مالی سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت کی جائے گی نہ لٹیروں کے شور و غوغا اور زبانی جمع تفریق پر کان دھرا جائے گا۔ مثل مشہور ہے چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں۔ احتساب کا کوڑا برس رہا ہے تو بچائو بچائو کی صدائیںبھی بلند ہو رہی ہیں‘ پریشانی کس بات کی۔
احتساب اور مواخذے کا یہ عمل صرف کسی ایک زبان‘ نسل‘ صوبے اور جماعت تک محدود رکھنا تقاضائے دانش و انصاف نہیں۔ یہ دائرہ وسیع ہونا چاہیے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ کیا دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلرز‘ اغوا کار اور بھتہ خور صرف چھوٹے صوبوں میں پیدا ہوتے‘ پلتے بڑھتے اور کیفر کردار کو پہنچتے ہیں؟۔ ابھی یہ بات گلا پھاڑ کر نہیں کہی جا رہی مگر آہستہ آہستہ لے بلند ہو گی۔ لہٰذا ہوشیار۔
زرداری صاحب نے افطار ڈنر کا پتہ پھینکا ۔ کرپشن اور لوٹ مار کے حق میں اور ٹارگٹڈ آپریشن کے خلاف ''سیاسی اتفاق رائے‘‘ اور قومی مفاہمت کا ڈرامہ رچانا چاہا مگر ناکام رہے۔ میاں نواز شریف نے ان کا دانہ چگنے سے انکار کر دیا جبکہ چودھری شجاعت حسین بھی انہیں بیان واپس لینے پر قائل کرتے رہے ۔ پچھلے سال نواز شریف‘ زرداری اور اسفند یار ولی کے ساتھ سارے سیاستدان اس لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے کہ مدمقابل عمران خان تھا اور سب کو اپنی پڑی تھی۔ عمران خان نے سب کو ایک ساتھ للکارا اور موجودہ عوام دشمن نظام برقرار رکھنے کے ایجنڈے پر متحد کر دیا۔ اب مدمقابل عمران خان یا کوئی سیاستدان نہیں جنرل راحیل شریف اور فوج ہے جسے للکارنے کا شوق فی الحال میاں نواز شریف کونہیں۔رہے محروم و مجبور عوام تو وہ اکیلے زرداری صاحب نہیں اپنے تمام لیڈران کرام کے زخم خوردہ ہیں ان کی اگر کوئی سننے پر آمادہ ہو تو ہر ایک کلیم عاجز کی طرح گنگنا رہا ہے؎
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم‘ ایک ستم رات کرو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی مات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے‘ وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں‘ کیا بات کرو ہو
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
جس ملک کے حکمران‘ منتخب عوامی نمائندے اور قومی اداروں‘ وسائل اور اثاثوں کے محافظ ہی چور‘ لٹیرے‘ ڈاکو ‘ بھتہ خور ‘ اغوا کار اور اقتصادی دہشت گرد کا روپ دھا ر لیں اس کا اب تک بچ رہنا بجائے خود کارنامہ ہے۔ بھارت تو دشمن ہے اور طالبان کے علاوہ سندھ و بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد‘ علیحدگی پسندبھارت کے ایجنٹ مگر جو سلوک طن عزیز کے ساتھ ہمارے ان مہربانوں نے کیا ‘کوئی دشمن کہاںکر سکتا ہے۔ ؎
تمہارے سینوں میں دل تو ہو گا‘ جو ہو سکے تو اسی سے پوچھو
کہ تم نے جو قوم سے کیا ہے‘تمہیں کہو ناروا نہیں ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں