’’میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت‘‘

اس شخص کی خوش نصیبی میں کیا کلام جس پر نعت پیمبرؐ کا نزول ہو۔ سینکڑوں برس گزر گئے یہ گتھی سلجھ نہ پائی کہ مدحت رسولﷺ کا شرف انسان کو کب حاصل ہوتا ہے؟ یہ آورد ہے یا آمد؟ ارادہ ہے یا محض جذبہ‘ اور ریاضت ہے یا کیفیت؟
نعت کہنے کے لیے صرف سلیقہ و قرینہ ہی نہیں گداز قلب‘ پاکیزہ دانش‘ ارفع تخیل‘ حب رسولؐ سے سرشار دماغ‘ دیدۂ نمناک اور پاکیزہ زبان درکار ہے ؎
ہزار بار بشوئم دہن زِ مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
نعت کیا ہے؟ ریاض چودھری نے یوں تعریف کا حق ادا کیا ہے ؎
نعت کیا ہے؟ وادیِ شعر و سخن کا افتخار
نعت کیا ہے؟ خوشبوئوں کا صحنِ گلشن میں فشار
نعت کیا ہے؟ رات کے پچھلے پہر کا انکسار
نعت کیا ہے؟ اک عطائے رحمتِ پروردگار
دل کی ہر دھڑکن کہے یا مصطفیؐ تو نعت ہو
حکم دے میرے قلم کو جب خدا تو نعت ہو
عاشقِ رسولؐ ریاض چودھری نعت کہنے کے لیے یہ شرط بھی عائد کرتے ہیں ؎
نعت کہنے کے لیے دل پاک ہونا چاہیے
غرقِ الفت دیدہ نمناک ہونا چاہیے
حضرت حسان بن ثابتؓ سے لے کر ہمارے عہد کے نامور شاعر سلیم کوثر تک ہر خوش بخت کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ دل اور دیدہ نمناک عطا کیا تبھی انہیں نعت کہنے کی توفیق ہوئی۔ کیونکہ ثنائے خواجہ محض عقیدت کا اظہار اور عشق و محبت کا استعارہ نہیں‘ بارگاہ اُلوہیت سے کسی انسان کے لفظ و بیاں کی قبولیت کا اشارہ بھی ہے۔ حضور اکرمﷺ سے اپنی نعت گوئی اور ثناخوانی کی داد پانے والے خوش بخت شاعر حسان بن ثابتؓ نے ثنائے خواجہ کے ضمن میں جو بات کہی وہ حرف آخر ہے ؎
ما ان مدحت محمداً بمقالتی
و لکن مدحت مقالۃ بہ محمدٍ
(میں اپنے کلام سے حضورﷺ کی تعریف کہاں کرتا ہوں میں تو فقط تعریف و توصیف مصطفیﷺ سے اپنے کلام کو لائق تحسین بناتا ہوں)
انہی حسان بن ثابتؓ نے کہا ؎
و احسن منک لم تر قط عینی
و اجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبراً من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
(آپﷺ سا حسین کبھی چشم بشر نے دیکھا ہی نہیں‘ آپﷺ سا جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں‘ آپﷺ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے‘ جیسا آپ نے چاہا رب نے تخلیق کر دیا)
غالب کو ان کے مداح ''علیٰ کلِ غالب‘‘ قرار دیتے ہیں مگر حضورﷺ کے ذکر پر زبان اس کی لڑکھڑائی اور اپنی عجزبیانی کا اعتراف اس نے کیا ؎
غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدﷺ است
نعت اظہارِ بیاں کے خوبصورت قرینے‘ حرف و لفظ کے رواں سفینے‘ انسانی تخیل کے نرم و نازک آبگینے اور عشق محمدؐ کے انمول خزینے کا دوسرا نام ہے۔ نعت ندرت خیال‘ حسن طلب‘ وارفتگی‘ شیفتگی‘ گدازِقلب ‘علم و عرفاں اور عشق کا سنگم‘ نکتہ اتصال ہے۔
حسان بن ثابتؓ، کعب بن زہیرؒ، جامیؒ، سعدیؒ، قدسیؒ، بوصیریؒ، بیدل، اقبال، امیر مینائی، محسن کاکوروی، فاضل بریلویؒ، بیدم وارثی، ظفر علی خاں، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، حافظ مظہر الدین، افضل فقیر، سلیم کوثر، عمران نقوی کا جذب دروں، عشق رسولﷺ کے قالب میں ڈھلتا ہے تو نعت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
عشق مصطفیﷺ سے سرشار‘ عربی‘ فارسی‘ اردو اور دیگر زبانوں کے شعرا نے کیسے کیسے نعتیہ اشعار کہے‘ کتابیں بھری پڑی ہیں مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ؎
یا صاحب الجمال و یاسیدالبشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ‘
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
(رومی)
آیۂ کائنات کا معنی دیریاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
(اقبالؒ)
واہ کیا جودو کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
تیرے ٹکڑوں سے ملے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
(احمد رضا خان بریلوی)
جبل نور پہ جب غار حرا دیکھتا ہوں
سینۂ سنگ پہ اک پھول کھلا دیکھتا ہوں
روشنی جب کلام کرتی ہے
تیری سیرت کو عام کرتی ہے
(عمران نقوی)
نعت کہنا کسب کمال نہیں‘ یہ توفیق خدائے ذوالجلال ہے۔ بڑے بڑے قادرالکلام شاعر گزرے‘ ہزاروں صفحات عاشقانہ اور فاسقانہ شاعری سے سیاہ کر ڈالے‘ نعت کا ایک شعر نہ کہہ پائے کہ اذن کلام نہ ملا۔ حسان بن ثابتؓ،جامیؒ، سعدیؒ اور حفیظ تائب کی صف میں کھڑا ہونا نصیب میں نہ تھا۔ استاد امام دین گجراتی کے ایک شعر نے انہیں فرش سے عرش تک پہنچا دیا ؎
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
قصباتی شاعر غلام محمد ذکی کی فکری معراج کا ایک نمونہ ہے ؎
اُن کی نعلین کو پیوند لگانے والے
قاب قوسین کی منزل کا پتہ دیتے ہیں
سلیم کوثر کی شہرت کے کئی حوالے ہیں‘ ایک غزل نے دنیا کے کونے کونے میں انہیں متعارف کرایا ؎
میں خیال ہوں کسی اور کا‘ مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ میرا عکس ہے‘ پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دستِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرفِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا‘ مجھے مانگتا کوئی اور ہے
سلیم کوثر کا نعتیہ و حمدیہ مجموعہ چند ہفتے قبل برادرم نصیر سلیمی نے ارسال کیا۔ ''میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت‘‘ کا عنوان ہی قاری کے قلب و نظر کو گرفت میں لینے کے لیے کافی ہے مگر ندرتِ فکر اور رفعت خیال بھی سلیم کوثر کی شاعری کا خاصہ ہے جس کی جھلک اس کتاب میں جابجا نظر آتی ہے ؎
میں جائوں مدینے اور وہاں
کوئی ایسا کام نکل آئے
جو صرف مجھے ہی آتا ہو
جو صرف مجھے ہی کرنا ہو
جسے کرتے کرتے جینا ہو
جسے کرتے کرتے مرنا ہو
کھلا یہ منزل ہستی کا مجھ پہ راز نہاں
نجات کا کوئی رستہ نہیں سوائے درود
سکون قلب‘ شعور یقیں ملا ہے مجھے
در حضور سے کیا کچھ نہیں ملا ہے مجھے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے مرے مسیحائو
میرا علاج ہے آب و ہوا مدینے کی
قسمت کو چمکانے والے کیسے ہوں گے
آپ سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے
''میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت‘‘ میں سلیم کوثر کا جذبۂ حبِ رسولﷺ چھلکا پڑتا ہے ؎
انہی سے عشق کرو‘ اُن کے راستے میں رہو
درود پڑھتے رہو اور رابطے میں رہو
اور کیوں نہ ہو یہ موضوع ہی ایسا ہے ؎
کچھ عشقِ محمدؐ میں نہیں شرط مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگارِ محمدؐ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں