شہرسدوم……چل بُلھیا چل اوتھے چلیے

قصور کے نواحی قصبہ حسین خان والا میں دو سو سے زائد معصوم بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کا واقعہ افسانہ ہے نہ خاندانی و گروہی رنجش کا شاخسانہ اور نہ زمین کا تنازع۔ چھ سال سے یہ مکروہ دھندا جاری تھا اور اگر چار ماہ قبل پنچایت کے دوران ایک شخص کھڑے ہو کر یہ فریاد نہ کرتا کہ حسیم عامر اور اس کے بدقماش ساتھی اسے بلیک میل کر رہے ہیں تو شاید آج بھی کسی کو علم نہ ہوتا کہ قصور کے قریب ایک شہرسدوم (Sodom City) بس چکا ہے، جہاں صرف نوجوان لڑکوں نہیں بلکہ لڑکیوں کی عزتیں بھی دھڑلے سے لوٹی جاتی ہیں۔
قصور صوفی بزرگ بلھے شاہؒ کی نگری ہے۔ دیگر صوفیا کی طرح بلھے شاہ ؒنے زندگی بھر معاشرے میں رواداری، عدل، انسان دوستی اور مساوات کا درس دیا اور دلوں کو جوڑنے کی کوشش کی۔ انسان دوستی کا پرچار کرتے ہوئے وہ یہاں تک چلے گئے۔ ؎
مسجد ڈھادے، مندرڈھادے، ڈھادے جو کجھ ڈھنیدا
اک بندے دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا
حسین خان والا گائوں میں بدفعلی سکینڈل کے مرکزی کردار حسیم عامر کا خاندان 2007ء میں تحصیل پتوکی سے آ کر آباد ہوا اور اڑھائی تین کنال رقبے پر مشتمل حویلی بنائی۔ رانا ثناء اللہ اور آر پی او شیخوپورہ شہزاد سلطان اراضی کے جس تنازع کا ذکرکرتے ہیں وہ انہی دنوں وقوع پذیر ہوا مگر بعدازاں معززین علاقہ نے تصفیہ کرادیا اور زیادتی کے واقعات حسیم عامرکے حسین خان والا میں قیام کے بعد شروع ہوئے۔ یہ قصبہ اردگرد کے دیگر دیہات سے نسبتاً ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔تھانہ گنڈا سنگھ والا سے متصل حسین خان والا میں بچوں اور بچیوں کے دوسرکاری ہائی سکولوں کے علاوہ دو پرائیویٹ سکول بھی ہیں مگر بدقسمتی سے تعلیم نے بھی ان بدقماشوں کا کچھ نہیں بگاڑا اور یہ حسیم عامر کے ڈیرے کے علاوہ ایک سکول کو بھی گناہ کے اڈے کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ بقول بلھے شاہ ؎
علم پڑھیاں اشراف نہ ہوون جیہڑے ہوون اصل کمینے
پِتّل کدی نئیں سونا ہوندا بھاویں جڑئیے لعل نگینے
شوم تھیں کوئی نئیں صدقہ ہوندا بھاویں ہوون لکھ خزینے
بلھیا باجھ توحید نئیں جنت ملدی بھاویں مریئے وچ مدینے
ملزموں کے حوصلے مزید بلند ہوئے تو انہوں نے زیادتی کے ان واقعات کو شہوانی جذبات کی تسکین کے علاوہ کاروبار بنالیا۔ حسیم عامر کے ڈیرے پر ورغلا کرلائے جانے والوں کی مبینہ طور پر ویڈیو بنائی جاتی اور اس ویڈیوکو نہ صرف بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا جاتا بلکہ ان ویڈیوز کو اندرون و بیرون ملک بیچ کر پیسے بھی کمائے جاتے۔ ایک ایک متاثرہ بچے اور اس کے والدین سے لاکھوں روپے بٹورے گئے۔ گائوں بگے کی ایک بچی نے بدنامی کے خوف سے خودکشی کرلی۔ 
تھانہ گنڈا سنگھ سے رجوع کیا گیا مگر پولیس نے ابتدا میں روایتی سہل پسندی اورٹال مٹول سے کام لیا۔ تاہم پورے گائوں اور اردگرد کی بستیوں میں ان واقعات کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی۔ مقامی ایم پی اے ملک احمد سعید پر الزام تراشی اس بنا پر ہو رہی ہے کہ جب پنچایت والے واقعہ کے بعد پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کیا تو تھانے پر ہلہ بولنے، ایس ایچ او مہر اکمل کو زدوکوب کرنے اور ملزم کو تھانے سے چھڑا کر لے جانے والوں کو مبینہ طور پرموصوف کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے4 جولائی کے لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران فورس پر پتھرائو کرنے والوں کے خلاف تو مقدمات درج کرلئے اور میڈیا پر بھی شور مچایا مگر مہراکمل پر تشدد کرنے، تھانے پر ہلہ بولنے اور ملزموں کو چھڑانے والوں کا کبھی ذکر نہیںکیا۔ 
لوگ اتنا عرصہ چپ کیوں رہے؟ جواب واضح ہے کہ ایک ایسے شرمیلے معاشرے میں کون اپنے بچے، بچی کی عزت اچھالنا پسند کرتا ہے، جہاں تذلیل کا امکان غالب اور حصول انصاف کی توقع نہ ہونے کے برابر ہو۔ یہ ایک بچے یا بچی نہیں پورے خاندان کو سرعام رسوا کرنے کے مترادف ہے۔ ملزم اگر بارسوخ، طاقتور اور جرائم پیشہ ہوںتو خوف کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اگر اب بھی ہزاروں مردوزن سڑکوں پر نہ نکلتے، مقامی عوامی نمائندوں اور پولیس کی طرف سے سنگین جرائم کی چشم پوشی اور ملزموں کے ساتھ رو رعایت پر احتجاج نہ کرتے تو حکومت پنجاب،مقامی پولیس و انتظامیہ اور قومی ذرائع ابلاغ کا طرز عمل اتنا ہمدردانہ، مشفقانہ اور جاندار کبھی نہ ہوتا!
گزشتہ شب لارڈ نذیر احمد نے دوران ملاقات بتایا کہ برطانیہ میں اڑھائی تین لاکھ آبادی کے شہر رادھرم (جہاں سے نذیر احمد ہائوس آف لارڈز کے رکن ہیں) میں جنسی زیادتی کے 1400 واقعات منظر عام پر آئے۔ اس معاشرے میں یہ مرض عام ہے۔ نابالغ لڑکے اور لڑکیاں بالعموم بدفعلی کا نشانہ بنتی ہیں مگر پاکستان اور برطانیہ میں فرق یہ ہے کہ وہاں کسی جرم کا پتہ چلتے ہی تدارک کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ برطانیہ نے نیوزی لینڈ سے ایک جج کو منت سماجت کرکے بلایا، پانچ لاکھ پونڈ سالانہ معاوضہ طے ہوا اور اسے دیگر تمام سہولتیں اور مراعات دیکرایسے تمام مقدمات کی تفتیش اورتدارک کی تدابیر کا فرض سونپا مگر پاکستان میں ایک سو چالیس بچوں سے زیادتی کامرتکب جاوید اقبال اعتراف جرم کے باوجود قانون کے ذریعے کیفرکردار کو نہیں پہنچا ،بلکہ خودکشی کی موت مرا۔
ہم جنس پرستی اور نابالغ بچوں سے زیادتی امریکہ اور یورپ میں آہستہ آہستہ فیشن بنتی جا رہی ہے۔ امریکی عدالت عظمیٰ نے مردوں سے مردوںاور عورتوں سے عورتوںکی شادی کو جائزقرار دیکر قوم لوط کے عمل کو معاشرتی سطح پرتقدس اور احترام عطا کردیا ہے۔ پاکستان میں بھی امریکی سفارتخانہ کچھ عرصہ قبل بعض دانشوروں اورثناء خوانِ تہذیب مغرب کو بلا کر ہم جنس پرستی کے حق میں فضا ہموار کرنے کی ترغیب دے چکا ہے۔ 
مغرب کی جاہلانہ تقلید، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لاپروائی،فلموں اور ٹی وی پروگراموں میں تلذذ آمیز مناظر اور مکالمے۔ یورپی اوربھارتی فلموں کی یلغار، انٹرنیٹ پر ممنوعہ فلموں کی موجودگی، جنسی درندوں کو قانون کی اپنے نامزد کردہ جانشینگرفت میں لانے سے گریز، اخلاقیات کے نام سے بدکنے کا رویہ اور بدتہذیبی و بداخلاقی کی ترویج معاشرے میں حسین خان والا جیسے واقعات کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، ماہرین تعلیم، مبلغین اورذرائع ابلاغ میں سے کسی کو پروا نہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے فحش ویب سائٹ بلاک کرانے کیلئے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر انہیں مناسب ریلیف نہ ملا۔ فحاشی کی تعریف کیا ہے، پر بحث ختم ہوگئی۔ تاہم یہ فعل قانونی اور سماجی سطح پر جرم ہے، گناہ اور ناقابلِ بیان معاشرتی المیہ۔ 
جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں لاہور کے پپو نامی ایک بچے سے زیادتی اور قتل کے ملزموں کو سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے سزا دی تھی اور اسے شہر کے ایک معروف چوک میں پھانسی دی گئی تھی جس کے بعد اس طرح کا کوئی دوسرا واقعہ اگلے دس سال تک منظر عام پر نہیں آیا۔ اب بھی کسی جوڈیشل کمشن کے ذریعے اس سنگین معاملے کو دبانے اورعوام کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ جنسی دہشت گردی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزمان اور ان کے سرپرستوں کو قانون کی گرفت میں لا کر بے داغ تفتیش کے بعد کسی ملٹری کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور مجرم ثابت ہونے پر حسین خان والا کے اس ڈیرے کے سامنے لٹکایا جائے جہاں برس ہا برس تک معصوم بچوں اوربچیوں کے ساتھ وحشت اور درندگی کا یہ کھیل کھیلا گیا۔
ان پولیس افسروں اور اہلکاروں سے بھی باز پرس ہونی چاہیے جو زمین کا تنازع قرار دیکراس شرمناک واقعہ کی پردہ پوشی کرتے رہے۔ پولیس افسران خوش قسمت ہیں کہ انہیں جمہوری حاکم ملا جسے چھ سال تک ایسے مکروہ واقعات کی خبر ہوتی ہے نہ ہزاروں افراد کے سڑکوں پر نکلنے کے بعد بھی اصل واقعہ کا علم۔ اگر شیرشاہ سوری جیسے پرانے دور کا کوئی دقیانوسی حکمران ہوتا تو سب سے پہلے وہ کوتوال شہر سے لیکر حاکم ضلع تک سب کو جیل میں ڈالتا پھراصل ملزموں کی باری آتی مگرموجودہ جمہوریت میںیہی فائدہ ہے کہ عام شہری کو کوئی ریلیف ملے نہ ملے جرائم پیشہ افراد، گروہوں اور ان کی سرپرست پولیس و انتظامیہ ضرور مستفید ہوتی ہے۔
ڈھنگ سے تفتیش ہوئی، طاقت ، اثرورسورخ اور دولت رکاوٹ نہ بنی اور سیاسی دبائو کارگر نہ ہوا تو ان انسانیت سوز واقعات کے سارے منحوس ''بد‘‘ کردار ایک ایک کرکے سزایاب ہوں گے۔ گائوں ''بگے‘‘ کی بچی نے خودکشی کیوں کی؟ کس بیوہ نے زیور بیچ کر اپنی بچی یا بچے کو بدنامی سے بچانا چاہا؟ کس طرح بچے اور بچیاں بدنامی کے خوف سے اپنے دوستوں اور سہیلیوںکو ورغلا کر ان درندوں کے ڈیرے پر لے جاتے رہے؟ ویڈیوز کہاں فروخت ہوئیں؟ یہ مقامی معاملہ تھا یا قومی، بین الاقوامی سطح کا کوئی گروہ سرگرم عمل؟ ان سارے سوالات کا جواب قوم کو ملنا چاہیے اور مجرموں کو تیز رفتار نظام انصاف کے ذریعے قرار واقعی سزا۔
قوم شرمندہ ہے، مگر دکھ کی شدت انہیں معلوم جن پر بیتی، کسی کو منہ دکھانا تو درکنار انہیں ظالموں نے ایک دوسرے سے آنکھ ملانے کے قابل بھی نہ چھوڑا ؎
چل بلھیا چل اوتھے چلیے جتھے سارے انھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے ،نہ کوئی سانوں منّے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں