جوڈیشل کمشن رپورٹ

جوڈیشل کمشن کی رپورٹ اکیلے عمران خان کے لیے نہیں‘ عام انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والے تمام سیاسی و مذہبی رہنمائوں اور انتخابی عمل میں شریک جماعتوں کے لیے مایوس کن ہے۔ رپورٹ کے مندرجات سے تو لگتا ہے کہ آصف علی زرداری‘ اعتزاز احسن‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی خان ‘ اختر جان مینگل بھی عمران خان کی طرح گپ باز ہیں جو 11مئی 2013ء کے بعد مسلسل انتخابات کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی اہلیت پر سوال اٹھاتے رہے۔ سچے صرف حکمران ہیں یا 2013ء کے انتخابات میں ان کی مدد کرنے والے نگران۔
قصور جوڈیشل کمشن یا اس کے واجب الاحترام اور قابل فخر ارکان کا نہیں‘ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ اگر کوئی طاقتور‘ بااثر اور دولت مند بدمعاش کسی شریف آدمی کے مکان پر قبضہ کر لے تو ہمارا سسٹم یہ تقاضا کرتا ہے کہ بزور طاقت یہ قبضہ چھڑانا خلافِ قانون ہے۔ مالک مکان کو پولیس سے رجوع کرنا چاہیے جو ظاہر ہے کہ قبضہ گروپ سے ملی ہو گی اوراس کی مددنہیں کرے گی‘ یوںاگلے پچاس ساٹھ سال تک اسے عدالتوں کے دھکے کھانے چاہئیں‘ جہاں پیشیوں پر پیشیاں پڑیں گی‘ وکیلوں میں بحث مباحثہ ہو گا‘ مالکِ مکان سے ثبوت طلب کئے جائیں گے اور قبضہ گروپ کو بھر پور موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ اس دوران جعلی دستاویزات تیار کر کے اپنے آپ کو حق بجانب قرار دے سکے۔
اگر مالک مکان کی قسمت اچھی ہو‘ اور اس کے بیٹے بیٹی یا پوتے‘ نواسے کے حق میں فیصلہ ہو جائے تو پھر بھی اس فیصلے کی روشنی میں از خود مکان قبضہ گروپ سے خالی نہیں کر ا سکتا‘ اسے پولیس کی منت سماجت کرنی پڑے گی اور اگر قابض شخص عدالتی احکامات کو ماننے سے انکار کر دے تو مالک مکان کو دوبارہ عدالتوں سے رجوع کرنا ہو گا۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں میں بعض ایسے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں جو قیام پاکستان سے کئی برس قبل دائر ہوئے اور اب تک فیصلے کی نوبت نہیں آئی‘ اس دوران مدعی اور مدعا علیہ دونوں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ تباہ حال متاثرین کی دوسری نسل میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ مقدمے کی پیروی اور اپنے حق کا دفاع کر سکیں چنانچہ رو پیٹ کر محنت مزدوری کرنے لگے۔ لاہور شہر میں کئی تاریخی عمارتیں اس بنا پر کھنڈرات بن گئیں کہ ملکیت کے تنازع نے طول کھینچا اور کوئی ان کی دیکھ بھال کے لیے زندہ نہ رہا۔
جوڈیشل کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس میں اگرچہ تفتیش کا ذکر تھا اور کمشن تفتیش کے لیے سی آئی ٹی کی مدد لے سکتا تھا مگر اس کی نوبت نہیں آئی۔تحریک انصاف اور عمران خان نے بھی اپنا مقدمہ ان وکیلوں کے ذریعے لڑا جو اپنے موکل کو تختۂ دار پر پہنچانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ دھاندلی کا شور مچانے والے دیگر جماعتوں کے رہنمائوں میں سے کسی کو طلب کرنے پر عمران خان کی قانونی ٹیم نے اصرار کیا‘ نہ کمشن پر زور دیا کہ وہ ایسے معاملے کو دو فریقوں کے مابین تنازعہ کے طور پر نہیں‘ مینڈیٹ چوری کے ایک واقعہ کے طور پر ڈیل کرے۔جس میں ملزم کی تلاش‘ وقوعہ کے شواہد اکھٹا کرنا اور تفتیش کو منطقی انجام تک پہنچانا تفتیشی ادارے کا فرض ہوتا ہے‘ مدعی کی ذمہ داری نہیں۔
کمشن کی کارروائی جس انداز میں چلی اسے دیکھ کر سب کو اندازہ تھا کہ ممکنہ فیصلہ کیا ہو سکتا ہے کیونکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) یا حکومت کو متحارب فریق سمجھ کر بحث و تمحیص اور جرح و تعدیل ہوتی رہی‘ کسی نے سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم‘ افتخار محمد چوہدری اور سابق نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو طلب کیا نہ پوچھنے کی زحمت گواراکی کہ عام انتخابات کے اعلان سے لے کر 11مئی 2013ء تک وہ کیا کرتے رہے؟۔ فخر الدین ابراہیم اور نگران وزیر اعظم میں بول چال کیوں بند تھی؟ چیف الیکشن کمشنر نے اسلام آباد چھوڑ کر کراچی میں کیوں بسرام کیا ؟اور چیف جسٹس آف پاکستان (افتخار محمد چوہدری) کس حیثیت سے آر اوز سے میٹنگیں اور خطاب فرماتے رہے۔
پاکستان میں کمشنوں اور کمیٹیوں کی تاریخ چنداں قابل رشک نہیں۔ حمود الرحمن کمشن سے لے کر باقر نجفی کمشن تک ہر کمشن کی رپورٹ نے ''مٹی پائو‘‘ کلچر کو فروغ دیا۔ جس ملک میں پاکستان کی تقسیم جیسے سانحہ کی ذمہ داری کا تعین نہ ہو سکا‘ ماڈل ٹائون میںپندرہ افراد کے دن دیہاڑے قتل میں ملوث ملزموں کی نشاندہی ہوئی بھی تو کسی نے مان کر نہ دیا اور جہاں بلوچستان میں کئی حلقوں میں الیکشن نہ ہونے کے باوجود کامیاب امیدواوں کا اعلان ہوا مگر کسی نے نوٹس نہ لیا‘ وہاں جوڈیشل کمشن اگر منظم یا وسیع پیمانے پر دھاندلی کا فیصلہ کر بھی دیتا تو کس نے رپورٹ پڑھنی تھی اور کون اس پر عملدرآمد کرتا۔ ؟جوڈیشل کمشن کے فاضل ارکان کو سابق چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کا وہ جملہ بھی یاد ہو گا جو انہوں نے میاں نواز شریف کے منہ پر کہا تھا''ہم نے تو آپ کو بحال کر دیا تھا مگر آپ نے بحال پارلیمنٹ اور حکومت پھر توڑ دی‘ ہمیں بتایا تک نہیں‘‘ اس لیے کمشن نے اچھا کیاحکومت کو آزمائش میں ڈالا نہ اپنے آپ کو ۔Statusqueکے زمانے میں انقلابی نوعیت کے فیصلوں کا حشر وہی ہوتا ہے جو باقر نجفی کمشن رپورٹ کا ہوا۔کمشن رپورٹ سے برا فروختہ ہونے کے بجائے عمران خان اور تحریک انصاف کو ٹھنڈے دل و دماغ سے بعض تلخ حقیقتوں پر غور کرنا چاہیے جو یہ ہیں۔
(1) عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے مل کر جو دھرنا دیا وہ مطلوبہ افرادی قوت سے کم حاضری‘ دونوں لیڈروں کی الگ الگ ڈفلی اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں کے غیر سنجیدہ طرز عمل کی وجہ سے ان قوتوں کو متاثر نہ کر سکا جو ایسی احتجاجی تحریک کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
(2) جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو ملاقات کے لیے بلایا تو دونوں لیڈر میاں نواز شریف کے استعفے سے کم کوئی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے حتیٰ کہ جوڈیشل کمشن کی تشکیل پر بھی جس سے مقتدر قوتوں کو مایوسی ہوئی۔
(3) عمرا ن خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو رکوانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی جس کا بھر پور فائدہ میاں نواز شریف کو ہوا اور وہ عمران خان کی مخالف تمام سیاسی و مذہبی قوتوں کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے'' دھرنا بمقابلہ جمہوریت‘‘ کا تاثر دینے میں کامیاب رہے۔
(4) تحریک انصاف نے شواہد کی تلاش اور اپنے کارکنوں کے علاوہ عوام کو متحرک کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور اس ٹی او آر پر اتفاق کیا جس نے کمشن کے ہاتھ باندھ دیے اور یہ تاثر ابھرا کہ کر تحریک انصاف نے محض فیس سیونگ کے لیے تشکیل قبول کی اور وہ اس کی آڑ میں دھاندلی زدہ حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل اور شفاف انتخابات کے مطالبہ سے دستبردار ہونا چاہتی ہے۔؟
(5) تبدیلی کے نعرے کے ساتھ موجود عوام دشمن‘ کرپٹ اور دھن‘ دھونس ‘ دھاندلی کے شاہکار نظام میں اپنی جگہ بنانا اور کامیابی حاصل کرنا عمران خان اور تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ نظام مختلف مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے اور ان مافیاز کے پنجے سے انتخابی عمل کو واگزار کرانے کے لیے ایک ایسی منظم‘ متحرک اور مقبول عوامی قوت درکار ہے جو ہر گلی اور محلے میں ‘ ہر دفتر اور سرکاری ادارے میں اور ہر پبلک مقام پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکے۔ عوام کا بھر پور دبائو ہی ان مافیاز کو کمزور اور انتخابی و سیاسی عمل کو موجودہ قباحتوں سے پاک کر سکتا ہے۔ سٹیٹس کو کے نظام میں اصلاحات کی خواہش محض سراب ہے۔ آخر اس نظام کے مراعات یافتگان اپنے پائوں پر کلہاڑی کیوں ماریں اور عمران خان کی کامیابی کی راہ کیوں ہموار کریں ؎
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں، مینا اسی کا ہے
جوڈیشل کمشن کی رپورٹ سے نواز حکومت کی اخلاقی اور قانونی ساکھ مضبوط ہو گی اور اندیشہ یہ ہے کہ فتح کے نشے میں چُور میاں نواز شریف اپنی کارگزاری بہتر کرنے کے بجائے پہلے کی طرح میڈیا‘ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے مڈبھیڑ پر مائل ہو سکتے ہیں۔ جس کے بعد اس رپورٹ سے مایوس و مضطرب عمران خان ایک نئے انداز میں مدمقابل ہو گا اور جن پُرجوش نوجوانوں کو مینڈیٹ چوری کا یقین ہے وہ اس کی اردل میں ہوں گے یوں لوڈشیڈنگ ‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لاقانونیت اور حکومتی اسراف وتبذیر سے شاکی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدمیں سست روی سے شاکی حلقوں کی ہمدردیاں بھی شاید اب عمران خان کو حاصل ہوں ۔تاہم عمران خان کو اپنے بُکل کے چوروں سے ہوشیار رہنا ہو گا۔مشتری ہوشیار باش۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں