تحریک انصاف اور عمران خان حکومت کے گلے کی پھانس بنتے جا رہے ہیں۔ نگلنا اور اگلنا دونوں مشکل۔ دھرنا ختم ہوئے آٹھ ماہ گزر گئے میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور ان کے سنگی ساتھی موقع بے موقع اس کا ذکر کرکے اپنے زخم ہرے کرتے ہیں۔ جوڈیشل کمشن کی رپورٹ حکومت کے لیے اطمینان بخش تھی مگر دھرنے میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ظہیر الاسلام اور شجاع پاشا کا کردار تلاش کر کے حکمرانوں نے خواہ مخواہ اپنی کامیابی کے دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں۔
خواجہ آصف نے اگر برسبیل تذکرہ دھرنے سے سازش کا پہلو نکال ہی لیا تھا تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو کمشن تشکیل دینے کا مطالبہ کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ جوڈیشل کمیشن منظم دھاندلی کا سراغ نہیں لگا سکا۔ اسی طرح کا کوئی کمشن کسی پرائم ایجنسی کی طرف سے عمران خان کی پشت پناہی اور دھرنے کی منصوبہ بندی کیسے اور کس طرح ثابت کرے گا یہ شائد شہباز صاحب کو کسی نے نہیں بتایا۔
عمران خان سے گزشتہ روز میاں شہباز شریف کے مطالبہ کے حوالے سے سوال ہوا تو الفاظ چبائے بغیر انہوں نے تحقیقاتی کمشن تشکیل دینے کی حمایت کی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر مطالبہ کر دیا کہ حکومت کو یہ کمشن ضرور تشکیل دینا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ عمران خان نے اس نہلے پر دہلا مارا کہ اصغر خان کیس میں جن سیاستدانوں پر ایجنسیوں سے پیسے لینے کا الزام ہے، انہیں بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
جمشید اقبال چیمہ کی طرف سے سینئر صحافیوں کے ساتھ عمران خان کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں جوڈیشل کمشن کی رپورٹ پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جوڈیشل کمشن رپورٹ پر عمران خان پریشان ہیں نہ دل گرفتہ۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی رکنیت کے حوالے سے جو بحث جاری ہے اس پر بھی ان کا ردعمل جارحانہ نہیں ''ہم اپنا کردار پارلیمنٹ میں ادا کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ اگر ایم کیو ایم اور جے یو آئی کی آڑ میں کوئی کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو خوشی سے کھیلے، ہم پارلیمنٹ میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کے لیے تیار ہیں‘‘ عمران خان نے بار بار سوالات پر جواب دیا۔
آر اوزکے حوالے سے عمران خان کے تحفظات برقرار ہیں اور وہ اگلے عام انتخابات میں الیکشن کمشن کے ماتحت ایک ایسی مستعد‘ دیانتدار اور منظم ٹیم دیکھنا چاہتے ہیں جو کسی کو دھاندلی کرنے دے نہ خود ملوث ہو۔ تاہم عمران خان جب 1970ء کے انتخابات کو جن کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا شفاف اور غیر متنازعہ قرار دیتے ہیں تو ان کی سادہ دلی مار ڈالتی ہے۔ انہوں نے دوران بریفنگ حفیظ پیرزادہ کا حوالہ دے کر جب بتایا کہ 1977ء کے انتخابات میں صرف دس نشستوں کا تنازعہ تھا تو ؎
ہم ہنس دیئے‘ ہم چپ رہے‘ منظور تھا پردہ ترا
بدقسمتی سے عمران خان کے اردگرد بعض ایسے لوگ جمع ہو گئے ہیں جنہوں نے پاکستان کی انتخابی تاریخ کا ژرف نگاہی سے کبھی مطالعہ کیا‘ نہ جھرلو اور دھاندلی کی تاریخ پڑھی اور نہ ایوب خان‘ بھٹو اور ضیاء الحق کے خلاف احتجاجی تحریکوں سے واقف ہیں۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی جو تاریخی تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی اس کا عشر عشیر بھی نہیں اور دھاندلی زدہ الیکشن اور حکومت کے خلاف جو تحریک پشاور سے کراچی اورکوئٹہ تک چلی وہ بے نظیر و بے مثال تھی۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک کے دوران تو کہیں کرفیو لگا نہ مارشل لاء مگر 1977ء میں 5جولائی سے قبل ہی احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے ''منتخب‘‘ ''عوامی ‘‘ حکومت نے چار شہروں میں مارشل لاء لگا دیا تھا لیکن یہ بہرحال جملہ معترضہ ہے اور عمران خان کے جوڈیشل کمشن رپورٹ کے حوالے سے تحفظات اور حکومت و الیکشن کمیشن سے مطالبات اپنی جگہ درست ہیں۔
ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے پی ٹی آئی ارکان کی رکنیت ختم کرنے کی تحریک اگرچہ اپنے طور پر پیش کی مگر اسے ابتدا میں نمٹانے کے بجائے محض تحریک انصاف کو رسوا کرنے کی جو پالیسی حکومت نے اپنائی وہ الٹا حکومت کے گلے پڑ گئی ہے۔ حکومت کے پی ٹی آئی کو للکارنے کے بجائے اب شاہ محمود قریشی حکومتی پارٹی اور سپیکر کو للکار رہے ہیں کہ جرأت ہے تو تحریک پر رائے شماری کرائیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو خطرہ یہ ہے کہ تحریک پر ووٹنگ ہوئی تو اس کی اپنی پارلیمانی پارٹی کے بعض عقاب صفت ارکان اور نادان دوست ایم کیو ایم و جے یو آئی کی تحریک کے حق میں ووٹ دے کر اس کے لیے سبکی کا باعث بن سکتے ہیں یوں پی ٹی آئی ایوان سے آئوٹ ہونے کے بجائے سرکاری پارٹی کے اندرونی اختلافات کو اجاگر کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی بنا پر وزیر اعظم نے اے پی سی بلا ڈالی اور سرکاری وفد ایم کیو ایم اور جمعیت علماء اسلام کی منتیں کرتا پھرتا ہے۔ دونوں جماعتیں بالآخر مان تو جائیں گی مگر اس کی بھاری قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑے گی۔
دھرنا اور لندن پلان کی تحقیقات کے لیے شہباز شریف کی ہاں میں ہاں ملا کر عمران خان نے حکومت کے لیے ایک اور مشکل پیدا کر دی ہے۔ کمشن نہیں بناتے تو حکومت پر بزدلی کا الزام لگتا ہے‘ بنائیں تو پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ جیسے نتائج و اثرات کا اندیشہ ہے ع
غرض دوگونہ عذاب است جانِ مجنوں را
حکمران بھی جائیں تو جائیں کہاں؟ جن لوگوں کا خیال تھا کہ جوڈیشل کمشن کی رپورٹ عمران خان کے حوصلے پست اور تحریک انصاف کی مقبولیت ختم کر دے گی انہیں اب یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر عمران خان ایک بار پھر میدان میں نکل پڑے اور غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ لوڈ شیڈنگ اور بدامنی کے ایشوز پر عوام کو متحرک کر دیا تو حکومت کی جوابی حکمت عملی کیا ہو گی۔ ویسے آپس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اب انہی ایشوز پر سیاست کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور ایک تھنک ٹینک اس حوالے سے تجاویز بھی مرتب کر رہا ہے۔
چودھری محمد سرور مسلم لیگ کی صفوں میں نقب زنی میں مصروف ہیں اور کامونکی کے الیکشن نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے جبکہ عام و بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی عمران خان کی ٹیم ایسے امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دے رہی ہے جو ابھی سے اپنے حلقوں میں کام شروع کر دیں۔ تحریک انصاف اب ماضی کی غلطیاں دہرانے کا ارادہ نہیں رکھتی اور سبق سیکھنے کا دعویٰ کرتی ہے؛ تاہم اب تک یہ محض ارادہ اور خواہش ہے۔ چائے اور لبوں کے مابین فاصلہ موجود ہے ؎
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں