فرمان یہاں بھی اندھے ہیں

ڈاکٹر آغا غضنفر کو میں جانتا ہوں نہ کبھی ملا۔ ایک سابق بیوروکریٹ‘ سفارت کار اور ماہر تعلیم سے جان پہچان ضروری بھی نہیں‘ جس نے سرکاری ملازمت کے بعد آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور جو سابق گورنر چودھری محمد سرور کے دور میں پاکستانی اشرافیہ کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے قائم ادارے کا پرنسپل مقرر ہوا۔ دستیاب معلومات کے مطابق کسی کی سفارش پر نہیں‘ بلکہ ٹائمز آف لندن میں شائع ہونے والے اشتہار میں درج مقررہ تعلیمی قابلیت‘ تجربے اور انتظامی مہارت کی بنیاد پر۔
گزشتہ روز مگر اس پرنسپل کو بورڈ آف گورنرز نے فارغ کر دیا۔ سوشل میڈیا پر ایک ہفتہ قبل ہی یہ اطلاع گشت کر رہی تھی کہ سابق ایچی سونین پرنسپل کو بورڈ آف گورنرز ملازمت سے فارغ کر دے گا کیونکہ اس نے پنجاب کے ایک سابق گورنر کے علاوہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے سرداروں‘ مخدوموں اور میائوں کے ٹیسٹ میں فیل ہونے والے پوتوں کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس جرم کی کم از کم سزا ملازمت سے برطرفی ہے۔ میرٹ کا ڈنکا بجانے کا حق صرف حکمرانوں کو ہے ان کا کوئی ماتحت اور باجگزار میرٹ کی پاسداری نہیں کر سکتا۔
آغا غضنفر کا قصور صرف یہ نہیں کہ اس نے اشرافیہ کے نالائق پوتوں نواسوں کو داخلہ دینے سے انکار کیا‘ بلکہ پچھلے سال سابق گورنر چودھری سرور سے مل کر بورڈ آف گورنرز کے صوابدیدی اختیارات بھی ختم کر دیے تھے‘ جن کی آڑ میں ذہین‘ لائق اور محنتی بچوں کی حق تلفی کرتے ہوئے حکمرانوں‘ جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرمایہ داروں‘ بیوروکریٹس اور ان کے چمچوں کڑچھوں کے کودن بچوں کا داخلہ یقینی بنایا جاتا تھا۔ اس فیصلے سے حکمران خاندان متاثر ہوا اور تب سے پرنسپل کے نام پر سرخ دائرہ ہر سمجھدار کو نظر آنے لگا تھا۔ شنید یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل پرنسپل نے بورڈ آف گورنرز اور کالج کے بعض کرپٹ عناصر کے خلاف کورٹ آف لا سے بھی رجوع کیا تھا‘ مگر بااختیار بورڈ آف گورنرز نے انہیں چلتا کیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے میرٹ کی بانسری۔ 
گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ کا حاکمانہ جاہ و جلال اور جاگیردارانہ رعب و دبدبہ ضرب المثل ہے۔ ایک بار گورنر کی گورنمنٹ کالج لاہور کے درویش منش پرنسپل ڈاکٹر نذیر سے ٹھن گئی۔ اصول پسند‘ دیانتدار اور باکردار پرنسپل نے گورنر کی حکم عدولی کی‘ جس کی سزا گورنر نے پرنسپل کو ان کے عہدہ سے سبکدوشی کی صورت میں دینا چاہی‘ مگر جی سی کے طالب علموں اور پرنسپل کے ہمنوا اساتذہ کے علاوہ اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے فکرمند والدین نے لاہور کی سڑکوں پر نکل کر نواب آف کالاباغ کو یہ غلط اور علم دشمن فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔
دراصل یہ ان دنوں کا قصہ ہے‘ جب جابر اور سرکش حکمران بھی من مانی کرتے ہوئے معقولیت کا دامن چھوڑتے‘ نہ اپنے غلط فیصلے واپس لینے سے ہچکچاتے تھے۔ معروف بیوروکریٹ اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے نفس ناطقہ الطاف گوہر نے اپنی خود نوشت میں عوامی شاعر حبیب جالب کی گرفتاری کا واقعہ بیان کیا ہے۔ ایک شام گپ شپ کے دوران نواب آف کالا باغ نے الطاف گوہر سے پوچھا: ''الطاف صابا! شہر کی کیا خبریں ہیں‘‘ الطاف گوہر نے بتایا کہ ''سب ٹھیک ہے مگر ایک بات پر حکومت کی بھد اڑ رہی ہے کہ حکومت نے ایک شاعر سے ڈر کر اسے ایک غنڈے کو چاقو مارنے کے الزام میں پکڑ کر حوالہ زندان کر دیا ہے‘ لوگ اسے حکومت کی کمزوری اور خوف سے تعبیر کرتے ہیں‘‘ نواب صاحب نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور بولے: ''تو پھر اسے چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔
مگر اب ویسے حکمران‘ نہ ڈاکٹر نذیر جیسے نڈر ماہر تعلیم کے پرستار‘ حبیب جالب جیسے شاعر‘ نہ الطاف گوہر جیسے سخن فہم قدردان۔ حکمران و سیاستدان وہ ہیں‘ جو اپنے نالائق بچوں کی خاطر پوری قوم کے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے پر آمادہ‘ اور بیوروکریٹس ماشاء اللہ ایسے کہ چاپلوسی اور خوشامد میں نوبل انعام کی کیٹگری ہوتی تو ہر سال پاکستان وکٹری سٹینڈ پر نظر آتا۔ میرٹ کا شور بہت ہے اور پنجاب میں جہاں حکمرانوں کے اپنے مفادات پر زد نہ پڑتی ہو اس کا خیال رکھا جاتا ہے‘ مگر ہماری ظالم اشرافیہ اور اس کے ہمدم و ہم قدم طبقات کی خواہش و کوشش یہی نظر آتی ہے کہ جہاں جہاں جس جس ادارے میں میرٹ کا تھوڑا بہت خیال رکھا جا رہا ہے‘ وہاں ایک بار پھر ماضی کی طرح دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کو رواج دیا جائے اور غریب و متوسط ہی نہیں اعلیٰ کلاس کے ہونہار ذہین اور محنتی بچوں اور ان کے والدین کے علاوہ اساتذہ کی جس قدر حوصلہ شکنی ممکن ہو‘ کی جائے۔ علم و ذہانت بیرون ملک فرار ہو اور جہالت و پسماندگی کے اندھیرے پاک سرزمین پر چھائے رہیں۔
گلیاں ہو جان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے
میرٹ کے اس قتل پر میاں شہباز شریف کو قبل از وقت نوٹس لینا چاہیے تھا‘ مگر جن بڑے لوگوں کے پوتے نواسے ٹیسٹ میں فیل ہونے کی بنا پر داخلے سے محروم ہوئے‘ انہیں ناراض کرنا دانشمندی نہ تھی لہٰذا اس تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو داخل کرانے والوں کی قسمت۔ پہلے انہیں گلہ تھا کہ لطیف کھوسہ اور مخدوم احمد محمود کے دور گورنری میں اس ادارے کا معیار گر رہا ہے‘ اب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل جل کر ان کا یہ گلہ دور کر دیا ہے اور پتہ یہ چلا ہے کہ ''خوچہ تمہاری قسمت ہی خراب ہے‘‘۔ کسی ناانصافی کا ازالہ نظام انصاف ہی کر سکتا ہے‘ مگر پورے ملک بالخصوص پنجاب میں نظام انصاف کی جو حالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ حد یہ ہے کہ نظام انصاف کی اساس اور شہریوں کو ان کے گھر کے قریب انصاف فراہم کرنے والے سول جج ان دنوں خود ناانصافی اور بے رحمانہ زیادتی کا رونا رو رہے ہیں‘ کیونکہ انہیں دس سالہ تجربے کے باوجود ایڈیشنل سیشن جج کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں جبکہ سول ججی کے امتحان میں فیل ہونے والے وکیلوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دس سالہ تجربے کا سرٹیفکیٹ دکھا کر امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں اور ان سول ججوں کو پیچھے دھکیل کر سیشن جج اور پھر ہائی کورٹ کے جج بھی بن سکتے ہیں۔ 
اول تو سول ججوں اور ایڈیشنل سیشن ججوں کا تقرر وفاقی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونا چاہیے۔ فارن سروس‘ ڈی ایم جی گروپ‘ پولیس گروپ‘ انفرمیشن گروپ کی طرح جوڈیشل گروپ بنا کر اسامیوں کے مطابق بھرتیاں کی جائیں۔ وکلاء کو براہ راست عدلیہ میں بھرتی کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ سول ججوں کی حق تلفی ہوتی ہے‘ دوسرے وکلا کی سیاست بھی عدل و انصاف کے شعبے پر اثر انداز ہوتی ہے اور سیاستدان‘ حکمران بھی اپنے اہالی موالی عدلیہ میں داخل کر کے من پسند فیصلے حاصل کرتے ہیں۔ کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ اس وقت چاروں صوبوں کی ہائی کورٹوں حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی پچھلے بیس پچیس سال سے باری باری حکمرانی کا مزہ لوٹنے والی جماعتوں کے ہمدرد‘ بہی خواہ اور حامی بکثرت موجود ہیں‘ ان کی اکثریت ایماندار‘ لائق‘ منصف مزاج اور اصول پسند ہے مگر سیاسی وابستگیوں سے انکار ممکن نہیں۔
سول ججوں کو ایڈیشنل سیشن جج کے امتحان میں شرکت سے روکنا ایسی ناانصافی ہے جس کا کوئی ادنیٰ جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ وکلا برادری کو خوش کرنا ہر حکومت کی مجبوری ہے۔ چیف کے جانثاروں کو ایک سالہ جدوجہد کا انعام ملنا چاہیے‘ مگر سول ججوں کی حق تلفی اور ناانصافی کی صورت میں نہیں۔ سول جج بے چارے ینگ ڈاکٹرز کی طرح سڑکیں بلاک کر سکتے ہیں‘ نہ وکیلوں کی طرح عدالتوں کا گھیرائو۔ دوسرے صوبوں میں ایسی پابندی نہیں آخر سول جج اور ایڈیشنل سیشن جج کی بھرتی کے لیے الگ الگ معیار کیوں؟ کیا اس طرح میرٹ اور انصاف کا بول بالا ہوتا ہے؟ جس ملک میں چیف جسٹس کو انصاف سڑکوں پر خوار ہو کر ملا اور سول جج حصول حق کے لیے عدلیہ کے بجائے میڈیا کو اپنی بپتا سنانے پر مجبور ہیں وہاں آغا غضنفر سوچ سمجھ کر میرٹ پر اصرار کرتے ہیں؎
دستور یہاں بھی گونگے ہیں‘ فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے‘ ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں