گرا گدھے سے غصہ کمہار پر

بھارتی وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ اُتر پردیش کے باسی‘ ہندی زبان کے پرچارک اور انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس سے بھارتیہ جنتا پارٹی میں آئے ہیں‘ اس لیے مجھے معلوم نہیں کہ وہ پنجابی زبان سمجھتے ہیں یا نہیں‘ مگر گزشتہ روز دینا نگر کے واقعہ پر انہوں نے جو بھاشن دیا اس پر بلیغ تبصرہ پنجابی میں ہی کیا جا سکتا ہے: ''ڈگی کھوتی توں تے غصہ کمہار تے‘‘ ۔اس محاورے کامطلب وہ جتندر سنگھ اور پرکاش سنگھ بادل سے پوچھ سکتے ہیں۔
مشرقی پنجاب پولیس کے ڈائریکٹر جنرل سمید سنگھ سیانی نے وفاقی حکومت میں شامل سنگھوں کے برعکس پیشہ ورانہ انداز میں بات کی: ''یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حملہ آور کون تھے‘‘۔ البتہ انہوں نے حملہ کو ناقص سکیورٹی کا شاخسانہ تسلیم کیا۔ بھارتی پارلیمنٹ راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اپوزیشن جماعتوں بالخصوص کانگریس نے واقعہ کو حکومت کی نااہلی اور سہل پسندی سے تعبیر کیا جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے حملے کو سکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ خفیہ ادارں نے قبل از وقت آگاہ نہیں کیا ورنہ پاکستان سے ملحقہ سرحد سیل کر دی جاتی۔
اس کے باوجود بھارتی حکام بالخصوص وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور جتندر سنگھ ناکام و نااہل انٹیلی جنس حکام کا آموختہ دہراتے اور اپنے سکیورٹی اداروں کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے رہے۔ اسے گدھے سے گرنے اور غصہ کمہار پر نکالنے کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟ گدھا پاکستان کا ہے نہ کمہار سرحد پار کا۔ بھارتی چینلز پر دکھائی جانے والی فوٹیج میں دہشت گرد دینا نگر کی سڑک پر آزادی سے مٹرگشت کر رہے ہیں۔ بھارت کی فوج‘ پولیس‘ دہشت گردی کے خلاف تربیت یافتہ مخصوص دستے تین دہشت گردوں کو گیارہ گھنٹے تک قابو نہیں کر سکے‘ کسی ایک کو زندہ گرفتار کرنے میں ناکام رہے تو بھلا اس میں پاکستان‘ اس کے انٹیلی جنس ادارے یا لشکر طیبہ و جیش محمد کا کیا قصور؟ 
بھارت نے 1984ء میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل‘ امرتسر پر فوج کشی اور خالصتان تحریک کے لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو توپ کے گولے سے اڑا کر اگرچہ آزادی کی اس تحریک کو کمزور کیا اور اس تحریک میں حصہ لینے والے سکھ نوجوانوں کی نسل کشی سے بظاہر امن قائم کر دیا مگر ظلم و بربریت کے ان واقعات نے سکھوں کی نوجوان نسل کی نفسیات پر دائمی اثرات مرتب کئے۔ خالصتان تحریک میں آٹھ ہزار سکھ نوجوانوں نے جان قربان کی‘ اس دوران مرنے والوں کی کل تعداد اکیس ہزار تھی۔خالصتان تحریک کو ختم کرنے میں پاکستان کی بے نظیر بھٹو حکومت نے بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کیاجس کا اظہار بعدازاںمحترمہ بے نظیر بھٹو نے ان الفاظ میں کیا: ''ہم نے بھارت کی راجیو گاندھی حکومت سے تعاون کیا مگر اس نے کراچی میں جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے مجھے مایوسی ہوئی‘‘۔ 
بھارتی فوج کشی کے بعد خالصتان تحریک سے وابستہ نوجوانوں نے کینیڈا اور برطانیہ کا رخ کیا اور دنیا بھر میں موجود سکھ کمیونٹی کو بار بار بھارتی مظالم کا بدلہ لینے اور الگ وطن کے قیام پر اکسایا۔ خالصتان تحریک کی طرف سے ہمیشہ یہ سوال اٹھایا گیا کہ 1947ء کی تحریک آزادی میں سکھوں کا کردار ناقابل فراموش تھا مگر مسلمانوں کو پاکستان ملا‘ ہندو پورے بھارت پر قابض ہو گئے‘ سکھوں کے ہاتھ کیا آیا؟ توہین‘ تذلیل اور حق تلفی؟ سکھوں کی پرانی نسل کے پاس کوئی جواب تھا نہ ہے۔ 1984ء کے بعد بھارت نے سکھوں کو حقوق دینے کے لیے بھی کوئی حوصلہ افزا اقدامات نہیں کئے اور ان وعدوں پر عملدرآمد کی ضرورت محسوس نہیں کی جو خالصتان تحریک کو ناکام بنانے میں پیش پیش سکھ لیڈروں سے کئے گئے تھے۔
ان دنوں یہ تحریک ایک بار پھر اندرون و بیرون بھارت زندہ ہو گئی ہے‘ جس کا ایک ثبوت 20جولائی سے پنجاب میں پولیس آپریشن کا آغاز ہے‘ جو اپنے حقوق کے لیے سرگرم عمل سکھوں کے خلاف جاری ہے اور سکھ نوجوانوں کو گرفتاریوں کے علاوہ پولیس تشدد کا سامنا ہے۔ جواباً سکھوں نے بھی بھارت کے اندر اور باہر ایک بار پھر احتجاج شروع کیا ہے۔ پولیس ایکشن سے ایک روز قبل برطانیہ میں مقیم ہزاروں سکھ باشندوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور امرتسر میں خالصتان کے حامیوں نے وزیر داخلہ راج ناتھ کو تقریر سے روکا اور مختلف مقامات پر خالصتان تحریک کے جھنڈے بھی لہرائے گئے۔ خالصتان تحریک کے اسیررہنما صورت سنگھ خالصہ جنوری سے بھوک ہڑتال پر ہیں جبکہ حکومت کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صورت سنگھ سے نرمی کی وجہ سے خالصتان تحریک کے حامیوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔
کشمیر میں گزشتہ اڑسٹھ برس سے بھارتی فوج نے ظلم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں‘ حد یہ ہے کہ بھارتی دعوئوںکے مطابق جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اور سرحدوں پر در اندازی بند ہو چکی ہے‘ مگر جب کشمیری عوام حق خود ارادیت کے حصول کے لیے پرامن احتجاج کرتے اور پاکستانی پرچم لہراتے ہیں تو انہیں فوج گولیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ کئی دوسرے مقامات پر بھی علیحدگی پسند سرگرم عمل ہیں جو کسی بھی مقام پر اس طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں جیسی گزشتہ روز دینا نگر میں چار مسلح افراد نے کی مگر بھارتی میڈیا‘ خفیہ ادارے‘ نااہل وزراء اور دیگر حکام معاملے کی تہہ تک پہنچنے‘ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر کے نہ صرف اپنے عوام کو گمراہ کرتے بلکہ انہیں پاکستان دشمنی پر اکساتے اور عالمی برادری کو اپنی مظلومیت کے قصے سناتے ہیں۔
اوفا مذاکرات کے بعد بھارت کی طرف سے الزام تراشی اور اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بھارت عالمی اور اندرونی دبائو پر مذاکرات کا وعدہ ایفا کرنے کے لیے تیار نہیں اور حیلوں بہانوں سے ایک بار پھر ممبئی حملوں کی طرح دینا نگر کے واقعہ کو بنیاد بنا کر متوقع مذاکرات کی بساط لپیٹنا چاہتا ہے۔ دینا نگر کی طرح کے کئی واقعات کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں ہوئے‘ ''را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ہماری ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں اور ڈرون طیارے سے ملنے والی معلومات سے بھی بھارتی شرارتوں کا اندازہ ہوتا ہے‘ مگر ہمارے حکمرانوں کا رویہ کیا ہے؟
دینا نگر کے پولیس سٹیشن میں فائرنگ کا آغاز ہی ہوا تھا کہ بھارتی میڈیا نے جس کی روشن خیالی اور پیشہ وارانہ مہارت و اخلاقیات کے گن ہمارے دانشور گاتے نہیں تھکتے‘ پاکستان پر الزامات کی گولہ باری شروع کر دی۔ متعّصب‘ تنگ نظر دفاعی ماہرین اور سرکاری حکام پیچھے کیوں رہتے‘ انہوں نے بھی پاکستان کو دھر رگڑا ۔ آئی ایس آئی‘ لشکر طیبہ اور جیش محمد ان کا مرغوب موضوع تھے۔ ایسی ایسی دور کی کوڑیاں لائے کہ الامان والحفیظ۔ کسی نے یعقوب میمن سے ناطہ جوڑا‘ کوئی امر ناتھ یاترا کو بیچ میں لایا اور کسی نے کشمیریوں کی جدوجہد پر طعنہ زنی کی۔ ایک بھی حقیقت پسند ایسا نہ تھا جو اپنے حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ناانصافی کا شاخسانہ قرار دیتا۔ ہمارے ہاں مگر بھارتی شردھالوئوں کی زبان پر تالے پڑے رہے۔ بعض ٹی وی چینلز نے تو اس واقعہ کو یوں نظر انداز کیا جیسے یہ نکارا گوا یا برونڈی میں ہوا ہو۔ دفتر خارجہ نے بھی راج ناتھ اور جتندر سنگھ کے بیانات پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
ہم نے بیگم مودی کو شالیں اور نریندر جی کو آم بھیج کر دل موم کرنا چاہا‘ کچھ فائدہ نہ ہوا‘ اُلٹاپاکستان‘ بھارتی گولہ باری ‘ بے ہودہ الزامات اور کراچی و بلوچستان میں مداخلت کا سامنا کر رہا ہے اورہمیں ان واقعات کا ذمہ دار بھی قرار دیا جا رہا ہے جو ہم نے کئے نہ ہمارے بس میں تھے ۔داد‘ البتہ میاں نواز شریف کو دینی چاہیے جو صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی تصویر بنے نریندر مودی سے اگلی ملاقات کا انتظار فرما رہے ہیں تاکہ کسی نئے تحفے سے مہاشے کا دل جیت سکیں۔ بھارت اس خوئے دلنوازی کو ہماری کمزوری سمجھتا ہے اور جونہی موقع ملے ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیتا ہے ۔ دینانگر واقعہ سے ثابت کیا ہوا ؟ ڈگی کھوتی توں غصہ کمہار تے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں