وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

ایم کیو ایم نے استعفوں کا کارڈ کھیل کر فوج اور رینجرز کو کس قدر پریشان کیا؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے سیاسی اتحادیوں آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور محمود خاں اچکزئی کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ استعفوں کی منظوری سے سیاسی بحران کا ڈر اور مسترد کریں تو آئینی بحران یقینی اور آپریشن میں مصروف قوتوں میں بے چینی۔ 
قومی سیاست میں آئین کو کبھی تقدس حاصل ہوا نہ اسے کاغذ کے چند ٹکڑوں سے زیادہ اہمیت ملی‘ یہ موم کی ناک ہے جسے توڑنا موڑنا آسان اور طاق پر دھرنا مرغوب۔ چنانچہ آئین کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی بحران کو ٹالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایم کیو ایم کی مجبور ی و بے بسی عیاں ہے۔ اپنے قائد الطاف حسین کی مرضی اور منشا کے بغیر کچھ کہنا‘ کرنا تو درکنارسننا بھی ارکان ایم کیو ایم کے بس میں نہیں جبکہ ہر معاملے میں ایم کیو ایم کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ الطاف بھائی سے بات کریں‘ وہ جو حکم فرمائیں گے ہم تعمیل کے پابند ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی منت سماجت سے اسحٰق ڈار کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اس لیے مولانا فضل الرحمن کو ایم کیو ایم کے لیڈروں بالخصوص الطاف حسین سے سلسلہ جنبانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مولانا منطق و استدلال کے میدان کے شہسوار ہیں اورتاویل ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ صوفی و مُلاّ کی تاویل نے بڑے بڑوں کو گھائل کیا حتیٰ کہ علاّمہؒ پکار اٹھے؎
زمن بر صوفی و مُلاّ سلامے
کہ پیغام خدا گفتند ما را
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت 
خدا و جبریل ؑ و مصطفیؐ را
(میری طرف سے صوفی و ملا کو سلام نیاز۔ جن کے طفیل خدا کا پیغام ہم تک پہنچا ‘مگر ان کا اسلوب تاویل؟ استغفراللہ! خدا تعالیٰ جبرئیل علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حیران و پریشاں کہ یہ ہم سے کیا منسوب کیا جا رہا ہے)
رینجرز آپریشن نے عسکری ونگ کی کمر توڑ دی ہے۔ ایم کیو ایم دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح سیاسی بنیادوں پر وجود میں آئی نہ اس کا سیاسی ونگ فیصلوں میں آزاد و خود مختار ہے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور‘ دکھانے کے اور کے مصداق سیاسی ونگ محض رونمائی کے لیے ہے‘ اصل قوت سیکٹر کمانڈرز کے پاس ہے جو براہ راست الطاف حسین کو جوابدہ ہیں اور ہر طرح کی کارروائیوں میں آزاد۔ رینجرز نے انہی سیکٹرز کمانڈرز میں سے بعض پر ہاتھ ڈالا جو بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے علاوہ دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہیں‘ عیدالفطر سے پہلے فطرانے کی جبری وصولی روک کررینجرز نے لندن سیکرٹریٹ کے لیے مالی مشکلات پیدا کر دیں اور ایم کیو ایم کراچی میں ہڑتال و ہنگامہ کرانے کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہوئی۔
شہریوں کو آزادی اور ایم کیو ایم قیادت کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے کارکنوں کو سوچنے سمجھنے کی فرصت ملی تو بہت سے عہدیدار‘ ارکان رابطہ کمیٹی اور ارکان اسمبلی بھی ادھر ادھر ہونے لگے جس کا تذکرہ الطاف حسین نے اپنے دو سابقہ خطابات میں کیا۔ لندن میں یہ خدشہ بھی محسوس کیا جانے لگا کہ اگر ارکان اسمبلی نے علیحدگی کا اعلان کیا تو پارٹی کو قومی سطح پر خفت اٹھانا پڑے گی اور یہ پارٹی پر الطاف حسین کی گرفت کمزور پڑنے کا اظہار ہو گا۔
مائنس ون فارمولا کی قیاس آرائیاں بھی الطاف حسین کے لیے سوہان روح تھیں چنانچہ مائنس ون فارمولا کی راہ روکنے اور پارٹی پر گرفت ظاہر کرنے کے لیے استعفوں کا جوا کھیلا گیا‘ چند ہی روز قبل چونکہ تحریک انصاف کے استعفوں کا قضیہ طے ہوا ہے اس لیے ایم کیو ایم پُراعتماد تھی کہ حکومت یہ استعفے منظور کر کے دو عملی کا الزام اپنے سر نہیں لے گی‘ جبکہ پیپلز پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتیں بھی کھل کر اس کی پشت پناہی کریں گی۔ مقصد یہ بھی تھا کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو دبائو میں لا کر آپریشن کی رفتار سست کرنے اور اپنے بعض ایسے ٹارگٹ کلرز کو چھڑانے میں مدد مل سکتی ہے‘ جن کی گرفتاری کی وجہ سے دوسرے کارکنوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور وہ کارروائیوں کے علاوہ سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔
میاں نواز شریف کی مشکل یہ ہے کہ وہ عمران خان کے حوالے سے تاحال واضح نہیں۔ ایم کیو ایم کے 24 ارکان قومی و51 ارکان صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات سے انہیں ہول آتا ہے کیونکہ کراچی میں مسلم لیگ ن؎
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے
تاہم اس سے بھی زیادہ خوفناک امکان اس بات کا ہے کہ اگر خان صاحب ایم کیو ایم کے استعفے منظورہونے کے بعد ایک بار پھر اپنے ارکان اسمبلی کے استعفوں پر تل گئے تو قومی اسمبلی کی پچاس سے زائد نشستوں پر الیکشن عام انتخابات کا سماں پیدا کر سکتے ہیں جس کی مسلم لیگ فی الحال متحمل نہیں۔
مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے پیش نظر اگلے بلدیاتی انتخابات بھی ہیں۔ مسلم لیگ یہ سمجھتی ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات سے قبل ضمنی انتخابات کا رن پڑا تو تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا جبکہ ایم کیو ایم کا خیال ہے کہ وہ ان استعفوں کی وجہ سے حاصل کردہ ہمدردی کو بلدیاتی انتخابات میں ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کرسکتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ اپنے ناظم کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے اور آپریشن کی لو مدھم کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ یہ کامیابی بلدیہ کراچی و حیدر آباد کے علاوہ ان کے ماتحت اداروں کے مالیاتی نظام کو گرفت میں لینے اور لندن سیکرٹریٹ کی مالی مشکلات کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ صوبائی حکومت سے علیحدگی کے بعد گزرے شب و روز نے الطاف بھائی سے لے کر دیگر لیڈروں کو بور کر دیا ہے۔ ماضی کی خوشگوار و ثمربار یادیں انہیں مضطرب رکھتی ہیں؎
دن رات میکدے میں گزرتی تھی زندگی
اختر وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے
کہاں تو وہ دن کہ آصف علی زرداری ‘یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف ‘ رحمان ملک‘ اسحاق ڈار اور دیگر نائن زیرو اور لندن کے پیر خانہ پر حاضری کے لیے بے تاب نظر آتے تھے اور کہاں یہ حالت کہ قائد محترم سے فون کے روادار بھی صرف سردار ایاز صادق اور مولانا فضل الرحمن ہیں جو دوسروں کی سننے سے زیادہ اپنی سنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹی وی چینلز بھی از خود یا کسی دبائو پر بے رخی برتنے لگے ہیں۔ اسی بنا پر پارلیمنٹ میں واپسی کے لیے ایم کیو ایم کی پہلی شرط یہ ہے کہ بھائی کے لائیو خطاب پر عائد پابندی واپس لی جائے۔
ایک سازشی تھیوری یہ ہے کہ الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کے ''حسن سلوک‘‘ کا شکار ارکان پارلیمنٹ کے استعفے ایک نئی ایم کیو ایم کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ قائد کے ڈسپلن سے آزاد سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی آزادی سے فیصلہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے اور انہیں کسی سے بے وفائی کا طعنہ سننا نہیں پڑے گا‘ جبکہ کراچی آپریشن کے حوالے سے اسلام آباد اور کراچی کے حکمران طبقے کے اصل عزائم بھی کھل کر سامنے آ جائیں گے کہ ان کی ہمدردیاں آپریشن کرنے والوں کے ساتھ ہیں یا وہ اسے ناکام بنانے پر تلے عناصر کے ہم رکاب؟ ڈاکٹر فاروق ستار نے پارلیمنٹ کے باہر اور اندر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف جو تفصیلی چارج شیٹ پیش کی اس پر چوہدری نثار‘ پرویز رشید اور خواجہ آصف کی خاموشی حیران کن تھی۔
ایم کیو ایم کے استعفے تو جیسے تیسے واپس ہو ہی جائیں گے کیونکہ مفاہمتی سیاست کا یہی تقاضہ ہے اور حکومت کے علاوہ فرینڈلی اپوزیشن کو بھی سیاسی بحران گوارا نہیں۔ مبینہ طور پر پانچ میں سے دو تین شرائط بھی مان لی جائیں گی مگر کراچی آپریشن کو رکوانے اور کراچی کو نچوڑنے کی خواہش اب شاید پوری نہ ہو کیونکہ پلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی بہہ چکا ہے اور قوم کو ایم کیو ایم کی ناز برداری سے زیادہ کراچی کا امن پاکستان کا استحکام اور سکیورٹی فورسز کا مورال عزیز ہے۔
دو ٹی وی چینلز پر الطاف بھائی کی گفتگو سن کر مادھو رام جوہر یاد آئے؎
کیا یاد کر کے روئوں کہ کیسا شباب تھا
کچھ بھی نہ تھا‘ ہوا تھی‘ کہانی تھی‘ خواب تھا
اعتماد کا بحران ہے اور کراچی کے بدلتے ہوئے حالات آپریشن کی کامیابی کی دلیل‘ لہٰذا بے جا توقعات وابستہ کرنے کے بجائے ایم کیو ایم کو اپنا طریق کار ‘ طرز عمل اور انداز گفتگو بدلنا پڑے گا۔؎
اب عطر بھی ملو تو تکلف کی بو کہاں
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں