سازشی تھیوری

ہے تو یہ سازشی تھیوری مگر قرین قیاس بھی ہے اور قابل فہم بھی۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپریشن تو عروس البلاد کراچی میں پہلے بھی تین بار ہوا۔ ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی تک نشانہ بنے مگر الطاف بھائی نے بھارت کو اس بارہی پکارا اور بھارتی ہائی کمشنر ٹی ایس راگھون کو خط لکھنے کی نوبت پہلے کبھی نہیں آئی۔ ایک ماہ قبل ایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کا بھارتی کمشنر کے نام خط منظر عام پر آیا تو پوری قیادت مُکر گئی مگر اس بار وسیم اختر اور دیگر رہنمائوں نے اعتراف کیا۔
سازشی تھیوری یہ ہے کہ پاکستان میں بھارتی مداخلت کا الزام سول اور فوجی قیادت کی طرف سے ہمیشہ لگتارہا۔ تخریب کاری اور دہشت گردی میں ملوث بھارتی باشندے اور مقامی آلہ کار گرفتار بھی ہوئے۔ لاہور اور فیصل آباد دھماکوں میں ملوث بھارتی باشندے سربجیت سنگھ کو عدالتوں سے سزائیں بھی ملیں مگر ''را‘‘ کی مداخلت کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان اور آرمی چیف کا اہم ممالک کے دارالحکومتوں میں جا کر اعلیٰ ترین عہدیداروں کے سامنے شواہد پیش کرنے کا واقعہ پہلی بار رونما ہوا۔ ہمیشہ بھارت نے ہمیں دیوار سے لگائے رکھا اور در اندازی کا الزام لگا کر صفائیاں دینے پر مجبور کیا۔
ممبئی حملوں کے بعد پاکستان ہر فورم پر مجرموں کی طرح وضاحتیں ہی پیش کرتا رہا‘ ایک بار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کے سامنے بلوچستان میں ''را‘‘ کی مداخلت کے ثبوت رکھے جس کا کوئی جواب سردار جی سے نہ بن پڑا مگر پھر ہم خاموش ہو کر بیٹھ رہے۔ پہلی بار پاکستان نے اندرون ملک بھارتی ایجنٹوں کا گھیرا تنگ کرنے کے علاوہ بیرون ملک عالمی فورم پر انہیں بے نقاب کرنے کا منصوبہ بنایا‘ بھارت کی ریشہ دوانیاں طشت ازبام ہونے کا امکان پیدا ہوا اور پاکستان میں بھارتی سرمایہ کاری ضائع ہوتی نظر آ رہی ہے اس لیے حکومت پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لانے اور ''را‘‘ کی مداخلت کے ثبوت پیش کرنے سے روکنے کے لیے بھارت نے ایم کیو ایم کے لندن سیکرٹریٹ میں اپنے موثر رابطوں کو بروئے کار لا کر الطاف حسین کو جذباتی بیان بازی پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کاوش ہے۔
پاک فوج اور رینجرز پر کراچی میں مہاجروں کی نسل کشی کا الزام ایک طرف تو کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی پر پردہ ڈالنے کی تدبیر ہے دوسری طرف پاکستان کو یہ باور کرانے کی کوشش‘ کہ اگر اس نے اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی ادارے میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا اور کشمیر میں بھارتی فوج کی مجرمانہ کارروائیوں پر احتجاج کیا تو ہمارے پاس بھی الطاف حسین کی پاکستان‘ فوج‘رینجرز ‘ پولیس اور دوسرے اداروں کے خلاف چارج شیٹ موجود ہے اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں عارف خان ایڈووکیٹ‘ عبدالقادر خانزادہ اورشبیر خان قائم خانی کا خط بھی، جس میں کراچی میں مہاجر کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے مظالم کی تفصیل کے ساتھ مداخلت کی اپیل شامل ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار‘ وسیم اختر اور کنور یونس خالد نے بھارتی ہائی کمشنر کے نام لکھے گئے خط پر جو متضاد اور گمراہ کن موقف اختیار کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت سے رابطوں اور امداد کی اپیل کے معاملے پر ایم کیو ایم میں اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں اور الطاف حسین کی سینہ کوبی کے پیچھے وہ دبائو کارفرما ہے جس کا ایم کیو ایم کی تقسیم و تحلیل کی بنا پر قائد تحریک سامنا کر رہے ہیں۔ اس بار کراچی کے عوام نے فطرانے کی صورت میں بھتہ نہ دے کر لندن سیکرٹریٹ کو مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے جس کا اظہار الطاف بھائی سابقہ دو تین تقریروں میں کھل کر فرما چکے۔ ایک درجن کے قریب اہم رہنمائوں کا ملک سے فرار اور باقی ماندہ رہنمائوں کی طرف سے فوج یا رینجرز کے مقابلے میں آنے اور احتجاجی تحریک چلانے سے انکار بھی پریشانی اور اضطراب کا سبب ہے۔ دبئی‘ ملائشیا‘ جنوبی افریقہ اور کینیڈا میں بھتہ خور‘ ٹارگٹ کلر اور اغوا کار مافیا کے خلاف قانونی کارروائی اور بعض گرفتاریوں نے بھی ہیجان میں اضافہ کیا ہے۔
ایک دورتھا جب الطاف بھائی کے ادنیٰ اشارے پر کراچی چند منٹوں میں بند اور گلی کوچے قتل گاہوں میں تبدیل ہو جاتے تھے۔ میڈیا گھنٹوں تک قائد کی تقریر دکھاتا ‘سناتا اورسیاسی جماعتوں کے سربراہ آصف علی زرداری‘ میاں نوازشریف اور دیگر نائن زیرو پر حاضری کودُنیا اور آخرت سنوارنے کا ذریعہ سمجھتے۔ رحمان ملک الطاف بھائی کے سامنے یوں دو زانو بیٹھے نظر آتے جیسے وہ وزیر داخلہ نہیں مرید باصفا ہیں۔ رعب و دبدبے کا یہ عالم کہ بلاول بھٹو زرداری نے دوران تقریر انکل سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی تو شریک چیئرمین اوروالد گرامی نے برخوردار‘ کی زبان بندی کر دی‘ ممکن ہے علیحدگی میں خوب گوشمالی بھی کی ہو مگر راوی اس بارے میں خاموش ہے۔
یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا کہ عام کارکن تودرکنار رابطہ کمیٹی کے ارکان‘ سابق وزراء اور اہم عہدیدار الطاف بھائی کے بقول ''مشکل وقت پڑتے ہی دم دبا کر بیرون ملک بھاگ گئے‘‘ نائن زیرو پر اداسی بال کھولے سو رہی ہے اور اپنے عوام سے مایوس ہو کر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اقوام متحدہ‘ نیٹو اور بھارت سے اپیلیں کرنی پڑ رہی ہیں کہ جو بھتہ خور‘ ٹارگٹ کلرز اور اغوا کار کراچی میں پکڑے گئے انہیں رہائی دلائیں۔ اگر یہ خط منظر عام پر نہ آتا اور میڈیا کو تحریری ثبوت نہ ملتا تو ایم کیو ایم کے لیڈر اورمسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں الطاف حسین کے بہی خواہ وضاحتیں اور صفائیاں پیش کرتے رہتے اور کراچی آپریشن کی پیٹ میں چھرا گھونپنے کے لیے بیک ڈور ڈپلومیسی شدو مد سے چلتی رہتی۔
سیاست ہمارے ہاں کسی زمانے میں مشن اور عوامی خدمت کا ذریعہ تھی مگر اب منافقت‘ مصلحت پسندی اور فریب کاری کا نام ہے۔ جمعرات کی دوپہر سپیکر ایاز صادق قیادت کے دبائو پرالطاف حسین سے ٹیلی فونک گفتگو کی تفصیل سے ایوان کو آگاہ کر رہے تھے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما‘ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی بلائیں لینے میں پیش پیش تھے مگر ٹھیک دوسرے روز تحریک انصاف اور فنکشنل لیگ کے ساتھ مل کر سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کی تقریروں اور ایم کیو ایم کے خط کی بڑھ چڑھ کر مذمت کرنے میں دونوں جماعتیں یک زبان تھیں‘ الطاف حسین کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ بھی شدو مد سے کیا گیا حتیٰ کہ سپیکر سراج درانی ایم کیو ایم کے ارکان کی بات سننے کے روادار بھی نہ تھے حالانکہ ایک روز قبل قومی اسمبلی میں ڈاکٹر فاروق ستار‘ رشید گوڈیل ‘ سلمان بلوچ اور دیگر ایم کیو ایم رہنمائوں کو کھل کر اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ مرکز اورسندھ میں برسر اقتدار جماعتوں اور حکومتوں کی یہ کایا کلپ؟ باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی۔ سچ کہا تھا مولانا ابوالکلام آزاد نے‘ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ 
طویل عرصے تک پاکستانی عوام یہ سوچ کر دل پشوری کیا کرتے تھے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کے ستم رسیدہ‘ بے روزگار اور پسماندہ باشندے تلاش روزگار‘ تحفظ اور پناہ کے لیے پاکستان آتے ہیں اور یہاں آ کر رچ بس جاتے ہیں پاکستان سے کبھی کوئی بھارت نہیں گیا۔ کشمیری عوام‘ بھارتی مسلمان اور مشرقی پنجاب کے سکھ بھی پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں مگر بھارت اب خورسند ہے کہ اُسے بھی پاکستان سے کسی نے مدد کے لیے پکارا۔ اگرچہ یہ صدا بہ صحرا ہے جس طرح پاکستان میں بھارتی آلہ کاروں کو شمالی وزیرستان سے بلوچستان تک ہر جگہ ناکامی ہوئی ہے‘ بھارت کو اس محاذ پر بھی شرمندگی اوررسوائی نصیب ہو گی‘ انشاء اللہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں