مرد حُر بس اتنے ہی جری تھے ۔ اپنے کہے پر قائم رہے نہ ڈھنگ کی کوئی وضاحت پیش کر سکے۔ کیا واقعی ان کے دھمکی آمیز خطاب کا ہدف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف تھے؟
کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ ''تقریر‘‘ سے پہلے کہ بعد
اگر ایک ریٹائرڈ جنرل اب بھی اتنا طاقتور و بااختیارہے کہ مردِ حُر تنگ آ گئے تو پھر اس سے ڈرنا چاہیے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر اپنی شہادت سے قبل کٹوا دی تھی۔ محترمہ کی شہادت نے آصف علی زرداری کے لیے پاکستان آمد اور منصب صدارت کی راہ ہموار کی۔ صدارت سے استعفے کے بعدجنرل پرویز مشرف کو شاہی پروٹوکول محترمہ کے وارثوں نے دیا کسی کو ایف آئی آر یاد آئی نہ شہید بی بی کے یتیم بچے۔ اب بھی پرویز مشرف پر غصہ آیا تو اس وقت جب کراچی کے آپریشن کی حدّت ‘اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں محسوس کی جانے لگی ہے۔
کراچی میں آپریشن کا ہدف صرف آصف علی زرداری کے عزیز و اقارب ‘ چہیتے وزیر‘ ارکان اسمبلی اور بیورو کریٹس نہیں‘ ہر مسلک ‘ زبان‘ نسل اور طبقہ کے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی ہو رہی ہے لیاری گینگ‘ ایم کیو ایم سے وابستگی کے دعویدار اور سنی تحریک کے کارکنان۔ گزشتہ روز سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری اور شاہد غوری کم و بیش آٹھ دس گھنٹے رینجرز ہیڈ کوارٹر میں گزار آئے مگر شور نہیں مچایا۔
کوئی مانے نہ مانے فوجی قیادت سے نالاں تینوں سیاسی قائدین میاں نواز شریف ‘ آصف علی زرداری اور الطاف حسین فوجی گملے میں لگائے پودے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں نواز شریف اور الطاف حسین پروان چڑھے۔ سید غوث علی شاہ ‘الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی ‘جماعت اسلامی کے مدمقابل کھڑا کرنے کا کریڈٹ برملا لیتے ہیں جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف مسلم لیگ (ق)سے بے وفائی کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو سے این آر او نہ کرتے‘سوئس اور دیگر مقدمات واپس نہ لیتے اور محترمہ وطن واپسی پر شہید نہ ہوتیں تو آصف علی زرداری آج بھی دبئی میں بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے۔ این آر او‘ بی بی کی شہادت اور جنرل پرویز مشرف کی وسیع القلبی نے زرداری کے ایوان اقتدار میں داخلے کی راہ ہموار کی۔
اپنی تقریر کا ملبہ پرویز مشرف پر ڈالنے کے بعد کیازرداری اور ان کے ساتھی آپریشن کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوں گے؟ کیا فوج ‘ پاکستان کی پرائم ایجنسی اور رینجرز کراچی آپریشن روک کر اپنے اب تک سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیں گے یا احتساب کا عمل مزید تیز ہو گا ؟اور زرداری کی پسپائی آپریشن کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند کر دے گی؟ یہ سوالات ان دنوں کراچی اور اسلام آباد میں تسلسل سے پوچھے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کہ زرداری کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
کراچی اور سندھ میں ہوشربا لوڈشیڈنگ کے علاوہ قیامت خیز گرمی کے سبب اڑھائی سو افراد کی ہلاکت نے عوامی غم و غصہ بڑھا دیا ہے۔ پاکستان میں اس قدر گرمی پہلی بار پڑی ہے نہ لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام کو پہلی بار سہنا پڑ رہا ہے۔ البتہ صوبائی حکومت‘ محکمہ صحت‘ محکمہ موسمیات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی نااہلی‘ عاقبت نااندیشی ‘غفلت اور سنگدلی کا سامنا عوام ایک بار پھر کر رہے ہیں۔ تھر کے عوام کو گزشتہ کئی برسوں سے اس کا تجربہ ہے۔ ایسی نااہل حکومت اور اس کے سرپرست عوام کو فوج اور رینجرز کے خلاف اکسانے اور ایم کیو ایم‘ اے این پی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر کوئی احتجاجی تحریک برپا کرنے کی کوشش اگر کریں بھی تو ان کی آواز پر کان کون دھرے گا اور کرپشن کے ان دیو قامت بتوں کی مدد کو کیوں کر آئے گا‘جنہوں نے شہر و دیہات کے سرکاری رقبے ہڑپ کر لیے‘ نجی زمینوں پر قابض ہو گئے‘ بجلی اور گیس تو درکنار شہریوں کو پانی کی ایک ایک بوند کو ترسا دیا‘ کوئی پارک چھوڑا نہ سکول و ہسپتال کے لیے مختص قطعہ اراضی اور نہ یتیموں ‘ بیوائوں اور مریضوں کی امداد کے لیے جمع فنڈ۔
اطلاعات یہ ہیں کہ جس طرح ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے گرفتار افراد کے بیانات کی روشنی میں کئی مطلوب افراد پکڑے گئے اسی طرح ممتاز زرداری‘ سلطان قمر صدیقی‘ عزیر بلوچ‘ محمد علی شیخ اور دیگر کے اعترافی بیانات کی بنیاد پر گرفتاریوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔اور سنی تحریک کی طرح اے این پی اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں سے وابستہ بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کی گرفت میں لا کر ان کے اصل سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔
واقفان حال کے مطابق آصف علی زرداری کا واویلا قابل فہم ہے‘ وہ ایک دور اندیش سیاستدان کے طور پر سمجھ گئے ہیں کہ جس طرح آپریشن ضرب عضب صرف طالبان تک محدود نہیں رہا اور ایم کیو ایم بھی زد میں آئی اسی طرح یہ اب کراچی کے مخصوص علاقوں اور شخصیات تک محدود نہیں رہے گا اور اس کی زد میں ایسے لوگ آ سکتے ہیں جنہیں کسی نے کبھی دہشت گردوں کا ساتھی یا سہولت کار نہیں سمجھا مگر دراصل وہ ہیں۔ عزیز جان کے انکشافات کی روشنی میں اگر بے نظیر بھٹو قتل کیس دوبارہ کھلے اور کراچی آپریشن کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے درپردہ سازشیں طشت ازبام ہوں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ‘فوجی قیادت آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے اور اس کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
آپریشن کا یہ مرحلہ عیدالفطر سے پہلے شروع ہوتا ہے یا بعد ‘فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ مگر یہ حتمی اور فیصلہ کن ہو گا اور اس کے بعد دوسرے صوبوں میں بھی جرائم پیشہ عناصر سے وہی سلوک ہو گا جو شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی تک‘ پاکستان کو سیاسی طور پر غیر مستحکم‘ معاشی طور پر مفلوج اور عالمی سطح پر بدنام کرنے والے عناصر سے کیا جا رہا ہے۔ بظاہر میاں نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھی تحفظات کے باوجود آپریشن جاری رکھنے کے حق میں ہیں اور کراچی میں گورنر راج کے فیصلے کو بھی بالآخر قبول کر لیں گے ۔ لہٰذا آصف علی زرداری کا انحصار اب الطاف حسین اور اسفند یار ولی پر ہے یا پھر وہ کسی احتجاجی تحریک کا چکمہ دے کر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں مگر یہ بھی سب کے لیے گھاٹے کا سودا ہو گا کیونکہ کرپشن اور دہشت گرد کے ناسور کو اکھاڑ پھینکنے کے خواہشمند فوج اور حکومت سے زیادہ عوام ہیں اور وہ کسی بھی حوالے سے ایسی کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں جو سٹیٹس کو برقرار رکھنے اور لوٹ مار کے عوام دشمن نظام کو بچانے کے لیے مدد گار ہو۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرف سے موجودہ آپریشن پر یہ اعتراض البتہ بجا اور فطری ہے کہ اسلام آباد اور پنجاب بھی کرپشن فری ہیں‘نہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے پاک ۔جنوبی پنجاب میں بعض فرقہ پرست تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور حکومت میں شامل بعض اہم افراد کے ان فرقہ پرستوں سے رابطے بھی۔ سانحہ ماڈل ٹائون بھی ریاستی دہشت گردی کا شاخسانہ تھا اور لینڈ مافیا‘ بھتہ مافیا ‘ اغوا مافیا نے یہاں بھی اودھم مچا رکھا ہے‘ جنہیں اسلام آباد تحفظ فراہم کرتا ہے مگر ابھی تک اسلام آباد اور پنجاب سے کسی نے تعرض نہیں کیا۔
نیب نے سست روی ترک کر کے جن نئی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے وہ بلا تمیز احتساب کی کڑی ہے اور اس کی زد میں وہ تمام عناصر آئیں گے جو قومی خزانے کو لوٹنے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے علاوہ کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردوں کے سہولت کار کا کردار ادا کر چکے ہیں جن کی وجہ سے عوام دو وقت کی روٹی کو محتاج ہیں اور‘نوبت خودکشیوں تک پہنچ چکی ہے اورلوگ اپنے بچوں کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔ بلا امتیاز کارروائی اس بنا پر ضروری ہو گئی ہے کہ فوج اور رینجرزپر کسی کو پنجابی کا لیبل لگانے اور وفاقی حکومت کے اشارے پر یکطرفہ آپریشن کا الزام لگانے کی جرأت نہ ہو۔ ماضی میں ایسے ہی الزامات نے مقتدر اداروں کی ساکھ مجروح کی اور کوئی آپریشن نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔
بے نظیر بھٹو کی برسی پر آصف علی زرداری نے اپنا سابقہ بیان واپس لے کر کچھ غلط نہیں کیا۔ افطار کانفرنس کی ناکامی اور یوسف رضا گیلانی و راجہ پرویز اشرف کی اختلافی رائے سبق آموز تھی۔ مرد حر نے ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ وہ بھٹو اور نواز شریف کی فوج کے بالمقابل دلیری کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ شہیدوں کا تذکرہ اور شہادت کا انتخاب دو الگ الگ باتیں ہیں‘ انہیں خلط ملط کرنا دانائی نہیں۔ زرداری صاحب نے چودھری شجاعت حسین کا مشورہ مان کر اچھا کیا۔ جب میاں صاحب بم کو لات مارنے پر تیار نہیں تو مرد مفاہمت کو بھلا کیا ضرورت ہے ؎
بس اتنے ہی جری تھے حریفان آفتاب
چمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئے