شقی القلب

لاہور کے علاقہ مسلم ٹائون میں ڈانٹ ڈپٹ پر بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کر دیا جبکہ چند روز قبل ایسی ہی ایک واردات میں ماں بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوئی۔ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک رسول اکرمﷺ نے یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ مائیں اولاد کے ہاتھوں ذلیل ہوں گی ۔
نفسا نفسی کا عجب دور ہے‘ شقی القلبی روز کا معمول۔ کبھی باپ کے ہاتھوں ننھے معصوم بچے قتل ہوتے ہیں اور کبھی ماں انہیں بے آسرا چھوڑ کر اپنی من پسند دنیا میں گم ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر شفقت پدری رکاوٹ بنتی ہے‘ نہ ماں کی ممتا جوش میں آتی ہے ۔معاشرہ کیا ہے‘ ایک جہنم کدہ جہاں انہونی انہونی نہیں رہی اور خون سفید ہونے کا محاورہ حقیقت میں بدل گیا۔ شاعر نے ایسی صورتحال سے اکتا کر کہا تھا ؎
بسے نادیدنی ہا دیدہ ام من
مرا اے کاش، کہ مادر نہ زادے
ایک بدّو نے سرور کائنات‘ رحمت عالمﷺ کے سامنے اپنے والد کے رویے کی شکایت کی کہ میرا مال بغیر پوچھے خرچ کرتا ہے‘ مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ حضورؐ نے والد کو بلا بھیجا۔ دکھی باپ نے عرض مدّعا کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب کرنا چاہا تو چند اشعارموزوں ہو گئے‘ اس قدر موثر کہ سن کر رحمت تمامﷺ کی آنکھیں جل تھل ہو گئیںاور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ۔ باپ نے جو کہا وہ صرف اس کی آپ بیتی نہ تھی ہر صاحبِ اولاد کی ہڈ بیتی ہے۔ اولاد کے لیے ماں باپ کی جبلی محبت ‘ ریاضت اور قربانیوں کی داستان ۔ باپ نے کہا:
''بیٹا ! جب تو پیدا ہوا تو میری خوشی دیدنی تھی۔ میں نے اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھا۔میں نے اپنے لیے نہیں فقط تمہارے لیے جینے کا فیصلہ کیا۔ تمہیں ہر حال میں خوش باش دیکھنا میری آرزو تھی اور تمہارا کھیلنا‘ کودنا‘ شرارتیں کرنا‘ بگڑنا ‘ سنورنا‘ اٹھنا‘ بیٹھنا‘ سونا‘ جاگنا‘ میری آنکھ کا نور‘ دل کا سرور۔ میں تمہاری اک مسکراہٹ کے لیے جھلستی ہوائوں اور ٹھٹھرتی راتوں سے لڑا۔ میں نے اپنی نیندیں تمہاریں نیند پر‘ خوشیاں تمہاری خوشیوں پر اور خواہشات تمہاری خواہشات پر قربان کر دیں۔ تم سوتے میں جاگتا‘ تم کھلکھلاتے میں قہقہے لگاتا‘ تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میری جان پر بن آتی۔ میں اندیشوں ‘ وسوسوں سے نڈھال ہو جاتا۔ تمہیں اچھا کھلانے پلانے ‘ دنیا جہان کی نعمتیں بہم پہنچانے کے لیے میں نے پیٹ پر پتھر باندھ لیے۔ خود بھوکا رہا تمہاری شکم پُری کی‘‘۔
''تم نے اپنے پائوں پر چلنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ پوری کائنات تمہاری ہم سفر ہے۔ تم رکے تو جیسے کائنات کا نظام رک گیا۔ خود پتھروں پر چلا‘ مگر تمہارے لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ تم نے رات کو دن کہا‘ سیاہ کو سفید ‘ میں نے آنکھیں بند کر کے تائید کی‘ تم مشرق کو چلے میںنے مشرق کی طرف رخت سفر باندھ لیا‘ تم نے تارے توڑنے کو کہا میں نے کمر ہمت کس لی اور ناممکن کو ممکن بنانے پر تل گیا۔ تمہاری پسند کو اپنی پسند بنالیا اور ناپسند کو ناپسند۔ تمہاری ڈانٹ کو معصومیت اور بدتمیزی کو ہمیشہ طفلانہ انداز محبت سمجھا‘‘۔
''تم جوان ہوتے گئے میں بوڑھا ہوتا گیا۔ تمہاری اٹھان‘ مجھے ڈھلوان میں بدلتی رہی۔ تم سروقد ہو گئے میں ٹیڑھی کمان۔ تم مضبوط ہوئے میں لاغر و کمزور‘ کبھی تمہیں احساس نہ ہونے دیا کہ تمہارے فولادی جسم اور مضبوط ہڈیوں کے لیے میری ہڈیاں کھا د بنی ہیں ۔تم سرسبز درخت بنے‘ مجھ پر خزاں آگئی۔مگر میں نے کبھی تم سے یا اپنے آپ سے گلہ نہیں کیا۔ حرف شکایت زبان پر نہیں لایا۔ امید یہ تھی کہ جس طرح بچپن میں تم میری انگلی پکڑ کر چلتے پھرتے‘ اتراتے تھے اب میں تمہاری انگلی پکڑ کر باقی ماندہ زندگی کا کٹھن سفر طے کروں گا۔ جس طرح میں نے اپنی ضرورتیں ‘ خواہشیں قربان کر کے تمہاری ضرورتیں پوری کیں تم میری ضرورتیں پوری کروگے۔ اپنا ناتواںبچپن یاد کر کے میرے منہ میں نوالہ ڈالو گے‘ میرا منہ اور ناک صاف کرو گے اور میری کمزور بچے کی طرح خبر گیری کرو گے۔ تمہاری کڑیل جوانی میرے بڑھاپے کا سہارا ہو گی اور تمہاری کامیابی و کامرانی‘ ترقی و خوشحالی میرے لیے اسی طرح باعث آرام و آسودگی‘ جس طرح تمہارا پروان چڑھنا میری سرشاری کا باعث رہا۔ مگر اے بیٹے! تم نے کیا کیا؟ ایک رات کا احسان بھی یاد نہ رکھا۔ مجھے باپ نہیں کم از کم اپنا خادم اور ہمسایہ ہی سمجھ لیتے‘‘۔
ہرماں باپ غریب ہو یا امیر‘ کمزور ہو یا طاقتور اپنی اولاد کی پیدائش و پرورش کے عرصے میں انہی مراحل سے گزرتا ہے۔ جس سے یہ عرب بدّو گزرا۔ اپنی زندگی کا پل پل‘ لمحہ لمحہ اولاد کی خدمت گزاری‘ ناز برداری پر قربان کر دیتا ہے۔ اولاد کے لیے بسا اوقات انسان اپنے رب ‘ اس کے احکامات کو بھول جاتا ہے۔ تعلیمات رسول ﷺ کو پس پشت ڈال دیتا ہے‘ خویش ‘ اقربا ‘ ضرورت مندوں‘ مستحق افراد اور خاندانوں کے حقوق ‘ معاشرتی رسم و رواج‘ مذہبی فرائض فراموش کر دیتا ہے اور جائز و ناجائز‘ حق و ناحق اور حلال و حرام کی تمیز روا نہیں رکھتا‘ محبت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔ اولاد کو اللہ تعالیٰ نے مال کی طرح آزمائش قرار دیا ہے اور یہ اچھے بھلے انسان کو صرف اندھا‘ بہرا نہیں گونگا بھی بنا دیتی ہے۔
یہی اولادجوان ہو کر کیا کیا قیامتیں ڈھاتی ہے‘ روز مرہ کا تجربہ ہے‘ سوائے ان خوش نصیبوں کے جن کی پرورش رزق حلال سے ہوئی‘ تربیت حقوق و فرائض کے شعور سے آشنا ماحول میں اور ساخت پر داخت اعتدال و توازن کے ساتھ۔ ان دنوں نیا فیشن چل پڑا ہے۔ دوستوں‘ ہم جولیوں کی محفل میں بیٹھ کر ماں باپ کی کمزوری‘ کوتاہی‘ ناکامی کا سرعام تذکرہ ‘ تنگ دستی کے سبب خواہش پوری نہ کرنے کی شکایت اور اپنے دیگر رشتہ داروں اور حقداروں کو اپنی جائز کمائی سے نوازنے کا طعنہ ‘ بڑھاپے میں سنکی ہونے اور ہر بات میں ٹانگ اڑانے پر غصہ اور اپنے ناکام تجربات دہرانے کی عادت پر اظہار برہمی ‘ جائیداد ہتھیانے کے لیے ماں باپ کاقتل اور ساس بہو کے جھگڑوں پر انہیں اولڈ ہوم میں پھینک آنا۔ جہاں زندگی بھر جلتے‘ کڑھتے‘ پچھتاتے اور بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ افضل ڈرائیورکے ساتھ اس کے جوان بیٹے نے بھی یہی کیا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک خبر گیری کو یاد رکھا نہ غریب باپ کا کوئی ایک احسان۔
اولاد کے لیے ہر حد کو تجاوز کرنے والے والدین بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے لیے گڑھا کھود رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کسی نیکی‘ بھلائی اور قربانی کو یاد بھی رکھے گی یا نہیں؟ بڑھاپے کا سہارا بنے گی یا اسے ہمارے لیے طعنہ اور عذاب بنا دے گی۔ مرنے کے بعد نماز جنازہ میں شریک ہو گی‘ اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارے گی اور بعداز تدفین و قرآن خوانی کسی غریب کو کھانا کھلائے گی یا اپنے معمولات میں مگن سر سے بوجھ اترنے پر کلمہ شکر ادا کرے گی؟ خوش نصیب ہیں وہ ماں باپ جو اولاد کو ہمیشہ آزمائش سمجھ کر اس پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے جا لاڈ پیار سے بگاڑتے نہ اولاد کی محبت میں دیوانے ہو کر کسی کی حق تلفی کرتے ہیں۔ان کے سکھ چین کے لیے کسی دوسرے کا سکھ چین برباد نہیں کرتے اور خدا کو بھولتے ہیں نہ خلق خدا کے حقوق کو فراموش کر کے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔
خوش قسمت اورکامران ہے وہ اولا د جو توازن و اعتدال کے راستے پر گامزن اپنے والدین کی اچھی تربیت کے طفیل حقوق و فرائض سے آشنا‘ ماں باپ کی خدمتگار و اطاعت گزار ہے اور معاشرے کے لیے مفید و بہتر انسان۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں بالخصوص ماں باپ کے شکر گزار‘ ہر دم دعا گو: ''اے میرے رب(میرے ماں باپ پر) اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحمدلی کا سلوک کیا اور میری پرورش کی(ربّ ارحم ہما‘ کما ربّیٰنی صغیرا)
حضور اکرمﷺ نے بوڑھے‘ غمزدہ اور ملول باپ کا فسانۂ غم سنا‘ دست شفقت کاندھے پر رکھا‘ تسلی دی‘ اپنے آنسو پوچھے اور باپ سے شاکی بیٹے کو حکم دیا کہ وہ ان کی نظروں سے دور ہو جائے۔ باپ سے شاکی شخص کا دربار رسالتؐ میں کیا کام۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں